ہم حالتِ جنگ میں ہیں


\"akhtarاب کے بار دھماکہ برسلز میں ہوا۔ تیس سے زائد جانیں ضائع ہوئیں اور سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ دھماکوں کی صدا شہر ہی نہیں، سارے برِ اعظم یورپ میں سنی گئی۔ برسلز کا ایر پورٹ بند کر دیا گیا، ٹیوب کا نظام منجمد ہو گیا۔ یورپ اب کی بار دھماکوں کی صدا سن کر ٹرانس میں نہیں آیا۔ یہ پچھلے سال اوراس سے پچھے برس ہوا تھا جب پیرس دو مرتبہ زیرِ عتاب آیا اور کوپن ہیگن میں قتل ہوئے۔ اب یورپ رفتہ رفتہ عادی ہوتا جا رہا ہے۔ وہ جنگ جس کی مدت سے وعید تھی، اب یورپ پہنچ چکی ہے۔ اب نہ ہمارا کوئی ائرپورٹ محفوظ ہے نہ کوئی ٹیوب، نہ کوئی پارک اور نہ کوئی ریستوران۔ دہشت کے پجاری کسی اخلاقی قدر کے پابند نہیں، وہ تو خود اپنے خدا کے بنائے ہوئے قوانین کے پابند نہیں ہیں، سو انسانوں کی بنائی ہوئی جنگی اخلاقی اقدار کی پابندی ان کے لیے کیا معنی۔ حیوان جنگل سے نکل آیا ہے۔ انسان کی تہذیب زیرِ عذاب ہے۔

عام یورپی شہری خوف و ہراس کا شکار ہے۔ اور اس خوف کا احترام لازم ہے۔ یورپ کئی دہائیوں سے پْرامن ہے۔ عام شہریوں کے لیے دہشت کی لہر جس میں سِول غیر مسلّح شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے نئی اور پریشان کن ہے۔ یورپی سیکورٹی فورسز پہلے سے زیادہ الرٹ ہیں، ناروے جیسا ملک جہاں پولیس عمومی طورپر غیر مسلح ہوتی ہے، مسلح کی جا رہی ہے، اور ہم اس فیصلہ سے اتفاق کرتے ہیں۔

دہشتگروں کا ایک مقصد یورپ کے شہریوں کو ہراساں کرنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنی گلیوں، اپنے پارکس، اپنے ریستورانوں، اپنے ائیرپورٹس، اپنے فٹ پاتھس پر چلنے سے خوفزدہ ہو جائیں۔ وہ ہمیں ہمارے اس جمہوری حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں شہریوں کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ جب چاہیں، جہاں چاہیں نقل وحرکت کریں۔ دہشگروں کو علم ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں ہمارے جمہوری حقوق سے استفادہ کرنے سے محروم نہیں کر سکیں گے۔ جمہوریتیں دہشتگردوں سے کبھی خوف زدہ نہیں ہوتیں۔ ہم جانتے ہیں کہ دہشتگروں نے جو جنگ ہمارے خلاف آغاز کی ہے وہ شائد دو تین دہائیوں تک جاری رہے۔ ہم دو تین دہائیاں خوف زدہ رہنے سے انکار کرتے ہیں۔

لیکن اس جنگ کو صرف لڑنا ہی نہیں، اس کا سدّ ِ باب کرنا بھی لازم ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ صرف گولہ و بارود سے نہیں جیتی جا سکتی۔ یورپ کو اس شدید نفرت کے پیچھے کارفرما عوامل کو جاننا ہو گا تاکہ ہم ان کو ختم کر کے دہشتگردی کا سدّ ِ باب بھی کر سکیں اور اس کا خاتمہ بھی کر سکیں۔ مغرب کے باسیوں کو یہ جاننا اور ماننا ہو گا کہ دہشتگرد جن بنیادوں پر لوگوں کو ورغلا کو نفرت کے جہنم میں جھونک رہے ہیں، وہ بالکل بے بنیاد نہیں ہیں۔ افغانستان کی جنگ، عراق پر قبضہ، مصر میں پروکسی جنگ، لیبیا کی ریاست کی توڑ پھوڑ، پاکستان اور یمن کی سرحدوں کی خلاف ورزی اور ڈرونز کے حملے، فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی غیر قانونی قبضہ اورفلسطینیوں پر ظلم و تشدّد اور ان کی تضحیک، وہ حقائق ہیں جن کو استعمال کر کے انتہا پسند اور دہشتگرد قوتیں سادہ لوح لوگوں کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور بے گناہ انسانوں کی جان لینے پر آمادہ کرتے ہیں۔ ان مظالم و جبر کےخلاف احتجاج، ان مظالم کو عالمی منظرنامہ پر رکھنے کی خواہسش جائز سہی، لیکن اس مقصد کو پانے کے لیے جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی ہے وہ ناجائز اور ناقابلِ قبول ہے۔ ہمیں اس کی شدت و قوت کی مذمّت کرنا ہو گی، تاہم ساتھ ہی ساتھ دہشتگردی کی وجوہات کو سمجھنا اور ان کا پیش خیمہ کرنا ہو گا۔

اس وقت ہمیں عالمی منظر نامہ پر ایسے قائدین کی ضرورت ہے جوجرات مند ہوں، جو گھسی پِٹی لکیروں سے ہٹ کر سوچنے کی اہلیت رکھتے ہوں اور جو رنگ، نسل، مذہب، زبان اورثقافت سے بالاتر ہو کر ان لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھ سکیں جن کی مدد کے بغیر ہم اس عفریت کا سر نہیں کچلا جاسکتا۔ اس وقت ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں جو نفرت کا بیچ بوتے ہوں، جو لوگوں کے مابین دیواریں کھڑی کرتے ہوں اور جو نفرت کے سمندر میں انتقام کے بھنور اٹھاتے ہوں۔ آج ہمیں ڈونالڈ ٹرمپ جیسے بونوں کی نہیں، نیلسن منڈیلا جیسے قد آور لوگوں کی ضرورت ہے۔

جو لوگ اس جنگ کو یورپ کی سرزمین تک لے آئے ہیں وہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ ان لوگوں کو گولی بارود سے ڈرانا ممکن نہیں ہے۔ ان لوگوں کو صرف اس طرح شکست دی جا سکتی ہے کہ ان کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھا جائے اور اس پر ضرب لگائی جائے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ مغرب اوریورپ اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے، مغربی استعماری سوچ کو دفن کرے اور دنیا میں ظلم اورزیادتی کا خاتمہ کرے ۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم قومی اور ملکی سطح سے بلند ہو کر بین الاقوامی اور انسانی بنیادوں پر ایک دووسرے کا ہاتھ تھامیں۔ صرف اس طرح ہم دہشت گردی کی بنیادوں کو ہلا سکیں گے اوردہشت گردوں کی جاری کردہ اس جنگ کو جیت سکیں گے۔

اختر چوہدری
Latest posts by اختر چوہدری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اختر چوہدری

اخترچوہدری گزشتہ 34 برس سے یورپ مین مقیم ہیں۔ وہ ناروے کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر رہے ہیں۔ انہیں پاکستان کی حکومت نے ستارہ قائد اعظم سے نواز رکھا ہے ۔

akhtar-chaudhry has 2 posts and counting.See all posts by akhtar-chaudhry

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments