عطا الحق قاسمی کا اِستعفیٰ اور اُن کے خلاف بے بنیاد مہم


آج کے دور میں کوئی ھزاروں کی نوکری نہیں چھوڑتا کجا لاکھوں روپے ماہانہ کی پی ٹی وی کی چکا چوند کر دینے والی چیئرمین شپ کی نوکری پر لات مار دے۔ عطا الحق قاسمی ایسا ہی ایک دلیر اور بہادر شخص ہے جس کے مزاج اور اصول پر اگر کوئی چیز پوری نہیں اترتی تو پھر اُنہیں اپنے کسی بھی قسم کے نقصان اور مالی منفعت کی پرواہ بھی نہیں رھتی۔ جب یہ خبر آئی کہ عطالحق قاسمی کو چیئرمین پی ٹی وی مقرر کر دیا گیا ھے تو ادبی حلقوں میں بے حد خوشی پائی گئی کہ اب پی ٹی وی ادبی سرگرمیوں کا گہوارہ بنے گا کیونکہ الحمرا کے چئیرمین کی حیثیت سے عطا الحق قاسمی اپنی انتظامی صلاحیتیں منوا چکے تھے۔ آپ کے دور میں الحمرا میں ادب و ثقافت کے دروازے ھر ایک پر وا کر دیے گئے تھے۔ عالمی کانفرنسیں منعقد ھو رھی تھیں۔ ھفتہ وار مشاعروں نے زور پکڑ رکھا تھا اور آئے دن الحمراء آرٹس کونسل میں ادبی محفلیں ادب کے طالبعلموں کی پیاس بجھانے کا کام کر رھی تھی اس کے علاوہ الحمرا میں ثقافتی میلے کا آغاز بھی عطا الحق قاسمی کے دور میں شروع ھوا اس لئے چئیرمین پی ٹی وی کی خبر کا نشر ھونا تھا کہ اخبارات اور سوشل میڈیا پر مبارکبادوں ، نیک تمناوں اور خواھشات کا اظہار ھونا ایک فطری امید کے ساتھ تھا کہ امید بھی ان سے ھوتی ھے جو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ھوں۔

عطا الحق قاسمی نے جب پی ٹی وی کا پہلا اجلاس اٹینڈ کیا تو انہیں دو لاکھ کا چیک یہ کہہ کر پیش کیا گیا کہ جو بھی چئیرمین آتا ھے اسے یہ چیک پیش کیا جاتا ھے۔ یہ محکمانہ پروٹوکول ھے۔ قاسمی صاحب نے یہ کہہ کر چیک لینے سے انکار کر دیا کہ یہ ایک طرح کی لیگل کرپشن ھے اور میرے ھوتے ھوئے ایسی کسی کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسی طرح ڈائریکٹرز کی ھر میٹنگ کے بعد 20 ھزار کا چیک ھر ڈائریکٹر کو ملتا ھے اور پی ٹی وی چیئرمین کو چونکہ ڈائریکٹر کی حیثیت بھی حاصل ھوتی ھے اس لحاظ سے ھر اجلاس کے بعد یہ بیس ھزار انہیں بھی پیش کئے جاتے مگر عطا الحق قاسمی کی طبعیت نہیں مانی اور کبھی یہ بیس ھزار کا چیک وصول نہیں کیا بلکہ یہ چیک اس دو لاکھ کے چیک کے ساتھ یہ بھی قومی خزانے میں جمع ھوتا رھا۔ عطا الحق قاسمی نے آتے ہی اعلان کیا کہ ان کا یَک نکاتی ایجنڈا ھے کہ تمام ٹی وی پروڈکشن ان ھاوس کی جائے گی۔ 26 اسٹوڈیو بند پڑے تھے۔ ڈرامے باھر سے خریدے جا رھے تھے اور پی ٹی وی کے خزانے پر بھاری بوجھ پڑا تھا۔ عطا الحق قاسمی نے پروڈیوسروں سے کئی میٹینگز کی اور ان کی یک نکاتی پالیسی کے مطابق ان ھاوس پروگرامز کا آغاز ھوا اور اب اسٹوڈیوز کی مصروفیت کا یہ عالم ھے کہ ریکارڈنگ کے لئے پہلے سے پروڈیوسرز کو وقت حاصل کرنا پڑتا ھے۔ آوٹ ڈور پروڈکشن بالکل ختم کی جا چکی ھے جبکہ نچلے درجے کے ملازمین جن کے برس ہا برس کے ملازمتی مسائل تھے اور نوکریاں کنٹریکٹ پر تھی، ان سب کو مستقل کر دیا گیا۔ ان کی تنخواہوں کے مسائل حل کئے گئے اور انہیں از سر نو کام پر لگایا گیا۔

پروڈیوسرز کے کمرے میں ذاتی جیب سے اے سی لگوائے گئے تاکہ آرٹسٹ آئیں تو گرمی میں نہ بیٹھیں۔ ان سب کا مقصد ملازمین اور پروڈیوسرز کو عملی طور پر متحرک کرنا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا تھا کہ پی ٹی وی کا سنہری دور پھر سے شروع کیا جا سکے۔ اردو ادب اور مشاعروں کے حوالے سے ھر روز مرکزی خبر نامے میں 5 منٹ کی خبریں شامل ھوتیں۔ دس سال بعد دوبارہ پی ٹی وی پر مشاعرے شروع ھوئے۔ عہد رفتہ کی طرح ایک بار پھر ہر صوبے کے پی ٹی وی اسٹیشن شاعروں ادیبوں سے آباد ھونے لگے۔ پی ٹی وی اسلام آباد سنٹر پر قومی مشاعرے اپنا رنگ جماتے اور پورے پاکستان سے شاعروں کو قومی یکجہتی اور یوم پاکستان کے حوالے سے مشاعروں میں مدعو کیا جانے لگا۔ “رات گئے” جیسا مقبول ادبی پروگرام گزشتہ دو برس سے بند تھا اسے نئے اور خوبصورت انداز کے ساتھ دوبارہ شروع کروایا گیا۔ عملی طور پر پی ٹی وی کو مزید متحرک کرنے کے لئے “کھوئے ھووں کی جستجو ” جیسا اعلی پروگرام خود شروع کیا جس میں قوی خان ، انور مقصود ، انور مسعود ، رضا ربانی ، صدر پاکستان ممنون حسین سے لے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ تک تمام علم و ادب ، سیاست اور ثقافت سے ثقہ بند اور مُستند لوگوں کی زندگی کو ان کی زبانی سامعین کی نذر کیا گیا جس میں کئی ماضی کے نامور بھولے بسرے چہرے ایک بار پھر ھماری آنکھوں کے سامنے ھسنتے بولتے اور اپنی زندگی سے وابستہ یادوں کی پٹاری کھولتے ھوئے نظر آئے۔

یہیں سے جب پی ٹی وی ابھرتا نظر آیا تو کئی حاسدین کی جلن جاگ گئی۔ کئی طبلچی ساتھ ملائے گئے اور مخالفانہ مہم کا آغاز ھوا۔ انفارمیشن منسٹری جسے منجھے ھوئے منتظم اور صاف شفاف سیاستدان پرویز رشید چلا رھے تھے، ڈان لیکس میں نام آنے کی وجہ سے نواز شریف سے محبت نبھانے کی خاطر مستعفی ھو گئے اور پھر وزارت اطلاعات مریم اورنگزیب کے نا تجربہ کار ھاتھوں میں آن لگی جس نے اپنا سکہ جمانے کے لئے اور اپنے نمبر ٹانکنے کے چکر میں کئی غیر ضروری اقدامات کرنا شروع کئے جن میں ڈائریکٹرز کے اختیارات میں کمی، چئیرمین کے اختیارات کا خود استعمال اور غیر ضروری طور پر اپنی تشہیر پر زور دیا جانا شامل ہیں۔ نواز شریف کے مستعفی ھونے کے بعد غیر ضروری مداخلت اس حد تک بڑھی کہ ایم ڈی کے بغیر ہی کتنا عرصہ اپنے من پسند افسران سے پی ٹی وی کو چلانے پر زور دیا گیا۔ قومی اخبارات میں ایم ڈی کے اشتہارت شائع کروائے گئے مگر خود ہی اپنے سیکرٹری رب نواز کو ایم ڈی کا چارج دیتے ھوئے میرٹ کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔

غیر قانونی پوسٹینگ اور پی ٹی وی کے ادارے میں بے جا مداخلت کو عطا الحق قاسمی بحثیت چیئرمین دیکھنا گوارا نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی اپنی ناک تلے اپنی کوششوں پر پانی پھرتے دیکھ سکتے تھے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ جس نواز حکومت کو وہ صرف ان کی ملک کے لئے بہتر پالیسیوں کی وجہ سے پسند کرتے ہیں اسی حکومت کے ھوتے ھوئے یہ سب چلتا رھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر اس عہدے پر رہ کر ان کی صلاحیتوں  اور پالیسیوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جانا جس کام کے لئے سابقہ وزیرِ اعظم نواز شریف نے ان پر بھروسہ کرتے ھوئے تعینات کیا ھے تو پھر بلاوجہ اس کرسی سے چِمٹے رھنے کا کوئی فائدہ نہیں یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مزید کام کرنے سے انکار کر دیا اور مُستعفی ھو گئے اور بطور چئرمین پی ٹی وی کی بلاوجہ تنخواہ لینے کو حرام سمجھا اور چیئرمین شِپ واپس کر دی۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق مریم نواز شریف سے لے کر کافی سنجیدہ حکومتی حلقوں کی جانب سے ان پر یہ استعفیٰ واپس لینے کے لئے دباؤ جاری ھے مگر ان کا فیصلہ ا ٹل ھے۔ عطا الحق قاسمی وہ واحد شخص ھیں جن پر اگر کوئی الزام ھے تو وہ صرف یہ ھے کہ انہوں نے اس وقت بھی نواز شریف کی طرفداری کی جب ان کے بہت قریبی لوگ بھی ان کے ساتھ نہ رھے ان کے مخالفین جھوٹے اور مکروہ الزام تو لگا سکتے ہیں مگر کرپشن کی ایک پائی ثابت نہیں کر سکتے۔ دکھ اس بات کا ھے کہ عطا الحق قاسمی کو اگر کوئی دکھ ھو سکتا ھے تو وہ یہ ھو گا کہ ان کے خلاف یہ گھٹیا پروپیگنڈہ کرنے والے کوئی اور نہیں، ان کی اپنی وزارت کے لوگ ہیں اور کچھ وہ لوگ جو بغض نواز شریف میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ اس کی سزا ھر اس شخص کو مل رھی ھے جو بھی نواز شریف کے حق میں کھل کر بولتا ھے۔ عطا الحق قاسمی کو یہی سب جھیلنا پڑا ھے۔ عطا الحق قاسمی کا استعفیٰ دینے کی دیر تھی کہ دشنام طرازوں کے ریوڑ کھل گئے اور بن برسات وہ مینڈک بھی ٹرٹرانے لگے جن کی اپنے گھر میں عزت کوڑی کے مول نہیں۔ بھانت بھانت کی بولیاں سامنے آنے لگی۔ کچھ تو اپنی ذاتی محرومیوں کی یاد میں ڈیڑھ لاکھ روپے کی ویاگرا بھی بیچ میں لے آئے جس کا قطعی کوئی ثبوت نہیں۔ شاید انہیں اس بات پر رشک آتا ھو کہ عطا الحق قاسمی اس عمر میں بھی کیسے ھشاش بشاش اور تندرست نظر آتے ہیں۔ ان نادان لوگوں کو یہ علم نہیں کہ انسان کے اندر کی خوشی ہی اسے تا مرگ جوان رکھتی ھے۔ قاسمی صاحب یقین کریں آپ سے جن لوگوں کو بُغض ھے ان کا دکھ ہی یہ ھے کہ وہ عطا الحق قاسمی کیوں نہ بن سکے۔

 مجھے عطا الحق قاسمی کی تصویری سوانح عمری مرتب کرنے کا اعزاز حاصل ھوا ھے تین سال میں یہ کتاب مرتب ھوئی اور ان تین برسوں میں مجھے بہت قریب سے قاسمی صاحب کو ملنے اور جاننے کا موقع ملا ھے اور میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ھوں میں نے انسانی اصولوں پر پورا اترتا اتنا اعلیٰ انسان نہیں دیکھا۔ جتنا کچھ عطا الحق قاسمی کے متعلق بڑے بڑے رائٹرز کی طرف سے لکھا جا چکا ھوا ھے اس کے بعد اب بونے مخالفین کی پھدکیاں عطا الحق قاسمی کے ٹخنوں تک بھی نہیں پہنچ سکتی عطا الحق قاسمی نے کالم نگاری کی الگ نظریاتی روایت کو قائم کیا اور صفِ اول کے کالم نگار قرار پائے۔ مزاح نگاری کی تو مشتاق یُوسفی کے بعد اس وقت کے سب سے بڑے مزاح نگار کے درجے پر فائز ہیں۔ ٹی وی ڈرامے لکھے تو “شب دیگ ” اور “خواجہ اینڈ سنز ” جیسے شاھکار ڈراموں نے دھوم مچا دی۔ ناروے کے سفیر بنے تو آج بھی لوگ ان کی انسان اور وطن دوستی کو یاد کرتے ہیں۔ الحمرا اور پی ٹی وی کے حوالے سے جو کام کئے، ان کے بعد آنے والوں کے لئے بہت مشکل ھو گا کہ اسی معیار پر یہ کام کر سکیں۔ الحمراء آرٹس کونسل کی مثال ھمارے سامنے کی ھے کہ عطا الحق قاسمی کے جانے کے بعد دو برس میں کوئی ایک ایسا معیاری ادبی کام بتا دیں جو الحمرا کے اپنے پلیٹ فارم سے ھوا ھو۔ جانے والوں کے بعد ان کے کاموں کی قدر ھوتی ھے اور یہ قدرھونا شروع ھو چکی ھے۔ قاسمی صاحب سے استعفیٰ واپس لینے کی درخواست کی گئی ھے مگر عطا الحق قاسمی نے اس سے انکار کر دیا ھے کیونکہ آزاد منش انسان صرف اپنے اصولوں کا ھوتا ھے اور عطا الحق قاسمی کے اپنے اصول ہیں جن پر روپے پیسے کا زور نہیں چلتا۔ آخر میں عطا الحق قاسمی کے مخالفین کو مزید اذیت دینے کے لئے عرض ھے کہ ” جنگ ” کی طرف سے قاسمی صاحب کو ھر مہینے 7 لاکھ کی رقم کالم نگاری کی مد میں بطور تنخواہ دی جاتی ھے۔ جب آپ چیئرمین پی ٹی وی بنے تو چالیس لاکھ ان کی تنخواہ کی مد میں جنگ گروپ کی طرف واجب الادا تھے، انہوں نے چیک بنا کر بھیجا مگر عطا الحق قاسمی نے وہ بھی لینے سے انکار کر دیا کہ جب تک وی پی ٹی وی سے منسلک ہیں وہ یہ تنخواہ وصول نہیں کریں گے۔  اب تک کی یہ یہ رقم ڈیڑھ کروڑ کے آس پاس بنتی ھے۔ کرپشن کی ڈُگڈگی بجانے والو، کچھ لوگوں پر دولت کی چمک اثر نہیں کرتی۔ میں عطا الحق قاسمی کی ذات پر کیچڑ اچھالنے والوں کی پر زور مُذمت کرتا ھوں۔ یہ ازل کے محروم ساری زندگی محروم ہی رہیں گے۔  عطا الحق قاسمی ھمارے ادبی ھیرو ہیں اور رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).