یا ظلم مٹے گا دھرتی سے یا دھرتی خود مٹ جائے گی


اور جب جانیں جسموں سے ملائی جائیں۔
اور جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے۔
کہ کس گناہ پر ماری گئی تھی۔
اور جب اعمال نامے کھل جائیں۔
اور آسمان کا پوست اتارا جائے۔
اورجب دوزخ دہکائی جائے۔
(القرآن)

دین اسلام سے پہلے کےحالات کا جائزہ لیا جائے تو کفار کی جو برائیاں سر فہرست تھیں۔ ان میں سے ایک اپنی معصوم، کم عمر بچیوں کو زندہ درگور کرنا بھی تھی۔ کیونکہ وہ لڑکی کی پیدائش کو ناپسند قرار دیتے تھے۔
بیٹی پیدا کرنا عورت کے لیے ایک سزا تھا۔
بقول شاعر
جب باپ کی جھوٹی غیرت کا خوں جوش میں آنے لگتا تھا
جس طرح جنا ہو سانپ کوئی یوں ماں تیری گھبراتی تھی

یہ گھبراہٹ یا یہ نفرت انہیں اپنے آباء وا اجداد سے ورثہ میں ملی ہوئی تھی اور وہ نسل در نسل اس پر عمل کرتے آ رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جہاں باقی کمزوروں کے حقوق کا تعین ہوا وہیں باعث ننگ سمجھی جانی والی، زندہ درگور کر دینے والی، ترکہ میں تقسیم ہونے والی، شوہر کے ساتھ زندہ جلا دینے والی، سوتیلے بیٹے کی تحویل میں آ جانے عورت کو بھی کبھی آبگینہ سے تشبہیہ دی گئی تو کبھی صنف نازک قرار دیا گیا، کبھی شوہر کے ایمان کی محافظ بنی، یہاں تک کہ میرے آقا و مولا نے اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔ ایسی بشارت پا کر وہ کمزور و ناتواں وجود خوشی سے پھولے نہ سمایا۔ حالات بدلے سوچ بدلی۔ لوگ بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹی کی پیدائش پر بھی مسرور دکھائی دینے لگے۔ اور اس بیٹی نے اپنے ہونے کا حق ادا کیا۔ ہر میدان عمل میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ ہر جگہ اپنا آپ منوایا۔

لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ سوچ کچھ لوگوں میں ہی بدلی۔ اکثریت تو ابھی بھی وہاں ہی کھڑی ہے۔ جہاں ابوجہل حکمران تھا۔ جہاں بیٹی ابی ابی پکارتی رہ گئی اور باپ نے اس کے منہ پر خاک ڈال کر گڑھا بند کر دیا۔ کاش! کہ میں اسی دور میں جی رہی ہوتی جہاں اپنا سگا باپ گڑھے میں ڈال کر مجھے دفنا دیتا۔ کاش! کہ میں میری سگی ماں میرا گلہ گھونٹ کر مجھے مار دیتی۔ کاش! کہ میں پیدا نہ ہوئی ہوتی۔ کاش یہ سارے کاش میرے نہیں بلکہ اس معصوم “ زینب “ کے ہیں جس کو اپنا جرم بھی پتہ نہیں تھا۔ جس معصوم کے ساتھ وہ گناہ کیا گیا جس کا مطلب بھی وہ نہیں جانتی ہوگی۔ اس کا کیا قصور تھا؟

یہ کہ وہ ایک کمسن بچی تھی؟ یہ کہ وہ معصوم کلی تھی جس کو ایک خوشبو دار پھول بنناتھا مگر ظالم راہگیر نے اس کچی کلی کو توڑ کر پاؤں تلے مسل دیا۔ مالی اپنے پھول کی حفاظت میں ناکام ہوا اور ایک زندگی درندگی کی نذر ہوئی۔ ہمارے لیے یہ خبر ہے جو ہم نے چلتے پھرتے کسی سے سنی یا کسی نے سوشل میڈیا پر لگا دی ہم نے دیکھ کر افسوس کا ایک ایموجی سینڈ کیا حکمرانوں کو گالیاں دیں اور اس کے بعد اپنے روز کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔

من حیث القوم ہمارا یہ رویہ بہت پرانا ہے ہم کسی واقعہ پر چند دن سوگ مناتے ہیں۔ بہت جذباتی بھی ہو جاتے ہیں لیکن ہماری یاد داشت اتنی کمزور ہے کہ محض چند دن بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک نیا واقعہ رونما نہ ہو جائے۔

ہم اس سے قبل ایسے بے شمار واقعات سن چکے ہیں جس میں کمسن بچے، بچیوں کو ظالم درندوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ اور پھر اپنے ظلم کو چھپانے کے لیے ان معصوم جانوں کو موت کے اندھیرے گڑھے میں دھکیل دیا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ
اس واقعہ میں قصور وار کون ہے؟ وہ بد طینت مرد جن کو اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے ایک سات سالہ بچی ملی؟ یا وہ والدین جنہوں نے اپنی بچی کو اکیلے باہر جانے دیا؟ وہ حکمران جو اس طرح کے واقعات پر مجرم کو قرارواقعی سزا نہیں دیتے؟

یا وہ عورتیں جو بحییثیت ماں اپنے بیٹوں کو عورت کی عزت سکھانے میں ناکام رہتی ہیں؟
کون قصور وار ہے؟ میرا ذہن یہ سوچ سوچ کر دکھ چکا ہے کیا کوئی ہے جو میری مدد کرئے؟

مجھے بتائے کہ اس ننھی پری اس چمکتی آنکھوں والی شہزادی کا قصور وار کون ہے؟ اس کی بھولی صورت مجھے نہ سونے دیتی ہے نہ چین لینے دیتی ہے۔ میں جو خود ایک ماں ہوں۔ میں جو ایک عورت ہوں۔ میں جو ایک کامیاب اور آزاد زندگی گزار رہی ہوں۔ کیا زینب اس کی حقدار نہ تھی؟ کیوں اسے ایک مضبوط عورت نہ بننے دیا؟ کیوں اس کی ماں کی گود اجاڑ دی گئ؟ ان سوالوں کے جواب ہم میں سے ہر ایک کے پاس مختلف ہوں گے۔ کوئی کسی کو تو کوئی کسی کو مجرم قرار دے رہا ہے۔ لیکن ہم سب اس واقعہ کے برابر قصور وار ہیں۔ اگر اس طرح کے جرم میں ملوث پہلے شحض کو اس کے کیے کی سزا ملی ہوتی تو آج یہ معصوم زینب بھی اپنی ماں کی گود میں دبکی اس سے اور کہانی سننے کی فرمائش کر رہی ہوتی۔

اگر گھر میں ہر مرد کو یہ سکھایا جائے کہ جس طرح تمہاری ماں، بہن، قابل عزت ہیں اسی طرح معاشرے کی ہر عورت قابل احترام ہے۔ یہ نہ بتایا جائے کہ اپنے گھر کی عورت کے سوا ہر عورت تمہارے لیے جائز اور حلال ہے۔ اگر ایک مثبت سوچ لے کرہر مرد پروان چڑھے تو ایسی بہت سی مظلوم بچیاں اس گھناؤنے فعل کا شکار ہونے سے بچ سکتی ہیں۔ حکمرانوں سے انصاف مانگنا مجھے بے سود لگتا ہے۔ اپنی مدد آپ کریں۔ اپنے گھر سے شروع کریں۔ اپنے بچوں کے دل میں اس فعل سے نفرت پیدا کریں۔ ان کو اس کے بد اثرات بتایئں ان کو بتایئں کہ بیٹیوں کے والدین تو ویسے ہی بہت آزمائشوں میں گھرے ہوتے ہیں۔ بیٹی کے اچھے مستقبل کی فکر ان کی نیندیں اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ اس کیوہ کتنی حفاظت کریں۔ کہ اس کو تو گھر میں بھی خطرہ اور باہر بھی۔ وہ تو پہلے ہی بڑی مشکلوں میں ہوتے ہیں۔ اس کو تعلیم دلوائیں تو مشکل کم پڑھایئں تو مشکل۔ وہ خوبصورت ہو تو اس کی خوبصورتی کو بد نظروں سے چھپانے کے لیے پریشان، کم شکل ہو تو اس کو کم ظرفوں کے طعنوں سے بچانے کے لیے ہلکان۔ صحت مند ہو تو اس کو کھانے سے ٹوک ٹوک کر پریشان، کمزور ہو تو دواؤں سے فربہ کرنے کے جتن کرتے وہ سب مظلوم والدین، جن کے جگر کے ٹکڑوں کو ان جہلاء کے سامنے پیش ہونا ہے جو ان کے مستقبل کا فیصلہ ظاہری حالت کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ ان کو اور دکھ نہ دو۔ خدارا! ان کی اذیت کو مت بڑھاؤ۔

تم نہیں جانتے کہ ان واقعات کے بعد ان کی کیا حالت ہوتی ہے۔ جن کے آنگن میں ایسی چڑیاں چہچہاتی ہیں۔ ایسے بے گناہوں کا قتل عام مت کرو یہ نہ ہو کہ اس دیس میں ہر وقت لال آندھیاں چلنا شروع ہو جایئں۔ مت اتنا ظلم توڑو کہ تم پر بھی ابابیل کے جھنڈ بھیجے جائیں جو تم کو نسیت و نابود کر دیں۔ ڈرو اس وقت سے جب تم ابتر ہو جاؤ۔ ڈرو اس جزا سزا کے دن سے جہاں تمہارے نامہ اعمال تمارے ہاتھ میں ہو گا۔ اور کسی کی سفارش قبول نہیں کی جائے۔ جہاں نہ کسی وزیر کا ساتھی بچے گا۔ نہ کسی ایم این اے کا چمچہ، جہاں ڈی سی کو کوئی رشوت دے سکے گا نہ کمشنر سے کوئی مک مکا ہو گا۔ جہاں صرف ایک ہی چکی چلے گی جو انصاف کی چکی ہوگی۔ جو اتنا باریک پیستی ہے کہ کسی مظلوم کو کوئی شکوہ نہیں رہتا۔
بے شک وہ خدا بہت انصاف کرنے والا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).