کیا 2018 کے الیکشن کا فیصلہ سوشل میڈیا کرے گا؟


?

گزشتہ چند برس میں جس انداز سے زندگی کے ہر شعبے میں ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھا ہےـ اس کا اثر سیاست میں بھی واضح طور پر دیکھنے میں آیا ہےـ سیاسی جماعتوں نے باقاعدہ اپنے سوشل میڈیا سیل قائم کر لیے ہیں جو دن رات سوشل میڈیا پر ان سیاسی جماعتوں کے منشور اور نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ اور مخالف سیاسی جماعتوں پر طنز اور تنقید کے تیر برساتے نظر آتے ہیں۔ سیاست میں سوشل میڈیا کا کردار اس وقت مزید کھل کر سامنے آیا، جب امریکہ کے 2016 کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ غیر متوقع طور پر صدر بن گئے حالانکہ سیاسی تجزیہ نگار ہیلری کلنٹن کو فاتح قرار دے چکے تھےـ لیکن انتخابات سے کچھ مہینے قبل کے چند اہم واقعات نے فتح کا تاج ہیلری کلنٹن کے سر سے چھین لیا۔ ٹرمپ کی اس ٖغیر متوقع فتح پر جہاں پوری دنیا کے مبصرین انگشت بدندان تھےـ وہاں امریکی خفیہ ادارے بھی جونک گئے تھےـ انھوں نے باقاعدہ تحقیقات شروع کر دی اور نیشنل انٹلی جنس کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں تسلیم کیا کہ امریکہ کے صدارتی الیکشن میں باقاعدہ روسی حکومت نے مداخلت کی ہےـ اور ٹرمپ کو جتوانے کے لیے ہیکنگ اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا ہےـ جبکہ خود بھی ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا مہم پر تقریباً 9 ارپ روپے لگائے جبکہ ہیلری کلنٹن نے لگ بھگ 20 ارب روپے اپنے آخری مہینے کی مہم میں ٹی وی چینل کو اشتہارات کی مد میں دیے جبکہ اس کی نسبت ٹرمپ نے آدھے سے بھی کم پیسوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ مقبولیت حاصل کر لی۔

ٹرمپ کی اس مقبولیت کو دوگنا کرنے میں روسی حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے سوشل میڈیا سیل نے بھی اہم کردار ادا کیاـ اس سیل نے سینٹ پیٹرز برگ سے انتہائی منطم طریقے سے ٹوئیٹر اور فیس بک پر ایسے گروپس اور ٹرینڈ سیٹ کیے جس نے اپنی پوسٹس اور ٹرولز کے ذریعے ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کو شدید نقصان پہنجایا اور پھر ان ٹرولز اور پوسٹس کو لاکھوں خودکار ٹوئیٹر اور فیس بک اکاوئنٹس کے ذریعے ہزاروں بار شیئر اور ریٹویٹ کیا جاتا تھاـ ان خودکار اکاونٹس کو روبوٹ بھی کہا جاتا ہے جو کسی انسان کے بجائے ایک کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے چل رہے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی کسی بھی پوسٹ کو شیر یا ریٹویٹ کرنے کی صلاحیت کسی بھی عام انسان سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہےـ جس کی وجہ سے ہیلری مخالف ٹوئیٹر ٹرینڈ اور پوسٹ ہمشہ ٹاپ پر نظر آتی تھی جس سے عام امریکی کے ذہن کو بدلنے میں بہت مدد ملی اور یوں ٹرمپ کی سوشل میڈیا میں سرمایہ کاری اور روسی میڈیا سیل کی کوششوں سے ہیلری ایک جیتی ہوئی بازی ہار گئی۔

اب ٹرمپ کی عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے امریکی عوام کو یقین ہو چکا ہے کہ ان کے ساتھ امریکی انتخابات میں واضح دھاندلی ہوئی ہےـ اور ان تک سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات غلط طریقے سے پہنچائی گئی ہیں۔ اب اگر ہم اسی تناظر میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ہمیں واضح طور پر سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف کی حکمرانی نظر آئے گی۔ جس کی وجہ ان کا ایک منظم سوشل میڈیا سیل ہے جو ہر لحاظ سے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کر رہا ہےـ اور اس کے ساتھ ساتھ پھرپور طریقے سے اپنے نطریات عوام تک پہنجا رہا ہے اور اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنا رہا ہےـ جس میں حقیقی اور فوٹوشاپ تصاویر کو وائرل کیا جاتا ہے اب اگر ہم پاکستان تحریک انصاف کی عملی کارکردگی کا جائزہ لیں تو وہ بھی باقی سیاسی جماعتوں سے کچھ مختلف نظر نہیں آتی بلکہ پاکستان تحریک انصاف مخالف سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی نسبت کہیں کم عملی سیاست میں سرگرم ہے جس کی اہم وجہ پاکستان تحریک انصاف کا احتجاجی سیاست میں ضرورت سے زیادہ سرگرم ہونا، ضلعی اور یونین کونسل کی سطح پر ناتجربہ کار مقامی رہنما، پارٹی قیادت کا عملی سیاست میں دلچسپی نہ لینا اور اس کے بجائے سوشل میڈیا پر زیادہ توجہ دینا شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مقبولیت کی بات ہوتی ہے تو پاکستان تحریک انصاف پہلے نمبر پر نظر آتی ہے لیکن عملی سیاست اور الیکشن میں تحریک انصاف ابھی تک ویسا پرفارم نہیں کر سکی، جیسا کہ سوشل میڈیا پر اس کی کامیابی نظر آتی ہے۔

خیبر پختونخواہ میں ان کی حکومت ہونے کے باوجود کوئی ایسا خاطر خواہ کارنامہ سرانجام دینے سے قاصر نطر آئی ہےـ جس کی تشہیر وہ سوشل میڈیا پر کرتی نظر آتی ہے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کی پڑی تعداد بھی اسی وجہ سے عملی سیاست کے بجائے زیادہ تر سوشل میڈیا پر ہی نظر آتی ہےـ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے کارکنان عملی ساست میں تحریک انصاف سے کہیں زیادہ آگے منظم آتے ہیں۔ اور جس طرح گزشتہ ایک سال میں پاکستان مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم نے اپنی حیثیت منوائی ہےـ وہ اس کی مخالف سیاسی جماعتوں کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہےـ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی سوشل میڈیا پر مکمل حکمرانی اب ختم ہوتی نظر آ رہی ہےـ پاکستان مسلم لیگ ن نے ایک قدامت پسند جماعت ہونے کے باوجود جس تیزی سے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنا شروع کیا ہےـ اور اس کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت بھی سنجیدہ نطر آتی ہے اور ان کے حالیہ سوشل میڈیا کنونشن میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی موجودگی اور دلچسپی اور پھر مسلم لیگ ن کا اپنے کارکنان سے رابطے کے لیے ایک موبائل الیکشن کا اجرا اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن بھی روایتی سیاست کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے لیے مشکلات کھڑی کرے گی۔

یہی وجہ ہے کہ مریم نواز جو مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا سیل کو منظم کر رہی ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی گیارویں طاقتور خاتون قرار پائی ہیں جس کی ایک اہم وجہ ان کا سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کا استعمال بھی ہےـ جبکہ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کی سوشل میڈیا پر موجودگی اپنی باقی مخالف سیاسی جماعتون کی نسبت انتہائی کم نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی مقبولیت کا گراف بھی کم ہے۔ یہاں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عملی سیاست اور کارکردگی کے بجائے جو سیاسی جماعت سوشل میڈیا پر زیادہ متحرک ہے وہی جماعت زیادہ مقبول بھی نظر آ رہی ہےـ اور پھر جب انتخابات میں سوشل میڈیا پر کم مقبول نطر آنے والی جماعت کامیاب ہوتی ہے تو عوام کے ذہنوں میں ابہام پیدا ہوتا ہے کہ کہیں کوئی دھاندلی تو نہیں ہو گئی لیکن یقینی طور پر پاکستان کے 2018 کے انتخابات میں سوشل میڈیا کا ایک بہت اہم کردار نظر آنے والا ہےـ اس کی وجہ پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہے یہی وجہ ہے کہ ماہرین پاکستان کے ان انتخابات میں سوشل میڈیا کے کردار کو بہت اہمیت دے رہے ہیں کیونکہ اب فیصلہ کارکردگی پر نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر زیادہ یا کم مقبول ہونے پر ہو سکتا ہےـ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).