پون صدی کا قصہ تمام ہوا، کراچی سے انسان رخصت ہوا


ایک بچہ ظلم کا نشانہ بن کر مر جائے تو دھرتی پر معصومیت کی موت ہو جاتی ہے۔ ایک بزرگ مر جائے تو دھرتی سے حلم اٹھ جاتا ہے۔ ایک استاد مر جائے تو علم رخصت ہو جاتا ہے۔ ایک بچوں جیسا معصوم بزرگ استاد مر جائے تو معاشرے سے انسانیت کا جنازہ اٹھتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کے سینے کراچی سے انسانیت کا جنازہ اٹھ گیا ہے۔ پچھتر برس کے پروفیسر حسن ظفر عارف مشکوک حالات میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

فلسفے کا یہ شفیق استاد تمام مکاتب فکر میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کی مخالفت کی پاداش میں اس کو کراچی یونیورسٹی سے برطرف کیا گیا۔ اس نے پیپلز پارٹی کا اس وقت ساتھ دیا جب بہت کم لوگ یہ جرات کر پاتے تھے۔ جب اس اصولوں کے پکے شخص کو بے نظیر بھٹو اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرتی دکھائی دیں تو خاموشی سے الگ ہو گیا۔ مرتضی بھٹو کے سیاست میں ایکٹو ہونے پر اس کا ساتھ دیا۔ اس کی موت پر سیاست ترک کی اور کتابوں کی دنیا میں واپس چلا گیا۔ پچھلے برس ایم کیو ایم میں شامل ہوا۔ کیوں شامل ہوا؟ اس سوال کا جواب شاید ہی کوئی دے سکے۔ لیفٹ کا یہ نمایاں ستارہ انسانی حقوق کی جدوجہد کا ماضی رکھتا تھا۔ ایم کیو ایم میں شمولیت نے بہت سوں کو حیران کیا۔

لاہور میں رہنے والی ہماری نسل کراچی کی سیاسی تاریخ کے ان درخشاں ستاروں سے ناواقف رہی ہے۔ پچھلے برس جب پروفیسر حسن ظفر عارف کو ایم کیو ایم لندن میں شمولیت کے بعد رینجرز نے گرفتار کیا تو اس وقت پہلا تاثر اس تصویر کا ہی تھا جو غمزدہ کر گئی۔ ایک شفیق پروفیسر، ستر برس سے اوپر کی عمر، وہ کسی کے لئے کیا خطرے کا باعث تھا جو اسے اس طرح حراست میں لیا گیا؟ یہ تصویر پاکستانی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے اور ہمیشہ پاکستانی ریاست کے لئے باعث ندامت رہے گی۔

پروفیسر حسن ظفر عارف کل سے لاپتہ تھے۔ کراچی پولیس کے مطابق آج صبح کسی نے 15 پر کال کر کے ایک گاڑی میں لاش کی اطلاع دی۔ لاش کے چہرے پر خون کے نشانات تھے۔ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ لاش پر تشدد کے نشانات نہیں تھے۔ جناح ہسپتال کی ڈاکٹر سیمی جمالی کا بھی یہی کہنا ہے کہ جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں ہے تاہم پوسٹ مارٹم کے بعد صورت حال واضح ہو گی۔

حکیم سعید کی موت کے بعد یہ کراچی کی المناک ترین موت ہے۔ علم کے آسمان سے درخشاں ستارے کا زبردستی توڑا جانا ایک چھوٹا صدمہ نہیں ہوتا۔ جب بزرگ اور استاد رحمت کی بجائے زحمت سمجھے جانے لگیں تو یہ معاشرے کی موت ہوتی ہے۔ یہ بزرگ استاد تشدد سے کہاں مرا ہو گا۔ زمانے کی بے حیائی پر شرم سے مرا ہو گا۔

پروفیسر حسن ظفر عارف کی لاش گاڑی کی پچھلی نشست پر تھی۔ اگر ہمیں یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ موت طبعی تھی تو ہم مان لیں گے۔ ہم حکیم سعید کی موت کو بھی طبعی مان لیں گے۔ اور ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس موت کے ساتھ ہی کراچی سے انسان رخصت ہوا۔ حکیم سعید کی طبعی موت کے بعد یہ کراچی کی المناک ترین طبعی موت ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar