جنسی زیادتی کا اخلاقی جواز


کیا جنسی زیادتی کا کوئی اخلاقی جواز ہونا چاہیے؟ یقینا نہیں ہونا چاہیے۔ ۔ ۔ مگر ہے!
اب آپ بھی میری طرح پریشان ہو رہے ہوں گے کہ اس قدر غیر انسانی و غیر اخلاقی عمل کا اخلاقی جواز بھلے کیسے ممکن ہے؟

تو جناب! آپ کے اس سوال کا جواب بڑا سادہ سا ہے اور وہ یہ ہے کہ! آپ کی یادداشت کمزور ہے بلکہ میں تو یہی کہوں گی کہ بحثیت سماج ہم سب کی مشترکہ یادداشت ہی انتہائی کمزور ہے۔
کیونکہ اگر آپ ذرا سا یاد فرمانے کی زحمت کریں تو آپ کو ضرور یاد آئے گا کہ کیسے بحثیت والدین آپ نے اپنے بیٹے کو یہ اختیار سونپا تھا کہ وہ اپنی بہن کی مورل پولیسنگ کرے اور اسے یہ سمجھائے کہ کون سے کپڑے اس کے لئے موزوں ہیں اور کس لباس سے بے حیائی چھلکتی ہے۔ آپ کو یہ بھی ضرور یاد آئے گا کہ کس طرح سے آپ نے اپنی اولاد کے سامنے اپنی بیوی کی دھلائی کرتے ہوئے اسے طرح طرح کے القابات سے نوازا تھا، بنا اس بات کی پرواہ کیے کہ آپ اپنی اولاد کے رول ماڈل تھے۔

ذہن پر تھوڑا سا اور زور ڈالیں، تاکہ آپ کو یہ بھی یاد آئے کہ کیسے گھر کے اندر کے سارے کام بہن کے ذمے تھے، اور آپ دن بھر اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے جینے (جس کا آپ کو حق تھا اور ہے بھی) کے بعد گھر پہنچ کر بہن کی مرضی اور اس کے جینے کے حق کو تسلیم کیے بغیر اس سے نوکروں کی طرح کام لیتے تھے، اور وہ بیچاری یہ سب کچھ (لاشعوری طور پر) بھائی کی محبت میں کر جاتی تھی۔

ذرا اپنے اسکول، کالج کے وہ دن بھی یاد کرنے کی کوشش کرو، کہ جب تم اور تمھارے دوستوں کا گروہ لڑکیوں کا پیچھا کرتا تھا، اپنے نمبر کی پرچی پھینکتا تھا، آتے جاتے آوازیں کستا تھا، فلمی گانے اور ڈائلاگ پیش کرتے ہوئے شاہ رخ خان بننے کی ناکام کوششیں کرتا تھا۔ ۔ ۔ اور یہ سب کرتے ہوئے یہ یقین رکھتا تھا، کہ لڑکی نے ہمیشہ سر جھکا کر ہی چلے جانا ہے، اور آپ بے خوف یہ عمل دہراتے جا رہے تھے۔

ہاں! تمہیں یہ بھی یاد آجانا چاہیے، کہ کس طرح سے تم نے خدائے واحد کے عظیم نظریے کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ عورت مرد کی پسلی کی پیداوار ہے اور اس بات کو تم نے اس طرح سے تشریح کیا تھا کہ عورت مرد سے حقیر ہوتی ہے۔

اچھا یہ بتاؤ! تمہیں وہ نصابی کتابیں یاد ہیں جن کے ہر مضمون میں عورت کو کمزور، حقیر، اور فسادی لکھا گیا تھا؟ وہ استاد تو ضرور یاد ہوگا جس نے تمہاری اس بات کی تایید کی تھی کہ لڑکیاں میک اپ کر کے لڑکوں کو بہکاتی ہیں۔

یہ بات تو تمہیں بہت اچھی طرح یاد ہوگی کہ جب محلے میں جنسی زیادتی کا ایک واقعہ پیش آیا تھا، اور محلے کا جرگہ (جن میں صرف مرد تھے) لڑکی کے والدین کو یہ سمجھا رہا تھا کہ اپنی بیٹیوں کو کس طرح سے اخلاقی تعلیم دینی چاہے اور یہ کہ اگر لڑکی میں کوئی نقص نا ہو، تو لڑکا کبھی خراب نہیں ہوتا۔ اور ہاں جرگے کے سبھی مرد ہی نہیں بلکہ محلے کی تقریبا تمام عورتیں بھی مل بیٹھ کر یہی بات کرتی تھیں کہ فلانا صاحب کی بیٹی نے ناک کٹوا دی، مگر کسی نے تم سے یہ سوال تک نہیں کیا کہ اس سارے عمل میں تم بھی برابر کے حصے دار تھے۔

میرا خیال ہے کہ تمہیں یہ تو یاد ہونا چاہیے کہ جب تمہاری پسند کی شادی (جس میں لڑکی کی پسند شامل نہیں تھی) کے بعد جب تم اپنی بیوی پر ظلم ڈھاتے تھے، تو اسی کم بخت لڑکی کے والدین کا یہ کہنا تھا، کہ میاں بیوی میں ہلکا پھلکا جھگڑا تو ہوتا رہتا ہے اور بیوی کو یہ برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔

تو یاد ہے؟ معلوم نہیں میں ایسا کیوں سوچ رہی ہوں کہ تمہیں یہ سب یاد ہوگا۔ کیونکہ میں آج بھی تمہیں انسان سمجھتی ہوں، اور ایک انسان اتنا سب یاد کرنے کے بعد کیسے ظلم کو جاری رکھ سکتا ہے؟
خیر یاد کرنے کی کوکوشش کرو! اور جب تک تمہیں یہ سب یاد آجاتا ہے میری اس بات کو غور سے سنو!

تمہیں بچپن میں بہن کی مورل پولیسنگ کے اختیار سے، باپ کی تلخی اور ماں کی خاموشی سے، محلے کے معزز جرگے کے ”دانشمندانہ“ فیصلوں سے، مذہبی تعلیمات کی غلط سمجھ سے، غلاظت بھرے تعلیمی نصاب سے الغرض سماج کے تمام پدر شاہی اداروں کی توثیق سے زینب کے ریپ اور قتل کا اخلاقی جواز ملا ہے۔
اپنی یادداشت پر زور ڈالو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).