ایک تھی لڑکی جمیلہ ہاشمی


\"Pirzada

لڑکی کبھی آگے نہیں بڑھتی۔ اُس کی عمر بڑھتی جاتی ہے مگر وہ اُس مقام سے ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ وہ ایک ہی جگہ پر رکی رہتی ہے۔ یہ مقناطیسی جگہ’’ مقامِ اپنائیت‘‘ ہوتی ہے۔ لڑکی بچی ہو ،جوان ہو یا بوڑھی عورت اس کے اندر ہر وقت مکمل چاہے جانے اور ہر وقت مکمل اپنائے جانے کی تڑپ و خواہش، ہمیشہ جوان لڑکی کی سی ہی ہوتی ہے۔ اس مرضی میں وہ کسی حصے دار کو برداشت کرتی ہے نہ ہی میٹر کی سوئی کا مقامِ انتہا سے ایک درجے نیچے آنا قبول کرتی ہے۔ اس سارے مقدمے میں وہ خود ہی یک رکنی کمیٹی کی ممبر ہوتی ہے جس کا فیصلہ آخری ہوتا ہے اور اس کی کوئی اپلیٹ کورٹ بھی نہیں ہوتی۔ اُس کی اِس خواہش پر غیرمشروط دستخط کرنے والا انسان ہو یا جانور، درخت ہو یا پھول، پتھر ہو یا کوئی اور شے وہ بس اسی کی ہی ہو کر وہیں ٹھہر جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے یہ خواہش لڑکی کے اندر اُس کی پیدائش سے بھی پہلے موجود ہو۔ ہر لڑکی جنم جنم کا یہ رس لئے ہوئے ہوتی ہے مگر کچھ اِس پر وزنی سِل رکھ دیتی ہیں، کچھ اسے تھوڑا بہت بہنے دیتی ہیں اور کچھ اس کی تیزی کو روکے بغیر شدت سے نکلنے دیتی ہیں جس سے اردگرد کا ماحول سر سبز ہو جاتا ہے۔

چاہت اور اپنائیت کی تبلیغ کر کے اپنے دائیں بائیں کے منظر کو شاداب کرنے والیوں میں ایک نام جمیلہ ہاشمی کا بھی ہے جس کے اندر بھی ہروقت جواں سال لڑکی کی کونپلیں پھوٹتی رہتی ہیں۔ وہ جب امرتسر میں پیدا ہوئی تو روایات سے ہرا بھرا شہر پر امن تھا۔ ہوشیار پور سے میٹرک کیا تو 1947ء کی تقسیم کا زمانہ آگیا۔ اس تقسیم میں انسانی جسموں کو بھی ٹکڑوں میں تقسیم کیا جانے لگا۔ خاندان کا ساتھ نبھاتے ہوئے لڑکی جمیلہ اُدھر سے اِدھر ساہیوال آگئی۔ نئی نویلی دلہن کی طرح اُس کے لئے بھی سارا ماحول غیر تھا جسے اپنا بنانا تھا۔ روک ٹوک کے بغیر جذبوں کی پرورش کرنے والوں کے لئے کوئی بھی پابندی زنجیر نہیں بنتی۔ کالج کی چار دیواری کی بجائے گھر کی چار دیواری میں ایف اے اور بی اے پرائیویٹ کرنے کے بعد لڑکی جمیلہ نے 1952ء میں اونچی شان والے ایف سی کالج لاہور میں ایم اے انگلش میں داخلہ لے لیا۔ اس فیصلے نے جہاں اس کی شخصیت میں چاندنی گھولی وہیں انگلش ڈیپارٹمنٹ کے نامور اساتذہ ڈاکٹر ایونگ، ڈاکٹر ویلٹ، ڈاکٹر شیٹس اور ڈاکٹر بسویس نے اُس کے شعور کو خوب شعور دیا۔

ایف سی کالج کی زندگی اُس کے نزدیک ایک حسین خواب کے مانند تھی۔ اُن دنوں ہر کتاب لائبریری میں موجود ہوتی۔ کسی کتاب پر تالے نہیں پڑے تھے۔ ہر کوئی اپنی پسند سے خود کتاب لے جاتا اور پھر وہیں رکھ جاتا۔ طالبعلم جب چاہتے لائبریری آتے۔ جتنا چاہتے وہاں بیٹھے رہتے۔ یہاں تک کہ صبح سے شام ہو جاتی۔ کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ لائبریری بلاک کے اوپر انگلش ڈیپارٹمنٹ کے کلاس رومز تھے۔ کلاس دوپہر سے پہلے ختم ہو جاتی مگر سب وہیں رہتے۔ پوری کلاس ایک فیملی ماحول میں ہوتی۔ ہاسٹل کے لڑکے اپنی میس سے کھانا لے آتے۔ سب بانٹ بانٹ کر کھاتے۔ پروفیسر بسویس پڑھاتے پڑھاتے بنگالی مٹھائی بنانے کی ترکیب بتانے لگتے۔ وہ اکثر لڑکوں کو کہتے کہ اگر تم ایم اے انگلش نہ کر سکے تو بنگالی مٹھائی کی دکان کھول لینا۔

