شاہد آفریدی کے ہاتھ میں ذائقہ بہت ہے


\"hashir\"\”ایک نہایت مشہور کھلاڑی نے جس کی ہر جگہ مانگ تھی سپورٹس چھوڑ دینے کا اعلان کیا۔ سب حیران ہوئیے۔  انٹرویو میں جب یہ سوال کیا گیا  کہ  اب جبکہ وہ  اپنے پورے  عروج پر ہے  کیا یہ فیصلہ قبل از وقت  نہیں؟ اس پر کھلاڑی کا یہ مختصر سا جواب  انجینئر کو اب تک یاد تھا۔

\” عروج کی چہل پہل اور رونق کو  اس وقت چھوڑنا بہتر ہے جب سب پوچھیں کہ جا کیوں رہے ہو؟ نہ کہ جب سب کہنے لگیں کہ یہ چلا کیوں نہیں جاتا\”

یہ اقتباس شفیق الرحمان کی کتاب دجلہ سے ہے۔ اس بات کا گمان رکھنا کہ آفریدی نے یہ کتاب بلکہ کورس کی کتابوں کے علاوہ کوئی بھی کتاب پڑھ رکھی ہو گی ایسا ہی ہے جیسے یہ گمان رکھنا کہ سورج مغرب سے طلوع ہو سکتا ہے، مجاہد بریلوی مختصر سوال کر سکتے ہیں، اوریا مقبول سیکولر ہو سکتے ہیں، ڈاکٹر دانش دانشمندانہ گفتگو کر سکتے ہیں یا ہارون رشید با ربط کالم لکھ سکتے ہیں۔ پر یہ سچ ہے کہ آفریدی کی زندگی میں بہت سے ایسے موقعے آئے جب وہ اپنی رخصت کو با عزت اور یادگار بنا سکتے تھے پر اب وہ اسی طور جائیں گے جس طرح انضمام، وسیم اکرم یا میاں داد رخصت کئیے گئیے تھے۔  جانا بہر حال ٹھہر گیا ہے۔ سو اک عہد ختم ہوا۔

شخصیات پر لکھنا مجھے کبھی پسند نہیں رہا۔ لیکن اس بات کے ماننے میں مجھے کوئی عار نہیں ہے کہ صاحبزادہ شاہد خان آفریدی محض ایک شخصیت کا نام نہیں ہے۔ ان پر لکھنا گویا اس ملک کے رویوں پر لکھنا ہے۔ اس کے لوگوں کی نفسیات کا تجزیہ کرنا ہے اور اس کے محبوب کھیل کی تباہی کا نوحہ رقم کرنا ہے۔ میں انہیں اس تباہی کا ذمہ دار نہیں سمجھتا۔ وہ محض ایک کھلاڑی نما ماڈل یا ماڈل نما کھلاڑی تھے اور ہیں۔ انہوں نے وہی کیا جو وہ کر سکتے تھے۔ تباہی کے اصل ذمہ دار وہ صاحب اختیار ہیں جنہوں نے ایک ممولے کو شہباز کے فرائض سونپے یا وہ عوام جو بقول حبیب جالب ایک محنتی جانور جیسے ہیں اور اس جتنا ہی دماغ رکھتے ہیں۔

\"SmartSelectImage_2016\"ایک زمانہ تھا جب آتش کافی جوان تھا اور کرکٹ کا اس حد تک دیوانہ تھا کہ باپ کو بٹھا کر یہ کہنا پڑا کہ ایک فیصلہ کرلو یا کھیل کو اپنا لو یا پڑھائی کو۔ فیصلہ ظاہر ہے آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا۔ وہ الگ بات ہے کہ کچھ عشق کیا کچھ کام کیا کے مصداق نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ خیر میری حسرتوں کی داستان یہاں چھوڑئیے اور اصل قصے پر واپس آئیے۔ تو ذکر تھا نوجوانی کا۔ میدانوں میں کرکٹ کھیلتے ہوئیے ہمارے لئے آصف اقبال کا رن لینے کا انداز، ماجد خان کی ہینڈ آئی کوآرڈینیشن، عمران خان کا رن اپ، جاوید میاںداد کا لیگ گلانس گویا مشعل راہ ہوتا تھا۔ تھوڑا وقت اور گزرا تو سلیم ملک کی کلائی کا کمال،  سعید  انور کی ٹائمنگ، وسیم اکرم کی برق رفتاری، عبدالقادر کی جادوگری اور وقار یونس کے یارکر آنکھوں میں بسنے لگے۔

