یونان میں پھنسے نوعمر پاکستانی اور جسم فروشی


کیا غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے کم عمر پاکستانی تارکین وطن جسم فروشی کے کاروبار میں ملوث ہیں؟ اس موضوع پرایتھنز کے معروف اومونیا اسکوائر کا آنکھوں دیکھا حال۔

default

گزشتہ دنوں ہمارا ایتھنز جانا ہوا۔ مقصد وہاں مقیم پاکستانی برادری کو درپیش مشکلات اور ایسے پاکستانیوں کے حالات جاننا تھا جو غیر قانونی طور پر یونان پہنچتے ہیں۔ ایتھنز کے سفر سے قبل ہمیں علم ہوا کہ اس شہر میں ایسے پاکستانی کم عمر نوجوان جسم فروشی میں ملوث ہیں، جو غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے۔ یہ لڑکے سورج ڈھلتے ہی شہر کے مرکز میں واقع اومونیا اسکوائر پر اپنے گاہک تلاش کرتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ اگر ایسا ہے تو ان لڑکوں سے بات کی جائے۔

بائیس دسمبر کو، جب دو وقت مل رہے تھے، تو ہم دو مقامی پاکستانیوں کے ساتھ اومونیا اسکوائر پہنچے۔ اس روز ایتھنز میں صرف سردی ہی نہیں تھی بلکہ بارش بھی ہو رہی تھی۔

  • Griechenland Lebos Migranten aus Pakistan Rückführung Türkei

 

اپنے ساتھیوں کی مدد سے ہم ٹھیک اس مقام پر پہنچ گئے، جہاں اطلاعات کے مطابق جسم کے خریدار اور بیچنے والے ایک دوسرے کو تلاش کرتے ہیں۔ بارش کے سبب ہمیں وہاں کوئی بھی دکھائی نہیں دیا، ہم آگے بڑھ گئے۔ اس دوران مستقل اپنے موبائل فون کو چھپاتے ہوئے وڈیو بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ خاصا آگے تک جانے کے بعد بھی جب ہمیں کوئی مشکوک سرگرمی دکھائی نہ دی تو ہم واپس پلٹ گئے۔ اندھیرا اور بارش ہماری مشکلات بڑھا رہے تھے۔ واپسی پر جیسے ہی ہم ملبوسات کی ایک دکان کی روشنی کی حدود میں آئے تو ہمارے قریب سے گزرتے ہوئے ایک نوجوان نے اپنی آنکھوں کے اشارے سے ہماری توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جیسے وہ ہم سے بات کرنا چاہتا ہو۔ اس سے قبل وہ ایک عمر رسیدہ شخص کے ساتھ خفیہ انداز میں راز و نیاز کر رہا تھا۔ وہاں سے ناکامی کے بعد اس نے ہماری جانب رخ کیا۔ ہمارے مترجم نے ہمیں بتایا کہ وہ روزی روٹی کے لیے کسی کو ڈھونڈ رہا ہے اور اس کا تعلق روس سے ہے۔

اسی طرح ہمارے ایک دوست نے گاہک کی تلاش میں کھڑے ایک اور نوجوان سے دریافت کیا تو وہ البانیہ کا نکلا۔ اس موقع پر میں نے جیسے ہی اپنے موبائل کیمرے کا رخ ان کی جانب کیا تو وہ لوگ وہاں سے ہٹ گئے۔

مقامی نوجوان صحافیوں کی طرف سے ہمیں بتایا گیا کہ کچھ پاکستانی نوجوان واقعی جسم فروشی میں ملوث ہیں، لیکن اس کا بڑا سبب انہیں روزگار کا کوئی اور ذریعہ نہ ملنا ہے۔ پاکستانی برادری کی کوششوں کے سبب اور روزگار ملنے کے بعد کچھ نے یہ کام چھوڑ بھی دیا ہے۔ اسی طرح کے ایک ایسے پاکستانی نوجوان سے ہم نے ٹیلیفون پر بات کی، جو اب یہ کام چھوڑ چکا ہے۔ اس نے پہلے تو انٹرویو دینے کی حامی بھری لیکن بعد میں اس سے انکار کردیا۔ ہم نے اسے بہت سمجھایا کہ اس کا نام اور شناخت ظاہر نہیں کیے جائیں گے اور یہ کہ اس انٹرویو کا مقصد صرف ان لوگوں کو اصل حالات سے آگاہ کرنا ہے، جو کم عمری میں یوروپ آنے کے لیے غیر قانونی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں، مگر بدنامی کے خوف کے سبب وہ اس پر راضی نہ ہوا۔

دوسری جانب ایتھنز میں صحافت اور سماجی کام انجام دینے والے  مرزا جاوید سے جب ہم نے یہی سوال پوچھا تو ان کا اصرار تھا کہ جسم فروشی میں کوئی بھی پاکستانی نوجوان ملوث نہیں۔ ان کے بقول اس کام میں افغاستان، بنگلہ دیش اور البانیہ وغیرہ کے نوجوانوں کی کثرت ہے مگر جب ان سے ان کی قومیت دریافت کی جاتی ہے تو ان میں کئی ایک خود کو پاکستانی بتاتے ہیں، ’’یہ سارے الزامات بے بنیاد ہیں اور اپنے ملک کی بجائے پاکستان کا نام لینا ایک طرح سے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے‘‘۔ اس موقع پر انھوں نے ڈی ڈبلیو کی جانب سے ماضی قریب میں کی گئی ایک وڈیو رپورٹ پر بھی تنقید کی، جو ایسے کم عمر نوجوانوں مہاجرین کے بارے میں ہے جو جسم فروشی پر مجبور ہیں۔

اسی طرح ایتھنز کے سکونتی ایک اور پاکستانی نے بتایا کہ اس کاروبار میں ملوث کوئی بھی پاکستانی نوجوان پاکستانیوں سے بات نہیں کرتا۔

یونان کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں موجود زیادہ تر تارکین وطن کے لیے زندگی گزارنا انتہائی دشوار ہے۔ بہت سے پاکستانی کم عمر نوجوان تنہا بھی اس یورپی ملک میں پہنچے۔ اس تناظر میں ایک مقامی پاکستانی نے بتایا کہ ایسے کم سِنوں کو دوران سفر ہی مشکلات اور جنسی استحصال کا اس قدر نشانہ بننا پڑتا ہے کہ بعد میں ’اپنی بقا کے لیے جسم فروشی ان کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہ جاتی‘۔

بشکریہ؛ ڈوئچے ویلے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).