میڈم نور جہاں: شہر میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا


محترمہ نور جہاں پر لکھے گئے ایک مضمون کی نازیبا زبان پر یار لوگ بجا طور پر ناراض ہیں۔ لیکن کیا ایسی باتیں ہمارے ملک میں فنکاراؤں کے بارے میں ہر دوسرے گھر اور محفل میں کی نہیں جاتیں؟ صرف وضاحت کے لیے عرض کر رہا ہوں۔ جس ملک میں ملالہ کے بارے فیس بک پر گھٹیا ترین زبان استعمال کی گئی ہو وہاں نور جہاں کو کون معاف کرتا ہے؟

اس سے پہلے کچھ تصاویر پر شور مچا تھا جس کے نتیجے میں آزادی اظہار پر بہت کمال کے مضمون پڑھنے کو ملے۔ جس کے لیے ایک مضمون نگار نے اس سارے علم کا کریڈٹ مسماۃ سنی لیون کو دیا ہے۔

بعض دوستوں کے خیال میں ہم سب دانستہ اس طرح کا مسالہ چھاپتا ہے تاکہ ویب سائٹ کی ریٹنگ بڑھے۔ جتنا ہم وجاہت مسعود اور دوسرے دوستوں کو جانتے ہیں ہمارے خیال میں ریٹنگز ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ روٹی روزی کی ضرورت سب کو ہوتی ہے لیکن ہمارے ذاتی علم کے مطابق “ہم سب”  سے ابھی کسی کی روٹی روزی نہیں جڑی۔ وجاہت مسعود تین یونیورسٹیوں میں پڑھاتا ہے اور عدنان خان کاکڑ جو ہماری طرح بظاہر چوبیس گھنٹے سوشل میڈیا پر پائے جاتے ہیں وہ بھی اپنی روٹی روزی کے لیے انفارمیشن سسٹم قسم کا کوئی دھندہ کرتے ہیں۔

اب ہم واپس نورجہاں والے مضمون کی طرف آتے ہیں۔ یار لوگوں نے اس کو گٹر سے تشبیہہ دی ہے جو بظاہر درست لگتی ہے۔ لیکن اگر سماج میں گٹر جیسی سوچ موجود ہے تو اس کو سامنے لا کر اس پر بات چیت کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کی کوشش میں ہمیں تو کوئی ہرج معلوم نہیں ہوتا۔ اس مضمون اور تصاویر سے شخصی آزادی اور آزادی اظہار کے موضوعات پر شروع ہونے والی بات چیت یقیناً مفید ہوگی۔ رہا میڈم نورجہاں کا مقام یا احترام تو انھوں نے نہ تو اپنی زندگی میں کبھی ایسی باتوں کی پروا کی نہ اسے اب ہوگی۔

یہ جو وقتاً فوقتاً غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں، کوئی سبین محمود ماری جاتی ہے کہیں خواجہ سرا قتل ہوجاتے ہیں۔ ان سب کے پیچھے ایک سوچ ہوتی ہے۔ اس کو اگر آپ گٹر سوچ سمجھتے ہیں تو پھر اس پر سے ڈھکنا اٹھانا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ ورنہ زہریلی گیس جمع ہوکر زیادہ نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

سعادت حسن منٹو بھی ساری زندگی دائیں اور بائیں بازو والوں سے گالیاں کھاتا رہا۔ تاریخ گالیاں دینے والوں اور کھانے والوں کے مقام کا تعین کر چکی ہے۔

بہاؤ کے خلاف تیرنا تو درکنار اس کے مقابلے میں کھڑا ہونا ہی اس سماج میں بہت ہمت کا کام ہے۔ ورنہ ریٹنگز اور پیسے بنانے ہوں تو عامر لیاقت، مبشر لقمان، ڈاکٹر شاہد مسعود، بدزبان خادم مولویوں، ترجمان احسان اللہ احسان اور مولوی عبدالعزیز (عرف وحشی عالم ، لالو لال مسیت) کا محفوظ اور ‘باعزت’ راستہ بھی سامنے ہے۔ تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ

جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

نوٹ:مضمون کا موضوع تو بظاہر نور جہاں ہے لیکن ہمارے ذاتی خیال میں اس کو چھاپنے کا مقصد ایک سوچ اور طرز بیان کو سامنے لانا تھا تاکہ اس سوچ اور طرز بیان کی مناسب طریقے سے دھلائی ہوسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).