کیا احمد فراز واقعی میر تقی میر سے بڑے شاعر تھے؟


استادوں کا طریقہ یہ رہا ہے کہ جب انہوں نے کوئی بات سمجھانی ہوتی تھی تو بہت ہی تمیز دار اور شائستہ لہجے میں بات کی جاتی تھی۔ کچھ لکھتے تو اس کے پیچھے مطالعہ اور سلجھا ہوا دماغ نظر آتا تھا۔ اپنے علم کی نمائش نہیں کرتے تھے۔ اپنی رائے کے ٹھیک ہونے پہ زور نہیں دیتے تھے۔ زبردستی کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہوتا تھا۔ اگر دو شخصیات کے درمیان کوئی موازنہ کرنا ہوتا تو وہ بھی بڑے سلیقے سے ہوتا تھا۔ ناانصافی کی ایک جھلک بھی نظر نہیں آتی تھی۔ کوئی ایسی چمک ان کی تحریر میں نہیں ہوتی تھی جو اپنی پارسائی یا بڑے پن کی طرف اشارہ کرتی ہو۔ ان کی بات میں ٹھہراؤ ہوتا تھا، وہ محاذ جنگ کے گھوڑے پر سوار ہونے کے بجائے دلیل سے بات کرتے تھے نہ ہی مناظرے بازی جیسی کوئی صورت حال نظر آتی تھی۔ ایک اچھی تحریر میں عموماً یہ چیزیں اب بھی معیار سمجھی جاتی ہیں۔

ہم شیکسپئر کا موازنہ ہیری پوٹر سیریز کی مصنف سے نہیں کر سکتے۔ امرالقیس کو نزار قبانی سے کمپئیر نہیں کر سکتے۔ متنبی کو محمود دورویش سے نہیں بھِڑا سکتے۔ فردوسی اور فروغ فرخ زاد کیا واحد حرف فے مشترک ہونے کی بنیاد پہ آپس میں ٹکرائے جا سکتے ہیں؟ حافظ شیرازی اور احمد شاملو کا مقابلہ ممکن ہے؟ رحمان بابا کے سامنے غنی خان کیا کھڑے ہو سکتے ہیں؟ خوشحال خان خٹک کا تقابل قلندر مہمند سے ممکن ہے؟ شاہ بھٹائی کو شیخ ایاز کے جوڑ پہ کھڑا کیا جا سکتا ہے؟ بابا فرید اور شاکر شجاع آبادی بھی اسی طرح دوبدو نہیں لڑائے جا سکتے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ایک چیز ٹائم ٹیسٹڈ ہوتی ہے، وقت اور نسلوں کے امتحان پاس کرتی ہے۔ عین ممکن ہے یہ تمام شاعر آج سے دو سو برس بعد بھی اسی آب و تاب سے چمک رہے ہوں لیکن کیا استاد کی جگہ خالی ہو جائے گی؟ کیا شیکسپئیر، امرالقیس، متنبی، فردوسی، شیرازی، رحمان، خٹک، بھٹائی، فرید بھلا دئیے جائیں گے؟

اردو میں ادبی مچیٹے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ میر انیس اور دبیر کے ماننے والوں میں باقاعدہ پھڈے ہو جاتے تھے۔ میر تقی میر اور غالب کے معتقدین بھی سرپھٹول کرتے پائے گئے۔ ایک ہی دور کے مختلف شاعروں کی عظمت بڑھانے کے چکر میں ان کے شاگرد آپس میں دنگل کر لیا کرتے تھے۔ یہ سب روٹین کی بات تھی۔ پھر جب شاعری کو موضوع سمجھ کے اس پر باقاعدہ لکھنے کا آغاز ہوا تو ہم تنقید نگاروں سے واقف ہوئے۔ محمد حسین آزاد، حسرت موہانی، فراق گورکھپوری، کلیم الدین احمد، سید احتشام حسین، حسن عسکری، جمیل جالبی، سجاد باقر رضوی، سلیم احمد، شمیم حنفی، ممتاز حسین، مشفق خواجہ، انتظار حسین، مظفر علی سید، وارث علوی، شمس الرحمن فاروقی، سہیل احمد خان اور بہت سے دوسرے لکھنے والوں نے ہمیں شاعری اور شاعروں کے بارے میں نئی باتیں بتائیں۔ وہ انسان تھے، بعض اوقات ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی۔ کبھی کبھار دوستی یاری تنقید پہ غالب آ جاتی ہے اور بڑی بڑی غلطیاں ہو جاتی ہیں، عجیب وغریب دعوے کر دئیے جاتے ہیں۔ ایسی ہی چند غلطیاں شمس الرحمن فاروقی صاحب، وارث علوی یا ساقی فاروقی سے بھی ہوئیں۔ وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ وہ جب گزر گیا تو جو بات درست تھی وہ آج بھی درست ہے، جو غلط نکلی اس پہ خود بات کرنے والا بھی پچھتاتے دیکھا گیا۔

منصور آفاق صاحب ایک حالیہ تحریر میں دعوی کرتے ہیں کہ احمد فراز میر تقی میر سے بڑے شاعر ہیں۔ یہ دعوی انہوں نے اس سے پہلے محترم ہارون رشید صاحب کے روبرو کیا، وہ خوبصورتی سے پہلو بچا گئے تو اس کی مزید تفصیل کے لیے دعوی کنندہ نے ایک کالم وقف کر دیا۔ وہ پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فراز انہیں ذاتی طور پہ شدید پسند ہیں اور واحد طریقہ انہیں خراج تحسین پیش کرنے کا یہ نظر آتا ہے کہ میر کو فراز سے ہیٹا ثابت کر دیا جائے۔ خود احمد فراز میر کے بارے میں کیا کہتے ہیں، پہلے یہ دیکھ لیا جائے؛

فراز شہر غزل میں قدم سلوک سے رکھنا

کہ اس میں میر سا، غالب سا خوش نوا بھی ہے

پھر ایک اور جگہ احمد فراز نے کہا؛

عاشقی میں میر سے خواب مت دیکھا کرو

باؤلے ہو جاؤ گے، مہتاب مت دیکھا کرو۔

فراز ارفع شخصیت تھے، پڑھے لکھے تھے، اس دوسرے شعر میں کیا خوب صورت اشارہ میر کی دیوانگی اور ذاتی حالات کی طرف کر گئے پھر ان کے بڑے پن کا بھی اعتراف کر لیا۔

عرض یہ ہے کہ میر کے بہتر نشتر فضل الحسن حسرت موہانی نے اپنے رسالے اردوئے معلی میں سب سے پہلے اکٹھے کیے۔ پھر بابائے اردو مولوی عبدالحق نے بھی ایک انتخاب کیا، ناصر کاظمی نے کیا، حسن عسکری نے کیا، احمد مشتاق شاید کر دیتے کہ یہ ڈیپارٹمنٹ ان کا بھی تھا۔ خیر، تو ان سب سے پہلے بھی سودا، ناسخ، غالب، ذوق، مصحفی، شیفتہ، مجروح، حالی، داغ، امیر، جلال، اسمعیل میرٹھی، اکبر الہ آبادی، حسرت موہانی وغیرہ اپنے شعروں میں میر صاحب کو استاد مان چکے تھے پھر ابن انشا اور جون ایلیا نے بھی میر کا اعتراف جگہ جگہ کیا۔ تو کل ملا کے شروع سے آخر تک سب تنقید نگار اور شاعر لوگ خود احمد فراز سمیت جب ہر کوئی میر کی ادبی حیثیت تسلیم کرتا ہے تو ایسے میں ان دونوں کا موازنہ کر کے احمد فراز کو جتانے کا جتن کیسے ہوا، آگے دیکھتے ہیں۔

اگر مجھے اپنے نانا مرحوم کے دو سو زندہ شعر یاد ہو جائیں تو کیا وہ احمد فراز سے بڑے شاعر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، لیکن میر کے معاملے میں صاحب مضمون نے ایسا ہی دعوی کیا ہے۔ اقبال، غالب، میر بلکہ فیض کو بھی زندہ رہنے کے لیے چند اشعار کی ضرورت نہیں ہوتی، ایسے شاعروں کے یہاں ایک پوری فضا ہوتی ہے، اگر آپ اس میں فٹ آ گئے تو سب دروازے کھل جائیں گے، نہیں آ سکے تو اس میں کوئی حرج نہیں، نئے صنم تراشے جا سکتے ہیں کہ زمانے کا چلن یہی ہے لیکن یار، کوئی دلیل سالڈ ہونی چاہئیے۔ ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ میر پہ کتابیں بہت کم لکھی گئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال پر تحقیق قومی سرپرستی میں ہوتی ہے، غالب پہ انڈیا اور پاکستان میں کئی اکیڈمیاں قائم ہیں، فیض صاحب کا تو ماشاللہ اپنا ہی پورا سرکل مکمل اسٹیبلیشڈ ہے ایسے میں دو سو برس پہلے مرنے والے بے آسرا میر کو پوچھے گا کون بھائی؟ ہاں فلمیں ڈرامے بن سکتے تھے وہ یار لوگوں نے بنا دئیے۔

جو آخری اعتراض میر تقی میر پہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ ان کی شاعری میں کریہہ المنظر جنسیت بھری ہے، وہ قوم لوط کے شاعر ہیں اور انہوں نے ہزاروں اشعار لڑکوں کے بارے میں “لکھے” ہیں۔ صاحب پہلی بات تو یہ کہ شعر کہے جاتے ہیں، جو لکھتا ہے وہ شاعری نہیں کرتا، خراد کی دکان کھولتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس طرح کا اعتراض معلوم تاریخ میں تیسری مرتبہ ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ مرحوم چنگیز خان نے دشمنوں کی کھوپڑیاں اور کتابیں جلوائیں یا دریا میں بہا دیں، دوسری مرتبہ اللہ بخشے ڈپٹی نذیر احمد کے ایک ہیرو نے اسی قسم کے اعتراض کر کے ساری کتابیں ڈھیر کروا کے سوختہ کیں، تیسری بار خدا کے فضل سے 2017 میں یہ صورت حال دیکھنا پڑی کہ میر غریب پہ مورچے لگ گئے۔ اللہ غنی! وہ بے نیاز ہے!

بھائی اس حساب سے امیر خسرو اور شاہ حسین پہ بھی یہی حد لگتی ہے۔ شیخ سعدی یا خیام بے چارے بھی اسی کوڑے سے مار کھائیں گے اور تقریباً سارے اردو شاعروں اور ناول نگاروں کو پھانسی لگانی پڑے گی۔ جنسیت تو مولانا دنیا بھر کے ادب میں ہے، آرٹ میں ہے، چنتے رہئیے۔ وہ جو لڑکوں کے بارے میں اشعار لکھے گئے ہیں وہ فارسی کی روایت اردو میں ویسی کی ویسی چل کے آ گئی ہے۔ غزل کا مزاج ایسا ہے کہ اس میں خاتون کو ڈائریکٹ مخاطب نہیں کیا جا سکتا، یہ شعری رعایت ہے، اشارے کنائے سے کام لیا جاتا ہے۔ اگر مومن خاں مومن یہ کہتے کہ تم میرے پاس ہوتی ہو گویا / جب کوئی دوسری نہیں ہوتی، تو بھائی شعر کیا بھاؤ بکنا تھا؟ باقی حساب کتاب اہل تصوف چکائیں گے، یہ معاملات فقیر کے پر جلاتے ہیں۔ ہاں ایک درخواست اور ہے۔ ذکر میر نامی ایک کتاب ہے جو میر صاحب کی بائیو گرافی ہے اور نیا ایڈیشن چھپا ہے۔ اس کے صفحہ 102 (مرتبہ جہلم بک کارنر) پہ دیکھ لیجیے، وہاں میر صاحب غریب نے خود اپنی صفائی دی ہے۔ انہیں معاف کر دیجیے۔

شاعر تو دو ہیں میر تقی اور میر جون
باقی جو ہیں وہ شام و سحر خیریت سے ہیں!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain