کیا فیصلے کی گھڑی آن نہ پہنچی


قلم کا حق کس سے ادا ہو۔ کوئی ہے جو اس بار امانت کا خوگر ہو؟ جدھر نگاہ جاتی ہے مسائل کا انبار و انتشار کا خلفشار منہ کھولے کھڑا ہے۔ نرگسیت سے چور رہبروں نے رہزنی کا ڈول ڈالا ہے، ہجوم بے کراں بھیڑ بکریوں کی صورت قربان گاہ کی سمت قلانچیں بھرتاجاتا ہے۔ سوچنے سمجھنے کا یارا کسے ہو؟ اپنے حصے کی شمع کون جلائے؟

اہل قلم کس دیدہ دلیری سے ادھورے سچ کے پرچار کے علم بردار بنے بیٹھے ہیں۔ تصویر کے من پسند رخ کب تلک مکمل سچ گردانے جائیں گے۔ حرمت قلم کا پاس رکھنا، علمی دیانت کے بغیر ممکن ہوا ہے؟ قلم وہ جس کی قسم اٹھائی گئی۔ قلم وہ جس سے لوح رقم ہوئی۔ قلم وہ جس نے آسمانی و زمینی دساتیر کا روپ دھارا تو خاک، اشرف اور انسانیت افضل ٹھہرا دی گئی۔ بنیادی مسائل ستر سالوں سے جوں کے توں ہیں۔

ایک ہمارے قلم کی نوک ہے کہ آمریت و جمہوریت کے بھبکتے جسموں پر چیرا لگاتے کند ہی نہیں ہوتی۔ پارلیمانی و صدارتی نظام کے ثمرات و مضمرات کی بحث، بھوک سے بلکتے، گندگی کےڈھیر پر سسکتے، صحت کی بنیادی سہولیات کے لیے ترستے اور ہر طاقتور کے استحصال سے مرتے عوام سے بدرجہا اولی قرار پائی ہے۔

سالانہ تہواروں کی طرز پر ہر سال، شہیدوں کی دھرتی سے ملحق تھرپارکر کی سوختہ جگر کوکھ سے جنم لینے والے ادھ مرے نو مولودوں کی لاشیں، تخت لاہور کے جنرل اسپتالوں کے برآمدوں میں بچہ جننے والی افلاس زدہ ماؤں کا نوحہ الاپتی ہیں۔

سب سے مالدار مگر یتیم و یسیر کوئٹہ میں آئے دن ہونے والے دھماکوں کے کٹے پھٹے چیتھڑے نما لاشے ڈسٹرکٹ شانگلہ (KPK) بشام کے واحد سرکاری اسپتال (جس کا کل اثاثہ ایک نیبولائز مشین اور 16 ڈیوٹی ڈاکٹروں میں سے فقط 2 حاضر ڈاکٹروں کے سوا کچھ نہیں) میں دم توڑنے والی ناعمہ کو کاندھا دینے کو مضطرب ہیں۔ منظر بدلتے جائیے، احوال یکساں ہے۔

ظلم و جبر، بے حسی و بے عملی، بدنیتی و دروغ گوئی۔ ندرت خیال کے رسیا، ست رنگی نابغے اپنی خیال آفرینی و قادرالکلامی کو انتہائے کمال تصور کیے بیٹھے ہیں۔ علم الکلام و فلسفے کی موشگافیاں بکھیرنے والے جغادریوں سے لے کر منطق و عقل کل کے سرپٹ دوڑتے درباریوں تک لمبی قطار یے جو محض مخالفت و خوشامد کے بھنور میں غوطہ زن ہونے کو منتہائے مقصود گردانتی ہے۔

اقرا کے پیروکاروں کی تو بات ہی کیا، سوچنا یہ ہے کہ سقراط کے متوالوں کی ترجیح اول حصول علم یا فروغ تعلیم وتحقیق تصور کی جاسکتی ہے؟ ببول بویا ہے تو گندم کی آس چہ معنی؟

کلیہ اگر یہی ہے کہ جس کا کھائیں گے اسی کا گائیں گے تب یہ مقدس سمجھے جانےکی ہٹ دھرمی، آزادی اظہار کے درویشانہ راگ پاٹ، عوامی مینڈیٹ کے بیوپار اور کانے انصاف سے دامن کیوں کر چھڑایا جائے۔

سماج کی تشکیل و ملکی ترقی گڑیوں گڈوں کا کھیل ہے صاحب جو ہوس اقتدار کے پردوں میں ہما شما مطلق العنان پنج تا بیس سالہ کاغذی منصوبوں کی دیمک زدہ بیساکھیوں کے سہارے منصہ شہود پر نمودار کرنا چاہتے ہیں؟

قحط الرجال کے عالم افلاس میں اہل قلم و ہنر کی صفوں سے کسی گلیلیو، منصور حلاج، جان مارشل یامارٹن لوتھر کنگ کے اٹھنے کی امید رکھی جائے؟ زرا گردن جھکائیے کہ اپنے پیر دکھائی دے جائیں صاحبان علم و دانش۔ ناجائز کہلائے جانے والے معصوموں کو جھولا دینا مستحسن مگر ان حرامیوں کے حلالی ذمے داران کی نقاب کشائی کس کا ذمہ ٹھہرا؟ کیا فیصلے کی گھڑی آن نہ پہنچی؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).