میں کیوں لکھتا ہوں؟


اس لیے کہ مجھے کچھ کہنا ہوتا ہے۔ ادب پڑھتا ہوں، ادیبوں سے ملتا ہوں، زندگی کو پڑھتا ہوں۔ زندگی کے مطالبات اور ادیب کی تخلیقات کو بیک وقت دیکھتا ہوں تو اکثر اوقات ادب زندگی کے تقاضوں کو پورا کرتا نظر نہیں آتا اور ادیب زندگی سے آنکھیں چراتا اور زندگی پر قابض قاہر و جابر استبدادی قوتوں سے جسم و جاں کو بچاتا نظر آتا ہے۔ ایسے میں میرے دل پر جو گزرتی ہے اسے قلمبند کر دیتا ہوں۔ نہیں معلوم کہ میں جو کچھ لکھتا ہوں وہ ادبی تنقید ہے بھی یا نہیں۔ اقبال نے ایک مرتبہ میتھیو آرنلڈ کے اس مقولے پر کہ ”بے شک ادب زندگی کی تنقید ہے“ اس جملے کا اضافہ کیا کہ ”بے شک ادب زندگی کی تنقید ہے مگر زندگی بھی ادب پر تنقید کادرجہ رکھتی ہے“۔ میری کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ادب کو ادبی اور فنی اسلوب و ادا کے ساتھ ساتھ بھی سمجھا جائے اور زندگی کی نظروں سے بھی ادب کا تماشا کیا جائے۔ چنانچہ میری پہلی باقاعدہ تنقیدی کاوش ”اردو ادب اور قومی زندگی“ ہے۔ اس مضمون میں میں نے اپنی قومی زندگی کے مسائل اور مشکلات سے اپنے ادیب کو چشم پوشی اور لاتعلقی کو سامنے لانے کی کوشش کی تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ جب میں اس مضمون کو لکھنے میں مصروف تھاتب میرے سامنے ادب و فن کے جمالیاتی تقاضے نہیں تھے۔ اس کے برعکس میں اپنے ادب میں قومی و ملی طرز احساس کی کمیابی اور اپنے اجتماعی وجود کو سرسبز و شاداب رکھنے اور تندرست و توانا بنانے کی غرض سے ادیب کی غفلت کو اجاگر کرنے کو اولین اہمیت دے رہا ہوں۔ جب یہ مضمون شائع ہوا اور پھر سال کے بہترین مقالات میں شمار کیا گیا تب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو ادبی تنقید کے زمرے میں شمار کیا گیا۔

یہ مضمون میں نے مرحوم مرزا ادیب کو ”ادبِ لطیف“ میں اشاعت کے لیے بھجوایا۔ مرزا صاحب نے فوراً ایک تعریفی خط لکھا اور بتایا کہ رسالے کے آئندہ شمارے میں یہ مضمون شائع ہو رہا ہے۔ میں ابھی ابھی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوا تھا اپنی پہلی تحریر کی اس پذیرائی پر بہت خوش ہوامگر مرزا صاحب نے اس مضمون کو چھ مہینے تک شائع نہیں کیا میں مایوس ہو گیا کہ یہ شاید کبھی شائع نہیں ہو گا اور اسے میں نے رسالہ ”نیادور“ کو بھجوادیا۔ ڈاکٹر جالبی صاحب نے اسے چھاپنے کی خوشخبری سنائی اور بتایا کہ کتابت کے لیے دے دیا گیا ہے۔ کہیں سے مرزا صاحب تک یہ بات پہنچ گئی کہ مضمون ”نیا دور“ کے جدید شاعری نمبر میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس پر انھوں نے فوراً زیرِ ترتیب شمارے میں میرا وہ مضمون چھاپ دیا۔ مجھے بڑی ندامت ہوئی اور میں نے جالبی صاحب کو فوراً اطلاع دی کہ یہ مضمون تو بالآخر مرزا صاحب نے شائع کر دیا ہے اس لیے آپ اسے اپنے خاص نمبر میں شائع نہ کریں۔ جب میں نے مرزا صاحب سے رابطہ کیا کہ شروع میں اتنی تاخیر اور بعد میں اتنی جلدی کا سبب کیا ہے۔ انھون نے فرمایا کہ میں چاہتا تھا کہ یہ مضمون میرے رسالے میں ہی شائع ہو اس لیے میں نے ”نیا دور“ کی اشاعت سے پہلے اسے چھاپ دیا۔ تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ میں ڈرتا تھا کہ اس مضمون میں بڑے بڑے ہم عصر شاعروں، ادیبوں کے رویے پر نکتہ چینی کی گئی ہے۔ جب وہ پڑھیں گے تو سب میرے خلاف ہو جائیں گے۔

تب سے لے کر اب تک میں عصری زندگی کے تقاضوں اور ادب و فن کے مطالبات کو باہم شیر و شکر کر کے لکھتا چلا آ رہا ہوں اور اب اپنے تجربے سے یہ سمجھ چکا ہوں کہ مرزا ادیب مرحوم کا رویہ حق بجانب تھا۔ ساتھ ہی یہ بات بھی میری سمجھ میں آ گئی ہے کہ ہمارا ادبی نقاد کلاسیکی ادب کو الٹ پلٹ کر دیکھنے ہی پر کیونکر قناعت کیے بیٹھا ہے۔ اس لیے ہماری اجتماعی زندگی کسی بڑے نصب العین سے خالی چلی آ رہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہمارا ادیب اور شاعر اپنی ذات میں اسیر ہو کر رہ گیا ہے۔ کسی بڑے انسانی مسلک سے وابستگی نہ رہے تو پھر آدمی اپنی ذات ہی کو کل کائنات سمجھنے لگتا ہے۔ آج ہمارے یہاں یہی انداز نظر غالب ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہر ادیب اور شاعر اپنی ذات کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے ایسے میں ادبی تنقید کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ انصاف اور توازن کو برقرار رکھے اور حفظ مراتب کو نظر انداز کرے تو اس کے حصے میں شکوہ شکایت کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ ہر کوئی شکوہ سنج نظر آتا ہے کہ مجھ پر نہیں لکھا میری کتاب پر تنقید نہیں کی اور میرے مقام کو میری نظر سے نہیں دیکھا۔ اس صورتِ حال میں ادیب اگر افراد سے زیادہ زندگی اور تہذیب کے مطالبات کو اپنی تحریروں کا مرکز و محور بنا لے تو شکایات کے ہجوم میں گھر جائے گا۔ میری رائے میں نقاد کو ان مشکلات کی پروا ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔ سچ اور صرف سچ کا معیار قائم رکھنا چاہیے۔

سچ کی بات آئی ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں بہت سے ادیبوں اور بہت سی کتابوں پر اس لیے بھی نہیں لکھتا کہ اگر محنت کر کے آدمی کو ناراض ہی کرنا ہے تو نہ لکھنے پر ناراض ہونے دیا جائے۔ اس کے باوجود میں نے ہمیشہ عصری مسائل اور ہم عصر ادیبوں کے کارناموں ہی پر توجہ صرف کی ہے اور گر میں ابھی تک بہت سے نامور ادیبوں اور شاعروں کے مجموعی کمالات کا جائزہ نہیں لے سکا تو اس پر میں نادم ہوں اور اسے میں اپنے اوپر فرض سمجھتا ہوں جسے چکانا مجھ پر واجب ہے اس کوتاہی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میں چونکہ اول و آخر زندگی کا طالب علم ہوں اس لیے میں ادب کے آس پاس دین و حکمت قوم سیاست و معاشرت کو بھی سمجھنے میں کوشاں رہتا ہوں۔ وقت محدود ہوگا تو ادبی تنقید سے انصاف نہیں کر پاؤں گا مگر پھر سوچتا ہوں کہ میں کہاں کا ادبی نقاد ہوں مجھے تو کچھ کہنا ہوتا ہے اس لیے ادب کے آئینے میں زندگی کو دیکھتا ہوں اور کبھی کبھار لکھ لیتا ہوں۔ یہی تحریریں کتابیں بنتی چلی آ رہی ہیں۔

باقی رہا ادب کے جمالیاتی تقاضوں کا مسئلہ تو اس مسئلے سے بہت سے ادبی نقاد پنجہ آزما ہیں۔ میں ان کی تحریروں سے لطف لیتا ہوں اور تخلیق کاروں کے کارناموں سے اپنے دل و دماغ کو منور کرتا رہتا ہوں۔ لکھنے کا محرک صرف اور صرف قومی اور ملی زندگی کی ضروریات بنتی ہیں۔ جب میری پہلی کتاب ”تعصبات“ 1973ء میں شائع ہوئی تو مجنوں گورکھپوری، اختر حسین رائے پوری اور پروفیسر ممتاز حسین نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ ادب کی کتاب ہے یا مذہب کی۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے بھی نہیں پتہ کہ یہ کتاب ہے بھی یا نہیں؟ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ میں نے کبھی رسمی انداز میں نہیں لکھا زندگی ہزار شیوہ زندگی اور ہماری قومی زندگی کا یہ گہوارہ پاکستان اور پاکستان کے دنیائے اسلام اور عالمِ انسانیت سے رشتے میری سوچ کا محور ہیں۔ میری تحریریں ادب کے حوالے سے ادبی رسائل میں شائع ہوئیں یا کتاب کی صورت میں سامنے آئیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے انہی پڑھنے والوں کے سامنے سوال اٹھانا اور اس سوال پر غور و فکر کرنا لازم نظر آتا ہے۔ چنانچہ میں نے اس غور و فکر کو کبھی ملتوی نہیں کیا آج بھی میرے سامنے کسی بڑے یا کم بڑے تخلیق کار کی تعریف و توصیف سے زیادہ یہ سوال ابھرا کہ ہمارے موجودہ ادبی اور فکری بحران کے حقیقی اسباب کیا ہیں اور اس بحران سے نکلنے کا راستہ کہاں ہے۔ میری نظر میں اس بحران کی معنویت اور اس کا کوئی ایسا حل کوئی بھی ایک لکھنے والا تلاش نہیں کر سکتا جس پر ہر کسی کو اتفاق ہو۔ ہاں لکھنے والا یہ ضرور کر سکتا ہے کہ اس بحران کو سمجھنے اور اس سے نجات پانے کا احساس دلائے اور سارے لکھنے والوں کو اس پر غور و فکر کی دعوت دے۔

یہ کام کچھ ایسا مشکل نہیں ہے مگر اس پر کیا کیا جائے کہ ہمارے بڑے برے شاعروں اور ادیبوں سے لے کر نوخیز شاعروں اور ادیبوں تک ہر کوئی ایک ہی سوال سے دو چار ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ ادب میں میرا مقام کیا ہے؟ وہ زندگی، ادب، قومی مستقبل اور انسانی آزادی کے تمام مسائل کو بھول کر اپنی شخصیت کو اپنا پرچم بنائے بیٹھا ہے۔ ادب کا جو بھی پڑھنے والا اس پرچم کی چھاؤں میں بیٹھنے کی بجائے قومی پرچم اور ملی امنگوں کو ادب میں تلاش کرنا چاہتا ہے وہ ادیب اس سے ہمکلام ہونا بھی گوارا نہیں کرتا۔ جہاں تک تخلیق اور تنقید کے باہمی رشتوں کا سوال ہے تو میں عرض کر دوں کہ اصل چیز تو تخلیق ہے اور تخلیق ہی سچا ادب مانی جائے گی۔ تنقید تو تخلیق سے لطف و مسرت اور نورونغمہ سے اکتساب کرنے والوں کے تاثرات اور تجربات کا نام ہے۔ اولیت بھی تخلیق کو حاصل ہے اور ثانویت بھی تخلیق کو حاصل ہے۔ میں تنقید کو بس اتنی ہی اہمیت دیتا ہوں جتنی مرحوم محمد حسن عسکری دیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”تنقید کا کام تو گھر میں جھاڑو دینا ہے رہنے والا تو کوئی اور ہی ہے۔ ادبی تنقید کے تمام تر معیار عظیم شاعروں اور ادیبوں اور ان کی لافانی تخلیقات سے برآمد ہوئے ہیں۔ اس اعتبار سے میں علامہ اقبال کو اردو کا سب سے بڑا نقاد سمجھتا ہوں۔ ” جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں نے ادب کو سمجھنے اور ادب سے روشنی لینے کا سارا فن اقبال سے سیکھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ صرف بڑا ادیب بڑا نقاد ہوتا ہے چاہے وہ ادبی تنقید کے عنوان سے ایک سطر بھی نہ لکھے۔
(ماہنامہ کتاب، بابت اکتوبر2001ء)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).