موسیقی، رقص اور مصوری کی تعلیم


ماضی میں ہم نے اپنی قوم کے نونہالوں کی سوچ اور فکر کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جس کا نتیجہ آج ہم معاشرے میں انتہا پسندانہ رویوں کی صورت بھگتنے کے ساتھ ایک انتشار زدہ معاشرے کے قلب میں ڈھل چکے ہیں۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے اب ماضی میں لگائی گئی گرہیں کھولنے کا آغاز ہو چکا ہے جسے خوش آئند قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ معاشرے اچھی سوچ اور فکر کے ساتھ پرواں چڑھتے ہیں جس کے لئے افراد معاشرہ کو آزادنہ ماحول فراہم کیا جاتا ہے خصوصاً تعلیمی میدان میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے جہاں اسی کی دہائی میں ایک ایسی سوچ کو پروان چڑھایا گیا جس سے معاشرے کے چولیں ہل کر رہ گئیں تحمل رواداری احترام جیسے جذبے ناپید ہوگئے ایک دوسرئے سے نفرت اور تقسیم کے باب بچوں کو پڑھائے گئے اعلی اور ارفع ہونے کے لئے خاص مائنڈ سیٹ کو ابھارا گیا۔

ڈاکٹر توصیف احمد کے مطابق سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں مذہبی انتہاپسند ی اور جنونیت کی جڑیں گہری کرنے والا مواد شامل کیا گیا۔ صرف اسلامیات کا نصاب تبدیل نہیں ہوا بلکہ اردو اور دیگر زبانوں، سماجی علوم، سائنس، میڈیکل اور انجنیئرنگ غرض تمام شعبوں میں نصاب میں رجعت پسندانہ مواد شامل ہوا۔ عمرانیات اور ابلاغ عامہ کا تو ذکر ہی کیا فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، جینیٹکس، مائیکرو بائیولوجی اور دیگر مضامین میں بھی مواد شامل کیا گیا۔ پھر دیگر مذاہب سے نفرت، پڑوسی ممالک کو فتح کرنے جیسے مواد کے ذریعے نئی نسل کے ذہنوں کو کند کردیا گیا۔ چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقا میڈیکل سائنس کی بنیاد ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے اداروں یعنی یونیورسٹیوں میں میڈیکل سائنس کے اساتذہ ڈارون کے نظریہ ارتقا کی مذمت کا مقدس فریضہ انجام دینے لگے۔

اس صورتحال میں اسلامی علوم کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں پر فرقوں کی بنیاد پر مضامین کی تدریس ہونے لگی۔ صرف مضامین کی تدریس ہی اس صورتحال سے متاثر نہیں ہوئی بلکہ پی ایچ ڈی کی سطح پر ہونے والی تحقیق بھی اس کی زد میں آئی۔ ایک مخصوص مذہبی موضوع پر کامرس، معاشیات اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے اساتذہ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے لگے۔ اسلامیات کے شعبے میں فرقوں کی بنیاد پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تقسیم ہوئیں۔ سائنس کے مضامین کے اساتذہ اسلامیات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کر کے ترقی کے درجات پر فائز ہوئے۔ اس میں سے بہت سے اساتذہ وائس چانسلر کے اعلیٰ ترین منصب پر بھی پہنچے۔ بقول ڈاکٹر پرویز ہودبھائی ’ضیا الحق کے دور میں ایک یونیورسٹی میں جنات سے حاصل ہونے والی توانائی سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے موضوع پر کانفرنس منعقد ہوئی تھی، بعدازاں مدارس کی سند کے یونیورسٹی کی سند کے مساوی ہونے کا قانون بن گیا۔

پھر اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ ملک چلانے والے اداروں کا حصہ بن گئے۔ بہت سے طلبہ پہلے جہاد کے لیے افغانستان گئے پھر افغان جہاد ختم ہونے پر کئی نوجوان کنٹرول لائن عبور کر کے بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں جا کر جہاد میں مصروف ہوگئے۔ معاملہ صرف سرحد پار جانے تک محدود نہ رہا بلکہ جہاد سے واپس آنے والے بعض نوجوان کالعدم تنظیموں کے آلہ کار بنے اور ان لوگوں نے مخالف فرقوں کے افراد کو ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ امریکہ میں نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد القاعدہ اور کالعدم مذہبی تنظیموں کے ملک میں مضبوط ٹھکانوں کے خاتمے کا آپریشن شروع ہوا تواعلیٰ ترین سطح پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مدارس میں اصلاحات کی جائیں گی اور جدید تعلیمی اداروں کا نصاب جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اقدامات ہوں گے۔ یہی وجہ تھی کہ پرویز مشرف کے دور میں نصاب کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی۔ مشرف نے 2002 میں انتخابات کرائے اور اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے مسلم لیگ (ق) بنائی۔ چودھری شجاعت حسین اس مسلم لیگ کے سربراہ تھے۔ انہوں نے رجعت پسند گروہوں کو ساتھ ملانے کے لیے نصاب میں تبدیلی کے خلاف شورشرابا شروع کردیا۔ یوں یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔

چند دن جاتے ہیں ایک خبر نظر سے گزری جس کے مطابق وفاقی حکومت نے قومی کلچرپالیسی کے تحت ملک بھر کے اسکولوں میں جماعت اول سے میٹرک تک کے نصاب میں موسیقی، رقص اورمصوری کو بطور مضمون شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مطابق قومی ثقافت کومحفوظ بنانے کے لئے قومی کلچر پالیسی کا مسودہ تیار کر لیا گیا، پاکستان میں موجود تاریخی ورثے کے تحفظ اور نوجوانوں کو ثقافت سے روشناس کرانے کے لئے موسیقی، رقص اور مصوری کونصاب کاحصہ بنایا جائے گا اور پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک طالبعلموں کو اس کی باقاعدہ تعلیم دی جائے گی۔ پالیسی کی تیاری میں صوبہ پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان، سندھ، آزاد کشمیر اورگلگت بلتستان کے علاوہ نامور ادکاروں، فنکاروں اور ہنرمندوں سے بھی مشاورت کی گئی۔ اس خبر کو درست مان لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنے کی کوشش کا آغاز ہوا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے عزم صمیم کو ضرورت ہوگی کیونکہ ہمارئے میڈیا میں بھی رجعت پسندانہ رجحان رکھنے والوں کی اکثیریت ملکی ”نظریاتی“ سرحدوں کی حفاظت کے لئے ”قلم اور مائیک“ سے” جہاد“ کرنا عین فرض سمجھتی ہے۔ اس لئے ماضی کی طرح یہ خبر صرف خبر ہی نہ رہے۔

لیکن زمانہ الٹی چال چلتا دکھائی دیے رہا ہے جنرل ضیاءنے سعودی عرب کی تقلید میں فلموں پر پابندی لگائی تھی، اس سے پہلے پاکستان کی فلم انڈسٹری بہت بڑی تھی۔ لیکن اس فلم انڈسٹری کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ وہ اپنی فہم کے مطابق ذاتی خیالات کو لوگوں پر ٹھونس رہے تھے۔ انہوں نے ملک کی متحرک فلم انڈسٹری کو ختم کر دیا۔ انیس سو اکاسی میں پاکستان دنیا میں فلمیں بنانے والے دس بڑے ملکوں میں شامل تھا اور ہر سال سو سے زائد فلمیں بناتا تھا۔ اس میں ایک ہزار سے زائد سینما گھر تھے۔ اب ملک میں ہر سال صرف بیس فلمیں بنتی ہیں اور صرف پینتالیس سینما سکرینیں باقی رہ گئی ہیں۔ لیکن یہ صورتحال اب بدل رہی ہے۔ حتیٰ کہ سعودی عرب نے بھی سینما گھر کھولنا شروع کردیئے ہیں اور ہمارے ہاں بھی جدید سینما بن رہے ہیں اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو معیاری فلمیں اور ڈرامے بھی بننا شروع ہو جائیں گے۔

یہ انسانی فطرت ہے کہ لوگ تفریح، گانا بجانا، کھیل کود، کے نہ صرف دلدادہ ہیں بلکہ خوش بھی رہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا، کھیلیں، جھومنا، ناچنا گانا ہلہ گلہ موج مستی کرنا قہقے لگانا نقصان نہیں پہنچاتا انسانی فطرت کے تقاضوں پر بند باندھنے اور پابندیاں لگانے سے نقصان ہوتا ہے ہمیں اپنے ہر پارک، اسٹیدم تھیٹر، سینما اور ادبی بیٹھکوں کے ساتھ لائبریریوں کو آباد کرنا چاہیے فنون لطیفہ، کھیل تماشوں کو بڑھانا چاہیے اس کے ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں ہم نصابی سرگرمیوں میں اضافے سے ہی ہم ایک بہتر قوم کی تشکیل اور خوف سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ کھیلیں اور تفریحی سرگرمیوں سے جس معاشرے کے میدان، سٹیڈم اور سکول آباد رہتے ہیں وہ معاشرے ذہنی و جسمانی صحت مندی کے ساتھ ترقی اور عروج ضرور حاصل کرتے ہیں۔

پاکستان میں کبھی گلی محلے اور سکولوں کی سطع پر بچے اور نوجوان اسی طرح کی صحت مندانہ سرگرمیوں میں مشغول رہتے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ تعلیمی میدان میں ”سفاک کارباریوں“ کی آمد ہوئی تعلیم مشن نہیں بلکہ بچے آمدن کا ذریعہ بنے اور بچوں کی کمروں پر بستوں کے بوجھ میں ہوتے اضافے نے جہاں ان سے تفریح سرگرمیوں کو چھین لیا وہیں ان کی ذہنی وجسمانی نشو نما رک گئی پھر برا ہو انتہا پسندانہ سوچ کو پروان چڑھانے والوں کا جنہوں نے خوف کی فضا پیدا کی اور ریاستی پالیسیوں نے اسے مذید بڑھا دیا۔ اب کھیلوں پربھی زوال نے اپنا سایہ ڈال دیاہے۔ سکواش میں پاکستان کی عالمی حکمرانی ختم ہوئے طویل عرصہ بیت گیاہے، ہاکی رہ گئی تھی، اب اس کا معاملہ بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ کسی اور کھیل کے میدان میں بھی کوئی جوہر قابل تیار یا دریافت نہیں کیا جاسکا۔ اس ملک کے لوگ فنون لطیفہ اور کھیل کے میدان سے بھی بے دخل ہوچکے ہیں۔ ایک مخصوص سوچ کے حامل طبقے کو فنون لطیفہ میں بھی برائی نظرآتی ہے اور وہ اپنی دقیا نوسی سوچ کو پورے معاشرے پر مسلط کرنا فرض سمجھتا، ایسی سوچ کا معاشرے میں غلبہ پانا کیا حکومت کی ناکامی نا اہلی اور کمزوری نہیں؟ اب جب حکومت نے سوچ لیا ہے کہ ”تبدیل“ ہونا ہے تو پھر مثبت تبدیلی کے لئے ہر محاذ پر کام کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).