مذہب کے نام پرشرمناک تشدد


\"Capture-8-650x416\"

  کل رات اسلام آباد ائر پورٹ پر چند افراد نے مذہبی مبلغ اور ٹیلی ویژن پروگراموں کے میزبان جنید جمشید پر حملہ کرکے انہیں زد و کوب کرنے کی کوشش کی۔ سابق پاپ سنگر نے بھاگ اپنی جان بچائی۔ حملہ آور مبینہ طور پر اسی فلائٹ سے کراچی سے اسلام آباد پہنچے تھے، جس میں جنید جمشید بھی آرہے تھے۔ ائر پورٹ لاؤنج سے باہر آنے کے بعد ان لوگوں نے جنید جمشید کو گھیر لیا اور ان پر حملہ کردیا۔ اس موقع پر بعض لوگ حملہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ۔ اس کے علاوہ حملہ آوروں نے جو بازاری زبان استعمال کی، وہ اپنے طور پر شرمناک اور قابل مذمت فعل تھا۔ یہ حملہ ملک میں قانون کی حکمرانی کے حوالے سے سنگین سوال کھڑے کرتا ہے کہ کیا عام لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے اور مذہب کا نعرہ لگاتے ہوئے عام شہریوں کو نقصان پہنچانے اور ہراساں کرنے بلکہ بعض صورتوں میں ہلاک کرنے کا حق دیا جا سکتا ہے۔

\"j\"جنید جمشید پر 2014 کے آخر میں ایک مذہبی خطاب میں حضرت عائشہؓ کے خلاف بدکلامی کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس الزام میں ان کے خلاف کراچی میں ملک کے توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا جس میں ان پر توہین رسولؐ کا الزام لگایا گیا تھا۔ یہ ایف آئی آر توہین مذہب کی دفعہ 295C کے تحت درج کی گئی تھی ۔ اس دفعہ کے تحت موت یاعمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے لیکن ملزم کو معاف کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے باوجود ملک میں توہین مذہب یا رسالت کے الزام میں لوگ ہجوم کی صورت میں قانون ہاتھ میں لینے اور خود فیصلے کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ صورت حال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ 2011 میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو توہین مذہب قانون پر تنقید کرنے کے الزام میں ان ہی کے محافظ ممتاز قادری نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ سپریم کورٹ اس مقدمہ میں قانون کی بالا دستی قائم کرنے اورانسان کے بنائے ہوئے کسی قانون پر نکتہ چینی کو توہین مذہب سے ممیز کرنے کا فیصلہ دے چکی ہے۔ اسی فیصلہ کے تحت گزشتہ ماہ ممتا زقادری کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ مبینہ طور پر جنید جمشید پر حملہ کرنے والے لوگ آج ممتاز قادری کی رسم چہلم میں شرکت کے لئے اسلام آباد آرہے تھے ۔ جنید جمشید کو دیکھنے کے بعد ان پر حملہ کردیا گیا۔

اس دوران جنید جمشید اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے قوم سے اپنی کوتاہی اور کم علمی کی معافی مانگ چکے ہیں۔ تاہم سوال یہ نہیں ہے کہ کسی شخص نے کوئی غلطی کی یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس غلطی کا تعین کرنے اور اس کی سزا دینے کا حق صرف ملک کی عدالتوں کو حاصل ہے ۔ عام لوگوں کو کسی صورت قانون ہاتھ میں لینے اور خود ہی استغاثہ، منصف اور منتظم بن کر الزام لگانے، سزا دینے اور عمل کروانے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ بدنصیبی کی بات ہے کہ حکومت اور ملک کے دینی رہنما اس معاملہ پر مجرمانہ خاموشی اور مصلحت کوشی سے کام لیتے رہے ہیں۔ ملک میں انتہاپسندی اور مذہب کے نام پر تشدد اور قتل و غارتگری کو روکنے کے لئے اس قسم کے سماجی رویوں کی حوصلہ شکنی بے حد ضروری ہے۔

اس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک کے قانون اور 1991میں وفاقی شریعت کورٹ کے ایک فیصلہ کے مطابق توہین مذہب کے مرتکب کو لازمی طور سے موت کی سزا دینا ہوگی جبکہ محققین یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ فیصلے مذہبی دستاویزات اور امام ابو حنیفہ کے اصل رہنما اصول سے متصادم ہیں۔ اب یہ دستاویزی ثبوت بھی سامنے لایا جا رہا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے کہا تھا کہ معافی مانگنے کی صورت میں توہین رسالت کے مرتکب شخص کو معافی دی جا سکتی ہے۔ تاہم ملک میں مذہب اور دلیل کی بجائے جہالت اور تعصب کا جو رویہ عام کیا جارہا ہے، اس میں ہوشمندی سے فیصلے کرنے کی راہ مسدود ہو رہی ہے۔

ان حالات میں ایک طرف حکومت کو قانون شکنی کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے ۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے توہین مذہب کے قانون میں ضروری ترامیم کی جائیں۔ علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ اس معاملہ پر عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے سیاست کرنے کی بجائے، قوم اور حکومت کی مناسب رہنمائی کا فریضہ ادا کریں تاکہ اس سوال پر پیدا ہونے والی غلط فہمیاں بھی دور ہوں اور لاقانونیت کا تدارک بھی کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments