ایران: حکومت مخالف احتجاج میں پولیس اور مظاہرین کی جھڑپیں


An Iranian university student raises her fist in a cloud of smoke at Tehran University

ایران کے مختلف شہروں میں گذشتہ تین روز سے جاری اسٹیبلشمنٹ مخالف مظاہرے پرتشدد رنگ اختیار کر گئے ہیں اور بعض اطاعات کے مطابق مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں کو نظرِ آتش کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی احتجاج کی ویڈیو میں آگ لگی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔

ایران میں عوام کے گرتے ہوئے معیارِ زندگی اور کرپشن کے خلاف ہونے والا یہ احتجاج سنہ 2009 میں اصلاحات کے حق میں ہونے والی ریلی کے بعد سب سے بڑا عوامی احتجاج ہے۔

مظاہرین نے ملک کے وزیر داخلہ عبدالرحمن رحمانی فضلی کی جانب سے ’غیر قانونی اجتماعات میں شرکت نہ کرنے کی‘ تنبیہ کو بھی بظاہر نظر انداز کر دیا ہے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

ایرانیوں کو ’غیر قانونی اجتماعات‘ سے دور رہنے کی تنبیہ

سعودی عرب اور ایران کی جنگ ہوئی تو کیا ہوگا؟

ایران اور سعودی عرب دست و گریباں کیوں؟

سعودی عرب اور اسرائیل کی یہ بڑھتی قربت کیوں؟

وزیر داخلہ عبدالرحمن رحمانی فضلی نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ’ان غیر قانونی اجتماعات میں شرکت نہ کریں کیونکہ اس سے ان کے اپنے لیے اور دوسرے شہریوں کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔‘

سوشل میڈیا کے ذریعے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ان مظاہروں میں اب تک دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیو مظاہرین کو پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق سرکاری عمارتوں پر بھی حملہ کیا گیا ہے۔

مظاہرے شروع کیوں ہوئے؟

ایران میں حالیہ مظاہروں کا آغاز مشہد سے ہوا جہاں عوام خوراک کی قیمیت میں اضافے اور پست معیارِ زندگی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، جس کے بعد یہ پورے ملک میں پھیل گئے۔

ایرانی حکام نے ان مظاہروں کا الزام انقلاب کے مخالفین اور غیر ملکی ایجنٹوں پر لگایا ہے۔

حکومت مخالف مظاہروں میں شریک افراد صدر حسن روحانی اور سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں۔

ادھر امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران میں جاری مظاہروں کے بارے میں حکومتی ردِعمل پر دنیا بھر کی نظر ہے۔ صدر ٹرمپ کی پریس سیکریٹری سارہ ہکابی نے دعویٰ کیا کہ ایرانی عوام حکومت کی بدعنوانی سے تنگ آ چکے ہیں۔

دوسری جانب سینچر کو ملک بھر میں حکومت کی حمایت میں جلوس نکالے گئے۔

خیال رہے کہ ایران میں جمعرات سے شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے ملک کے متعدد بڑے شہروں تک پھیل گئے ہیں جس کے بعد حکومت کے ہزاروں حامی بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

سرکاری ٹی وی پر تہران میں حکومت کے حق میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھا کر نکلنے والی برقعہ پوش خواتین کو دکھایا جارہا ہے۔

ان مظاہروں کا آغاز اس وقت ہوا جب صدر حسن روحانی کی حکومت بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی اور صرف ایک ہی ہفتے میں انڈوں کی قیمتیں دوگنا بڑھ گئیں۔

تاہم بعض مظاہروں کا دائرہ کار بڑھ کر حکومت مخالف احتجاج تک پھیل گیا، اور سیاسی قیدیوں کی رہائی اور پولیس کی جانب سے مار پیٹ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

یہ سنہ 2009 میں محمود احمدی نژاد کی قدامت پسند حکومت کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے کی یاد دہانی کراتے ہیں۔

اس وقت اصلاح پسندوں نے متنازع انتخابات کے خلاف مظاہرے کیے تھے جس کے نتیجے میں وہ دوبارہ حکومت میں آئے تھے۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈرس نے ٹوئٹر پر کہا: ‘ایرانی حکومت اپنے عوام کے حقوق بشمول ان کے اظہار کی آزادی کا احترام کرے۔ دنیا کی ان پر نظر ہے۔’

اس کے بعد یہ ٹویٹ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی نظر آيا۔ امریکی وزارت خارجہ نے تمام ممالک کو ‘ایرانی عوام کے بنیادی حقوق اور بدعنوانی کے خاتمے کے مطالبے’ کی کھلے عام حمایت کی اپیل کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق شمال میں راشت اور مغرب میں کرمانشاہ میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں جبکہ شیراز، اصفہان اور ہمدان میں مظاہرین کی تعداد کم ہے۔

ایران کے دارالحکومت تہران میں چند افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے2009 میں ہونے والے احتجاج کے بعد سب سے زیادہ شدید احتجاج ہیں اور اس کے ذریعے عوامی بے چینی نظر آ رہی ہے۔

جمعرات کو سب سے بڑا احتجاج مشہد میں دیکھا گیا جہاں 52 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

حکومت کی جانب سے غیرقانونی اجتماع کے خلاف وارننگ جاری ہونے کے باوجود ملک بھر سے سوشل میڈیا پر احتجاج کی کالز دی جا رہی ہیں۔

جبکہ جمعے کو ہونے والے احتجاج کی ویڈیوز جو سوشل میڈیا پر شائع کی گئیں ان میں سکیورٹی فورسز اور بعض مظاہرین کے درمیان کرمانشاہ میں ہونے والی جھڑپیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

ایران

جمعرات کو 52 افراد کو گرفتار کیا گیا

اس دوران مشہد میں ’نہ لبنان، نہ غزہ، میری زندگی ایران کے لیے‘ جیسے نعرے بھی لگائے گئے۔ اس حوالے سے مظاہرین کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی تمام تر توجہ ملکی مسائل کی بجائے خارجہ پالیسی پر مرکوز ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ’مشہد میں اس لیے گرفتاریاں عمل میں آئیں کیونکہ وہ سخت نعرے بازی کر رہے تھے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp