چار جنوری اور سلمان تاثیر: مزاریں ہی مزاریں ہو گئی ہیں


چار جنوری یونہی بہت سے دنوں کے بیچ ایک عام سا دن تھا لیکن اب چار جنوری کو سلمان تاثیر کی برسی منائی جاتی ہے۔ اسے قتل کرنے والے کو بھی تختہ دار تک پہنچا دیا گیا ہے اور جہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا یعنی آسیہ مسیح وہ ابھی بھی جیل میں ہیں اور سماعت کب ہو گی یہ ہم نہیں جانتے۔ ممتاز قادری کو پھانسی دی جا سکتی تھی لیکن سوچ کو پھانسی نہیں دی جا سکتی، اسے تبدیل ہی کرنا پڑتا ہے یا اس کے ساتھ جینے کا کوئی سامان اگر ممکن ہو۔

ابھی پچھلے ہفتے ایک صاحب کو رہا کیا گیا، آٹھ نو سال پہلے ان پر توہین کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔ آخر سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کو یقین آ گیا کہ شواہد ناکافی ہیں تو بری ہوئے لیکن یہ نو سال کون واپس لوٹا سکتا ہے؟ پچھلے سال جنوری میں بلاگرز کو اغوا کیا گیا اور پھر ایک زوردار پراپیگنڈا مہم چلائی گئی کہ یہ لوگ توہین و گستاخی کے مجرم تھے۔ لوٹے تو وطن بدر ہونا پڑا کہ یہاں کب کوئی سرپھرا مار دے اور عاشق ہونے کے دعوے کرنے لگے۔ انہی آبدیدہ ہوئے جج صاحب کی عدالت میں آخر یہ سچ سامنے آیا کہ ان بلاگرز نے ایسا کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ سرخرو ہونا ایک بات ہے لیکن یہ ایک سال کی اذیت ، الزام دشنام اور وطن بدری کا ازالہ ہو سکے گا؟

فیض آباد پہ بیٹھے لوگوں نے جس طرح ایک نان ایشو کو ایشو بنا کر لوگوں کو مشکل میں ڈالا، صبح شام گالم گلوچ کا سلسلہ جاری رہا اور کوئی انہیں ہاتھ نہیں لگا سکا، یہ بھی کوئی پرانی بات نہیں۔ یونیورسٹی پالیٹیکس کا شکار جنید حفیظ جیل میں ہے اور اس کے وکیل راشد رحمان کا قتل اور پھر قتل کے بعد اس گلی میں ڈھول بجنے کی آواز جیسے اب تک سنائی دیتی ہے۔ ایک یونیورسٹی میں اسی طرح کی پالیٹیکس کا شکار مشال خان ہو جاتا ہے اور ایسا سناٹا رہتا ہے کہ ہر سیاستدان اس پر بات کرنے سے پہلے ہوا کے رخ کا اندازہ لگاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مشال کے قاتلوں کو مذہبی و سیاسی ہر طرح کی حمایت حاصل ہے ، آسیہ مسیح اور جنید حفیظ برسوں سے جیل میں ہیں کہ سماعت کون کرے، اداروں کو بلاگرز کے خلاف ثبوت نہیں ملا اور اس اعتراف کے بعد بھی لوگ کہتے ہیں ثبوت نہ ملنے کا یہ مطلب نہیں کہ کچھ کیا نہیں ہو گا۔ ایسے میں کچھ لوگ انتہائی سادگی سے کہتے ہیں دیکھیں اگر عدالتیں اپنا کام نہیں کریں گی تو مشال جیسے واقعات روز ہوں گے۔ ان بظاہر بھولے بادشاہوں کا کیا جا سکتا ہے۔ جو مقدمہ سنے اسے بھی خطرہ، جو کہہ دے کہ ثبوت نہیں ملا، اس پہ بھی یقین نہیں کرتے۔ ایسے الزام کا ثبوت بس یہ الزام ہی ہوتا ہے، کہتے ہیں کہ کچھ تو کیا ہو گا جو بات یہاں تک پہنچی۔ ملزم نہیں بس مجرم ہوتا ہے اور اسے سزا ہی ملنی چاہیئے ورنہ سب ملے ہوئے ہیں۔ جب سب فیصلے آپ نے کر ہی لیے تو یہ قانون عدالت والے بیان شاید ہمارا دل رکھنے کے لیے ہیں یا پھر خود کو دھوکا دینے کے لیے۔

پچھلے سال آج کے دن ایک پیر صاحب قمیض اتارے گالیاں دے رہے تھے، سال کے اختتام پہ ایسا ہی میلہ ایک اور صاحب نے سجا لیا، یہ جن بوتل سے نکالنا آسان تھا شاید آپ کے لیے بوتل میں بند کرنا بھی آسان ہو لیکن اس بیچ جو لوگ انتہا پسندی پہ مائل ہوئے اور ایک سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے معاملے کو مذہبی رنگ دینے سے جس طرح آتش فشاں کو آگ دکھائی جا رہی ہے، اس سے کسے نقصان ہو گا اور کیا اس کا ازالہ ہو سکے گا؟ کیا سیاسی یا نظریاتی مخالفوں کو غدار یا کافر کہنے سے، توہین و گستاخی، تحریک نفاذ ختم نبوت وغیرہ کا سہارا لینے سے معاملات بہتری کی طرف جائیں گے؟ بظاہر شاید کسی کو چپ رہنے پہ مجبور کیا جا سکے یا چپ کروایا جا سکے لیکن اختلافات اور تنقید کے جواب میں مذہب کو استعمال کرنے کے نتائج سبھی کو بھگتنے پڑتے ہیں کہ یہ ایسی آگ ہے جو رفتہ رفتہ سبھی کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).