کرکٹ کے میدان پر تحسین اس وقت ملتی تھی جب کوئی خوبصورت کور ڈرائییو کھیلتا تھا۔ ایک اچھے اسکوائر کٹ پر کئی دن داد برستی تھی۔ کلائی کے زور پر تھرڈ مین کی طرف موڑ دی گئی شارٹ پر دیر تک تالیاں بجتی  تھیں۔  ٹیپ بال کا نیا نیا دور شروع ہوا تھا تاہم کوئی ٹیپ بال کے کھلاڑیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔ لاہور کے میدانوں میں باہر نکل کر ہر دوسری گیند پر چھکے لگانے یا اس کی کوشش کرنے والوں کو ازراہ تفنن ٹلا  کہا جاتا تھا اور کوئی اعلی ٹیم ان کو گھاس نہیں ڈالتی تھی۔ آج کی پاکستانی کرکٹ ایک الگ دنیا ہے جس میں یہ سب قصہ پارینہ ہے۔ یہ دنیا آفریدی کی دنیا ہے اور مجھے یہ بہت بدنما، بہت بھدی اور بہت تخریب کن لگتی ہے

 \"SmartSel\"اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تیز رفتاری سے سکور کرنے والے کھلاڑی ہمیشہ لوگوں کو پسند رہے۔ گیری سوبرز  سے ویوین رچرڈز اور آدم گلکرسٹ تک بے شمار ستارے ہیں جو کرکٹ کی کہکشاں  میں چمکتے رہے  تاہم جو قدریں  انہیں آفریدی جیسے کھلاڑیوں سے ممیز کرتی ہیں وہ ان کی مستقل مزاجی، ٹیکنیک اور دماغ جیسی چیز کا استعمال رہی ہیں۔ بیٹنگ سے ہٹ کر بولنگ کو بھی دیکھ لیں تو حضور دور دور تک کسی اچھے بولر کے قریب نہیں آتے۔ آل راؤنڈر کو پیمانہ بنائیں تو مصیبت یہ ہے کہ سوبرز، ہیڈلی ، عمران، بوتھم، کپیل، اسٹیو وا، کالس جیسوں کے ساتھ جوڑ پڑ جاتا ہے۔ پر آفریدی کے متوالوں کو کون یہ سمجھائیے۔  اگر آپ سوشل میڈیا پر وقت گزارتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ آفریدی کے فینز کا اگر بس چلے تو اس ملک میں انسداد  توہین آفریدی کا قانون  کل نافذ  ہو جائیے اور اس کی سزا موت سے کم نہ ہو۔ اس ضمن میں ایک سے ایک لطیفہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

کچھ ویب سائیٹس نے آفریدی کے حوالے سے طنزیہ پوسٹس بنانی شروع کیں۔ دیدہ بینوں کے لئیے انہوں نے پوسٹ کے کونے میں Troll Cricket جیسی اصطلاحات کا بھی سہارا لیا پر صدقے جائیے آفریدی کے چاہنے والوں کے کہ وہ نہ صرف یہ کہ ان کو سچ سمجھ بیٹھے بلکہ آفریدی کے میرے جیسے ناقدین کے ساتھ انہیں فخریہ شئیر بھی کیا۔ ان کا تو خیر کیا روئیے ایک موقرچینل نے ان تمام پوسٹس کو اکٹھا کیا اور اسے ایک خبر کی صورت میں آفریدی کی تعریف میں باقاعدہ نشر کر ڈالا۔ کوئی عقل والوں کا دیس ہوتا تو اس پر ایسی بھد اڑتی کہ طبعیت صاف ہو جاتی پر ہمارے یہاں  رادھا کے رقص کا دور دور تک امکان نہیں۔

آئییے ان میں سے کچھ شاہکار آپ بھی پڑھ لیں  پھر سر دھنیے یا کچھ اور یہ آپ پر منحصر ہے۔

\"SmartSelectImage_2\"\”مجھے ایک شاہد آفریدی اور دس لکڑی کے ٹکڑے دے دیں۔ میں آپ کو ورلڈ کپ جیت کر دے دوں گا \” اسٹیو وا

\”شاہد آفریدی مجھے دس چھکے لگا سکتا ہے اور کراوڈ کا رسپانس دیکھنے والا ہو گا\” کرس گیل

\”شاہد آفریدی ہمارے لئے آگ ہیں \” سچن ٹنڈولکر

\”کرکٹ شاہد آفریدی کے بغیر کرکٹ نہیں\” مائییکل ہولڈنگ

\”میرے بچے میری طرح نہیں،  شاہد آفریدی کی طرح بننا چاہتے ہیں \” شین وارن

\”میری نظر میں آفریدی سنگاکارا سے بڑا بیٹسمین ہے\” لستھ ملنگا

\” گیری سوبرز+ سچن ٹنڈولکر = شاہد آفریدی – ویو رچرڈز\” جیک کالس

شکر ہے انہوں نے یہ اقوال نہیں لگائے کہ

\” شاہد آفریدی نہ ہوتے تو میں کبھی صدر نہ بن پاتا۔ میں نے انہیں دیکھ کر کامیابی کے گر سیکھے \” باراک اوبامہ

\” کاش میں بھی شاہد آفریدی جتنا مشہور ہوتا \” لائنل میسی۔

\” میں شاہد آفریدی تو نہ بن سکا لیکن ہمیشہ ان کا فین رہوں گا \” جان سینا

\” مجھ جیسے لیڈر تو تاریخ نے بہت دیکھے ہیں ہر شاہد آفریدی جیسا رہنما صدیوں میں ایک ہی ہے \” مرحوم نیلسن منڈیلا

\” مجھے عظیم کھلاڑی سمجھنے والوں نے شاید آفریدی کو کھیلتے نہیں دیکھا \” راجر فیڈرر

\"Shahid-Afridi\"\” انجیلامرکل، لالوپرشاد یادیو، ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پیوٹن کی آفریدی کے خلاف گروہ بندی کی وجہ سے پاکستان ورلڈ کپ سے باہر ہوا \” نوم چومسکی

\”جس طرح آفریدی نے ڈینڈرف کو شکست دی۔ کاش میں بھی اس طرح واٹر لو میں انگریزوں کو شکست دے سکتا \” نپولین کا عالم ارواح سے پیغام۔۔۔۔۔۔۔

سچ پوچھئیے تو کوئی بعید نہیں کہ کل کو آفریدی کا کوئی مداح ان اقوال کو بھی سچ مان کر فیس بک پر دھڑلے سے ڈال کر سینہ پھلائیے پھرے۔۔۔۔

ایسا نہیں ہے کہ کرکٹ کے پنڈتوں نے آفریدی کے لئیے کبھی کلمات تحسین ادا نہیں کئیے۔ جب بیس سال ایک شخص کھیلتا ہے تو لامحالہ کوئی کوئی دن اچھا بھی چڑھتا ہے۔ اور اس دن لوگ شبھ شبھ بولتے بھی ہیں۔ پھر کبھی ازراہ مہمان نوازی، کبھی ازراہ رسم اور  کبھی ازراہ طنز خیر کے یا تعریف کے پھول بھی جھڑتے ہیں پر انہیں کھلاڑی کے کیرئیر کا پیمانہ سمجھنا انتہا درجے کی سادہ لوحی ہی کہلائے گی۔

آفریدی کے طلوع ہونے کے بعد سے بیٹنگ میں ہم نے انتہا کا قحط الرجال دیکھا۔ اس کی وجہ سادہ ہے۔ جب ہر بچے اور نوجوان نے دیکھا کہ فلک بوس چھکے یا عرف عام میں ٹلے بازی اب کامیابی کا اور شہرت کا پیمانہ ٹھہری ہے تو پھر ہر ایک اسی راستے پر چل نکلا۔ بھارت کے نوجوان ٹنڈولکر، ڈراوڈ، لکشمن اور اظہر الدین سے سبق لے رہے تھے اور ہمارے لئیے آفریدی استاد کامل تھے اور ہیں۔ گلی محلے کا ہر بچہ آج آفریدی بننا چاہتا ہے۔ ان میں سے کوئی سلیم ملک، ماجد خان، میاںداد یا سعید انور سے متاثر نہیں ہے ۔

آخر ایسا کیوں ہے۔ اس سوال کا جواب شاید کمرشلزم کی اس اندھی دوڑ میں چھپا ہے جہاں یونی لیور سے لے کر ہمایوں سعید تک ہر ایک نے شاہد آفریدی برانڈ کو کیش کرایا اور اس چکر میں کرکٹ کا جنازہ پڑھا گیا۔  میں پھربھی اس کا مکمل ذمہ دار آفریدی کو نہیں سمجھتا لیکن اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ ہماری نئی نسل کو اس بات کا کوئی ادراک نہیں کہ وہ ایک سراب کے پیچھے بھاگے جا رہے ہیں۔ تیکنیک، فنی مہارت، فٹ ورک سب کوڑے دان میں ڈال دیے گئے ہیں اور مقابلہ ہے تو بس یہ کہ کون زیادہ بڑا ٹلا ہے۔ کرکٹ کو پاکستان میں اب ایک پیراڈائم شفٹ کی ضرورت ہے اور شاید یہ تب ہی ممکن ہو گا جب آفریدی کا نام منظر سے ہٹے گا۔ ان کو کھلانے والے مطعون ہوں گے اور ان پر واہ واہ کے ڈونگرے برسانے والے پشیماں ہوں گے۔

میں جانتا ہوں کہ آفریدی کے ریکارڈز کا ڈھول روز بجایا جاتا ہے۔ یہ کالم شیطان کی آنت بنتا جا رہا  ہے اس لئیے ان ریکارڈز کے تجزئے کا وعدہ اگلی نشست میں۔ یہ طے ہے کہ وہ ریکارڈ قابل رشک نہیں بلکہ قابل پشیمانی ہیں پر اگر آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو۔۔۔۔

بعض اوقات ایک ہیرو کی شخصیت اس کے پرستاروں کی نفسیات کا پرتو ہوتی ہے اور میں اس بات سے بہت خوفزدہ ہوں۔ اپنے ممدوح خان صاحب کی طرح آفریدی اپنی مذہبیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے عادی ہیں۔ ان کی نمازیں بھی فوٹوگرافر کے بغیر ادا نہیں ہوتیں۔ تبلیغی متاثرین کی عمومی تنگ نظری اور دوغلا پن ان کی شخصیت کا طرہ ہیں۔ عورتوں کے بارے میں ان کے زریں خیالات کی ایک جھلک آپ خواتین کرکٹ ٹیم پر ان کے تبصرے کی صورت دیکھ ہی چکے ہیں۔ کرکٹ ٹیم کی اندرونی سازشوں میں ان کا کردار اور ان کی ہوس اقتدار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور آج کی نسل ان کی ہر ادا پر نثار انہی کے روپ میں ڈھلتی چلی جا رہی ہے۔ وقت آن پہنچا ہے کہ اس نفسیاتی گرداب سے ہم اپنے بچوں کو نکالیں۔ انہیں رخصت کریں تاکہ وہ اپنے بوتیک کے کپڑوں کی تراش اور اپنے ریسٹورنٹ کے کھانوں کی تراکیب پر توجہ دے سکیں۔ اورہم نئے سرے سے اپنے محبوب کھیل کو پھر سے تعمیر کریں۔ کیا پتہ اسی بہانے قومی ذہن کی تشکیل نو بھی ہو سکے۔ تاہم یہ سب کرنے سے پہلے میں  چاہوں گا کہ کوئی اینکر خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان ثنا میر کا ایک انٹرویو کرے۔ چشم تصور سے اس کے ایک حصے \"441766-SanaMir-1348530746-608-640x480\"کی جھلک کچھ یوں ہونی چاہیے۔

اینکر: شاہد آفریدی کی کرکٹ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے

ثنا میر: جی میں کل لاہور میں ان کے ریسٹورنٹ میں گئی تھی

اینکر: ان کی کرکٹ؟

ثنا میر: یہ جو ہمارے آفریدی ہیں نا۔۔۔۔ ان کے ہاتھ میں بڑا ذائقہ ہے

اینکر: لیکن میں تو کرکٹ۔۔۔۔۔

ثنا میر: جواب مل گیا نا آپ کو

اینکر: جی میں تو۔۔۔۔

ثنا میر: تھینک یو

اینکر: پر۔۔۔۔۔۔

ثنا میر: جی میں نے کہا نا۔۔۔تھینک یو۔۔۔۔اگلا سوال۔۔۔۔۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments