ڈو مور سے نو مور کے سفر تک کا حاصل کردہ سبق


سال 2018ء کا آغاز عالمی و خارجی محاذ پر پاکستان کے لیے دشوار ثابت ہوا ہے۔ امریکی صدر کی سال نو کی چند پہلی ٹویٹس میں سے ایک پاکستان کے بارے میں تھی؛ جس میں انھوں نے پاکستان کو گزشتہ پندرہ سالوں میں 33 ارب ڈالر دیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے، پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار پر تنقید کی اور امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔

اس ٹویٹ یا اس بیان کو لے کر پاکستان نے امریکی سفارت کار کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا ہے اور جلد ہی وزیر اعظم اور افواج پاکستان کی جانب سے اس کا جواب بھی دیا جائے گا۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ  کیا ارباب اختیار نے محض احتجاج کرنے کے علاوہ، امریکی امداد بند ہونے یا ایبٹ آباد جیسی کسی اور سرجیکل اسٹرائک سے نبٹنے کی تیاری کر رکھی ہے؟ کیا پاکستان، امریکا کی ناراضی مول لینے کی بساط رکھتا ہے؟ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی یقینا ہمارے لیے مشکلات میں اضافے کا باعث بنے گی۔

پاکستان نے روز اول سے امریکی اتحادی بننے کا جو فیصلہ کیا، اس کے نقصانات حاصل کردہ فوائد سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے ہمیشہ امریکا کی پراکسی وارز کو لڑا اور اپنا تشخص خود امریکا کے لیے کرائے پر لڑنے والی ریاست کے طور پر پوری دنیا میں قائم کیا۔

ڈالر اسپانسرڈ افغان جہاد سے لے کر کے وار آن ٹیرزم تک، ہم نے امریکا سے ڈالروں کے عوض جنگیں لڑیں۔ یہ وہ کڑوی سچائی ہے، جسے کسی بھی طور جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اس دوران اپنی ہی سرزمین پر ہم نیم رضامندی سے امریکی ڈرون حملے بھی برداشت کرتے رہے اور ایبٹ آباد میں امریکی فوج کی کارروائی پر بھی ہم نے چپ سادھ لی۔

اسامہ بن لادن کا ایبٹ آباد سے برآمد ہونا، ہمیں پوری دُنیا میں رُسوا کرواتے ہوئے ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی گئی قربانیوں کو اقوام عالم میں ضائع کرواگیا۔ افغانستان میں حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے چند عناصر کی سرپرستی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ اب امریکہ اپنے دیے گئے ڈالروں کے عوض آپ سے گڈ طالبان سمیت، حافظ سعید جیسے خود ساختہ اسٹریٹیجک ایسرٹس کو تلف کروانا چاہتا  ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کو پیدا کرنے میں خود امریکا کا ہاتھ ہے؛ حافظ سعید یا مسعود اظہر جیسے شدت پسندوں کی جانب سے بھی امریکا نے اپنے مفادات کے تحت ایک لمبے عرصے تک آنکھیں پھیر رکھی تھیں، لیکن اب امریکی پالیسی مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے اور دنیا کا اصول یہ ہے، کہ جو ملک کسی دوسرے ملک کو  جنگی اتحادی ہونے کی مد میں پیسا دیتا ہے، وہ اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے اور رقم لینے والے ملک کو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی مسلط کردہ شرائط کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے بڑھکیں لگانے یا جذباتی بیانات دینے سے ارباب اختیار شاید عوام کو تو ”ہیلوسینیشن“ میں مبتلا رکھ سکتے ہیں، لیکن اس کا کوئ بھی خاطر خواہ اثر ٹرمپ انتظامیہ یا بین الاقوامی دُنیا پر نہیں پڑے گا۔

دنیا ہمارے موقف کو تسلیم نہیں کرتی اور اس کی بڑی وجہ ہمارا وہ بیانیہ ہے، جو دُنیا کو بزور طاقت اور بزور شدت پسند گروہوں کے دم پر فتح کرنے کے گرد گھومتا ہے۔

ایٹم بم یا حافظ سعید جیسے شدت پسندوں کے دَم پر، اگر دہلی فتح ہوسکتا یا دُنیا پر غلبہ پایا جاسکتا، تو پھر مہذب اقوام اپنا بیانیہ سائنس اور ٹیکنالوجی، دیگر علوم کے گرد قائم نہ کرتیں۔ اگر ہم نے آرمی پبلک اسکول، پشاور کے معصوم بچوں کو گنوانے کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا اور ہٹ دھرمی سے اپنے گلے سڑے بیانیے پر قائم رہے، جس کا واضح ثبوت عصمت اللہ معاویہ کا ریاستی پروٹوکول کے ساتھ پشاور میں رہنا اور احسان اللہ احسان جیسے سفاک کا بطور مہمان بن کر رہنا ہے، تو غالبا ابھی ہم یہ بیانیہ تبدیل نہیں کریں گے۔ دوسری جانب امریکی بیانیہ ہے، جو پوری دُنیا میں امن امان خراب کرنے اور قتل و غارت گری کا باعث بنا ہوا ہے۔

عراق، لیبیا، مصر اور افغانستان میں جنگ و جدل اور قتال میں امریکی بیانیے کا واضح کردار ہے۔ پاکستان نے اس امریکی بیانیے کو اپنی حیثیت اور بساط سے بڑھ کر تقویت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے بدلے میں پاکستان، امریکا سے کبھی کولیشن اسپورٹ فنڈ تو کبھی سیدھی فوجی امداد، کبھی عالمی محاذ پر امریکا کی خاموش سفارتی حمایت اور کبھی بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے، امریکی دباو کی بنیاد پر قرضے حاصل کر کے امریکی آشیرباد سے مستفید ہوتا رہا ہے۔

اب مسئلہ یوں ہے کہ امریکا پاکستان سے حقانی نیٹ ورک سمیت تمام جہادی تنظیموں کے خلاف ٹھوس کارروائی چاہتا ہے۔ گزشتہ سال امریکا نے پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے ہاتھوں ایک کینیڈین خاندان کو چھڑوانے کے لیے سرجیکل اسٹرائک کی دھمکی تھی۔ جب انٹیلی جینس رپورٹ سے پتا چلا کہ امریکا، پاکستانی حدود میں ایبٹ آباد طرز کی ایک اور کارروائی کر سکتا ہے، تو انتہائی پھرتی سے کینیڈین خاندان کو بازیاب کروا کرامریکا کے حوالے کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے پاکستان پر دباو بڑھادیا اور ہمیشہ کی طرح ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا؛ اس کے جواب میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے ’نو مور‘ کی صدا  بلند کی۔

ہمارے پالیسی میکر اور سابق فوجی آمر پرویز مشرف جب رچرڈ آرمٹیج کی ایک فون کال پر ڈھیر ہوتے ہوئے امریکی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے رہے تھے، اس وقت ان سے حالات و واقعات سمجھنے میں سنگین غلطی کا ارتکاب ہوا۔ پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا، کہ روس کے خلاف ڈالر اسپانسرڈ افغان جہاد کے مانند اس جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر، نہ صرف اپنے کشمیر کی پراکسی وار لڑنے والے جہادی گروہوں سے امریکا اور دُنیا کی توجہ ہٹالی جائے گی، بلکہ افغانستان میں نوے کی دہائی  کے مانند، پاکستان کے حمایت یافتہ گروہ کو طاقت کی بساط میں حصہ دلوا کر اپنا اثر و رسوخ خطے میں بڑھایا جاسکے گا۔

اس کے برعکس امریکا نے جو منصوبہ بنایا، وہ افغانستان پر لمبے عرصے تک قابض ہوتے ہوئے، پاکستان کے اثرو رسوخ کو افغانستان میں کم کرنا تھا۔ امریکا کو افغانستان سے کھربوں ڈالرز کی ہیروئن پر بھی قابض ہونے کا موقع ملا اور معدنیات بھی اس کے حصے میں آئیں۔ جب کہ اس نے اس دوران اپنے ہی تیار کردہ جہادیوں کو بھی ختم کرنا شروع کردیا۔

پاکستان کو جب اس جنگ کے اثرات کا سامنا اپنے وطن میں دہشت گردی اور خون ریزی کی صورت میں کرنا پڑا تو پھر پاکستان نے اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد عناصر جو کہ بھارتی پراکسی کے طور پر استعمال ہورہے تھے، ان کی سرکوبی کے لیے اقدامات کیے، لیکن پاکستان کے اندر جہاد اور شدت پسندی کا جو بیانیہ کروڑوں اذہان میں منتقل ہو چکا تھا، اس کی بدولت آج بھی پاکستان میں ہر سطح اور ہر ادارے پر دہشت گردوں اور جہادیوں کی حمایت موجود ہے۔

امریکا کو اس امر کا ادراک کرنا ہوگا، کہ ان بیانیوں  کے زیر اثر پروان چڑھنے والی نسلوں کو شدت پسندی سے گریز کروانا، ایک طویل اور صبر والا عمل ہے، جس کے لیے دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔ اس عمل میں اگر امریکا پاکستان پر بلا جواز تنقید کرنے کے بجائے، پاکستان کے زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے پاکستان کا  امن پسند بیانیہ تشکیل  دینے میں ساتھ دے، تو دونوں ممالک نہ صرف طویل مدتی پارٹنر شپ کے ذریعے اپنے اپنے اہداف حاصل کر سکتے ہیں، بلکہ باہمی اعتماد کی فضا کو بھی پروان چڑھا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کو افغانستان اور جنوبی ایشیا کے زمینی حقائق کا ادراک کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد چین اور روس کے ساتھ اتحادی بننے کے جانب مرکوز کرنا ہوگی۔ ساتھ  ساتھ  پیسا لے کر کسی بھی ملک کی پراکسی وار، خواہ وہ امریکا ہو یا سعودیہ، کے عمل اور عادت کو اب ترک کرنا ہوگا۔

وگرنہ دنیا ہمیں کرائے پر لڑنے والی اجرتی ریاست سمجھ کر ہمیشہ ’ڈُو مور‘ کا تقاضا کرتی رہے گی۔ وطن عزیز کے بیتے گزشتہ ستر سالوں میں امریکی اور دُنیا کے ’ڈُو مور‘ سے ’نو مور‘ کے اس سفر تک  حاصل کردہ سبق واضح اور آسان ہے، کہ ریاست کو دفاعی کے بجائے فلاحی ریاست میں تبدیل کیا جائے اور ہمسایوں  سے امن پر مبنی تعلقات قائم کرتے ہوئے، قومی بیانیے کو علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیادوں  پر تشکیل دیتے ہوئے، جہادی اور شدت پسندی پر مبنی بیانیوں  کاخاتمہ کیا جائے۔

ریاست کو دوسروں کی  پراکسی وار میں دھکیلنے کے بجائے، اس کو دوسروں  کے معاملات سے علیٰحدہ رکھتے ہوئے صرف معاشی ترقی کی جانب تمام تر توانائیاں صرف کی جائیں۔ ریاست اگر ایجادات اور علم و آگہی کے حوالے سے دُنیا بھر کی خبروں کہ زینت بنے گی، تو ٹرمپ سمیت کوئی بھی قوت پاکستان کو ’ڈُو مور‘ یا ’نو مور‘ کہنے کی جرات نہیں کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).