طالب علمی کی اس جواں سال دلفریب زندگی کے بعد لڑکی جمیلہ کی عملی اور اعمالی زندگی شروع ہوئی۔ وہ بہاولپور کی ایک خانقاہ کے سجادہ نشین کی دوسری بیوی بنی۔ سجادہ نشین کی پہلی بیوی سے لڑکا نہیں تھا۔ لڑکی جمیلہ نے سجادہ نشین کی یہ خواہش بھی پوری کردی مگر حاسدین کے ہاتھوں لڑکی جمیلہ کا ننھا مارا گیا۔ ساری عمر اس نے مقتولین کے خلاف مقدمہ درج نہ کرایا۔ اس کی دوسری اولاد لڑکی تھی۔ لڑکی جمیلہ اپنی لڑکی کو اپنے آپ میں ہر لحاظ سے مکمل شناخت دینا چاہتی تھی۔ اُس نے اِس مشن کی ابتدا بیٹی کا ایسا نام رکھ کرکی جو باپ اور شوہر کے حوالے سے پینڈولم نہ بنے۔ اس نے اپنی اکلوتی بیٹی کا نام عائشہ صدیقہ رکھا۔ ایسے مکمل نام کو شادی سے پہلے یا بعد میں ترمیم کی ضرورت نہ تھی۔ کشور ناہید نے جمیلہ ہاشمی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ عظیم ادیبہ نے عظیم ادب کے ساتھ ساتھ اپنی عظیم بیٹی کا تحفہ بھی سوسائٹی کو دیا ہے۔

ناول نگاری اور افسانہ نگاری میں کمال حاصل کرنے والی جمیلہ ہاشمی نے ادیبوں کے ظرف پر بھی کوئی لگی لپٹی نہ رکھی۔ اُس کے خیال میں ادبی ستائش اکثر پبلک ریلیشننگ کے باعث ہوتی ہے۔ جمیلہ ہاشمی پبلک ریلیشننگ کی اہمیت جانتی تھی لیکن اس کی ماہر نہیں تھی۔ اس نے سچ کہا تھا کیونکہ جو پبلک ریلیشننگ کی مہارت رکھتا ہو اس میں اکثر ادبی مہارت نہیں ہوتی۔ اپنی ماں کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب میں ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے بھی گلہ کیا کہ ڈیجیٹل ادبی فیسٹیولز اصل ادیبوں کے ساتھ انصاف نہ کر پائے۔ جمیلہ ہاشمی کی تحریروں میں جہاں جواں سال لڑکی نظر آتی ہے وہیں تصوف کی سفیدی بھی ملتی ہے۔ اس کے خیال میں نفرت اور محبت دونوں تصوف کے عکس ہیں۔ وہ کہتی تھی کہ ہماری سوسائٹی میں تصوف کو پسند کیا جاتا ہے۔ اسی لئے جمیلہ ہاشمی کا حسین بن منصور حلاج پر لکھا گیا ناول ’’دشتِ سُوس‘‘ بہت پاپولر ہے۔ ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والے ہرمن ہیسے کے ناول ’’سدھارتھ‘‘ اور جمیلہ ہاشمی کے ناول ’’دشتِ سُوس‘‘ کو آمنے سامنے رکھا جاسکتا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کی تحریریں ایک نظریاتی سکول ہیں جن کی طرف شاید خوف کی وجہ سے محققین نے توجہ نہیں دی۔

امرتسر کے معنی ہیں ’’میٹھے پانی کا چشمہ‘‘۔ جس طرح شہر امرتسر کی طاقت اور صلاحیتوں کا بہت کم اعتراف کیا گیا ہے ویسے ہی امرتسر سے جنم لینے والے عمدہ انسانوں کی صلاحیتوں کا بھی بہت کم اعتراف کیا گیا ہے۔ نہ جانے اس کی وجہ دوسروں کی صلاحیتوں کو تسلیم نہ کرنے کا چھوٹا پن ہے یا علاقائی تعصب؟ ان تمام باتوں سے بالاتر جمیلہ ہاشمی لکھتی گئی۔ اس کا کہنا تھا کہ میں کوئی خاص مقصد لے کر نہیں لکھتی، بس لکھتی ہوں۔ جمیلہ ہاشمی ایک بڑی رائٹر ہے اس کا فیصلہ تاریخ جلد کر دے گی لیکن یہ فیصلہ ہوچکا کہ اس کے اندر مکمل چاہے جانے اور مکمل اپنائے جانے کی خواہش رکھنے والی جواں سال لڑکی ہردم زندہ ہے۔ لہٰذا جمیلہ ہاشمی کے لئے مکمل تبصرہ یہ ہو سکتا ہے کہ ’’ایک تھی لڑکی جمیلہ ہاشمی‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments