شریف قیادت کے رنگ طبیعت کا امتحان


\"Tanvir اکثر محققین یہ بات بہت شدو مد سے دہراتے ہیں کہ 1947ءسے قبل چونکہ پاکستان نام کا کوئی ملک دُنیا کے نقشے پر موجود نہیں تھا اس لیے ملک کے وجود میں آنے کے بعد یہاں کے لوگوں کو ’قوم سازی‘ کا مشکل مرحلہ درپیش تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے حالات صرف پاکستان ہی کے ساتھ مخصوص نہیں تھے بلکہ نوآبادیاتی غلامی سے چھٹکارہ حاصل کرنے والے ممالک کی بڑی اکثریت کو کم و بیش اسی نوعیت کے مسائل کاسامنا تھا۔اس کی بڑی وجہ یہ تھی 1492ءمیں کولمبس کے براعظم امریکا دریافت کرنے سے لے کر 20وی صدی کی ابتدائی چند دہائیوں تک نو آبادیاتی اقتدار کے جو قریباً ساڑھے چارسو برس گزرے ہیں کم و بیش وہی زمانہ انسان کے ذرائع پیداوار میں نمایاں تبدیلیوں کا بھی تھا۔ چنانچہ اُس دور کے طاقت ور اور آزاد ممالک میں معاشروں نے جاگیرداری سماج کے مرحلے سے آ گے بڑھ کر صنعتی سماج کی صورت اختیار کرلی ۔ اسی اثنا میں فلسفے اور علوم و فنون پر سائنسی نہج یعنی علت و معلول کے باہمی تعلق پر مبنی اُصولوں کے تحت تحقیق کا چلن عام ہونے کے باعث سیاسی و سماجی نظام بھی اس طرزفکر کے اثرمیں آئے۔ صنعتی سماج کا وجود میں آنا بھی بجائے خود سائنسی منہاج ہی کا مرہون منت تھا۔ قومی ریاستوں کے وجود میں آنے اور اپنی مروجہ شکل میں مستحکم ہونے کا زمانہ بھی یہی تھا۔ ہسپانوی، پرتگالی، فرانسیسی، ولندیزی یا انگریز سبھی نوآبادیاتی آقا جدید معنوں کی باقاعدہ قومی ریاستوں کی حیثیت میں دُنیا کے نقشے پر موجود تھے۔تاہم دوسری طرف نوآبادیاتی شکنجے میں جکڑے رہنے والے خطوں میں صورت حال مختلف تھی ۔ جب اُنھیں نو آبادیاتی غلامی سے آزادی ملی تو وہ اپنی سرزمینوں کے مالک تو ضرور بنے لیکن اُن کے ایک باقاعدہ قوم کی شکل اختیار کرنے کی منزل ا بھی باقی تھی۔ نو آبادیوں کی آزادی کا جومرحلہ انگریزوں کے برصغیر ہندوستان چھوڑ کرجانے سے شروع ہوا تھا وہ اگرچہ 20صدی کے اختتام تک جاری رہا لیکن آ زادی حاصل کرنے والے بیشتر خطے ہنوز اپنی قومیں بنانے(یا بگاڑنے) کی جد وجہد میں مصروف ہیں۔ مراحل کی تقدیم و تاخیر میں اگر کوئی فرق پایا جاتا ہے تو وہ صرف ہر خطے کے مخصوص حالات و عوامل کا ہے۔ یہ بالکل علیحدہ بحث ہے کہ بذات خود ’قومی ریاست‘ کا مستقبل کیا ہے اور عالمگیریت کی بڑھتی ہوئی رو ریاستی اور حکومتی ہئیت کی کیا نئی صورت گری کرے گی۔
اگرچہ دو مختلف جغرافیائی اکائیوں کی صورت اگست 1947ءمیں ظہور پذیر ہونے والے پاکستان کو بھی بہت سے سنگین مسائل ورثے میں ملے تھے لیکن یہاں پر بسنے والے کروڑوں لوگوں کی مختلف اور رنگا رنگ قومیتی ، لسانی اور ثقافتی شناختوں کے باوصف انھیں ایک قابل عمل وفاقی مملکت کی لڑی میں پرونے والے عوامل بھی بہت تھے ۔غلامی سے آزادی کی منزل تک پہنچنے والے دُنیا کے دیگر کئی خطوں کی طرح پاکستان کو بھی قیام کے پہلے روز سے استحکام اور بقا کا چیلنج درپیش رہا ہے اور ’ملک اپنی تاریخ کے سنگین ترین بحران سے گزر رہا ہے‘ جیسے فقرے سنتے ہوئے کم از کم تین نسلوں کے بالوں میں سفیدی اُتری ہے۔ جب کسی خطے میں بسنے والی قومیتوں اور نسلوں کو قومی شناخت اور اپنی ریاست کی نوعیت و حیثیت کے بارے میں شرح صدر نہ ہوتو اُن کا بحرانوں کی زد میں رہنا لازم امر ہے۔ تاہم ایسا نہیں کہ ہم نے قوم سازی کی کوئی کوشش نہیں کی۔ پاکستان کے عوام مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے ہزارہا مشکلات کے باوجود پاکستان کو مستحکم، مہذب اور ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے دیکھنے کے سپنے کو ہمیشہ اپنی پلکوں میں سجائے رکھا ہے۔ ہم اس سلسلے میں بہت سے کامیاب اور ناکام تجربے کرکے دیکھ چکے ہیں جس میں مذہب اور زبان کے اشتراک پر مبنی حقیقی قوم پرستی کی کوششیں بھی شامل تھیں اور ایسی قوم پرستی کے مصنوعی اور سطحی تاثر قائم کرنے کے (ناکام) تجربات بھی۔ بلکہ کئی عشروں تک ایسے تجربات کی افادیت پر اصرار کرنے کے بعد ہم ایسے طرزعمل کو بھی اب برسوں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ہمارا یہ بحران دراصل شناخت کا بحران ہے اور مقتدر حلقوں کی طرف سے چاروناچار قوم پرستی کا ایک نیا ترمیم ایڈیشن سامنے لانابھی ایسی صورت حال کا فطری تقاضا ہوا کرتا ہے۔ اگر یہ بھی نہ چلے تو مزید ترمیم و اضافہ شدہ ایڈیشن لانا بھی ہئیت مقتدرہ اپنی ذمہ داری ہی سمجھتی ہے جس پر اُسے کسی صورت مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ ہئیت مقتدرہ کا بنیادی وظیفہ ہی ریاستی ڈھانچے اور اُس کی حدود و جغرافیے کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ ایسی بحرانی صورت حال بنیادی طور پر ریاست میں بسنے والے عوام، سیاسی جماعتوں، ذرائع ابلاغ ، سول سوسائٹی یا مختلف و متضاد مفادات رکھنے والے دیگر گروہوں کے لیے چیلنج پیش کرتیہے کیونکہ یہی وہ مواقع ہوا کرتے ہیں جس میں ہئیت مقتدرہ مذکورہ گروہوں کی بات پر کان دھرنے اور اُن سے مشاورت پر مجبور ہوجاتی ہے ۔ ایسے مواقع پر جو گروہ جتنا زیادہ سرگرم ہوگا اور اپنے ہوم ورک میں جتنی محنت کرے گا اُس کی تجاویز اور مشوروں کا ممکنہ تبدیلیوں کا حصہ بننا بھی اتنا ہی یقینی ہوگا۔ آج کی بحرانی کیفیت بھی مروجہ ریاستی بیانئے کی خامیوں کو اجاگر کرکے اُس میں تبدیلیوں کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اب یہ ذمہ داری ہئیت مقتدرہ سے کہیں زیادہ اس ریاست میں بسنے والے عوام اور اُن کے مختلف گروہوں کی ہے کہ وہ نئے ممکنہ ریاستی بیانئے کی صورت گری میں کتنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ریاستی بیانئے میں کسی ممکنہ یا مجوزہ تبدیلی کی خوش فہمی کہاں سے پیدا ہوئی۔ اس کے لیے ماضی میں پیش آنے والے کئی واقعات پر ریاستی مشینری کے ردعمل اور اُن جیسے ہی واقعات سے نمٹنے کے لیے زمانہ حال میں ریاستی مشینری کی اختیار کردہ حکمت عملی کے درمیان تقابل ہی کافی ہے۔مثال کے طور پر پٹھانکوٹ میں بھارتی فضائی اڈے پر دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان کی سیاسی حکومت، عسکری قیادت، افسر شاہی اور انٹیلی جنس مشینری کی طرف سے اختیار کردہ طرزعمل اسی تبدیل شدہ حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں یہ خوش فہمی رکھنے کا پورا حق حاصل ہے کہ سیاسی حکومت والے اور عسکری قیادت والے دونوں شریف حضرات ملکی معاملات کو شرافت کی سمت گامزن کرنے کی خواہش پال چکے ہیں۔ اب اس خواہش کو ٹھوس حقیقت کی شکل دینے میں سیاسی جماعتوں، عوام ،ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کے مختلف گروہوں کو بھی آگے آنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments