ہم نہیں جھکیں گے


\"wisiجس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے۔ ہم نہیں روئیں گے ماتم نہیں کریں گے ،اظہار غم بھی نہیں کریں گے۔ کوئی اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہتا سب کو جانا ہوتا ہے۔ ہمارے بچے ہمارے لوگ جو خوشیوں کی تلاش میں نکلے تھے اپنا تہوار منا رہے تھے جلدی چلے گئے۔ ان کے جانے کا وقت نہیں تھا لیکن چلے گئے۔

ہمیں ان دشمنوں سے حساب کرنا ہے۔ اپنے اداروں پر اپنی حکومت پر ڈھیروں اعتراض ہیں شکوے ہیں لیکن اس وقت نہیں۔ وہ یقینا اپنا کام کر رہے ہوں گے۔ ہم کیا کر رہے ہیں آپ کیا کر رہے ہیں۔ کیا آپ اپنی ڈیوٹی پر موجود ہیں۔ خوفزدہ ہو کر گھر تو نہیں بیٹھ گئے۔

یہ مشکل گھڑی ہے ۔ اس میں سیدھا سوچنا اور توازن برقرار رکھنا اہم ہے۔

پہلوان کوئی چن چڑھا کر رہنے پشاور آ گیا۔ میرے پاس رہا کرتا تھا۔ اپنے دشمنوں کے خلاف منصوبے بنایا کرتا تھا۔ ایسے ہی منصوبے بناتے ایک دن پیدل جاتے ہوئے اس کا پیر ایک کھڈے میں آ کر پلٹ گیا۔ اس کا گٹہ نکل گیا۔ اسے اٹھا کر ہم ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ پلستر لگا پہلوان کو اب چارپائی پر بیٹھے رہنا ہوتا تھا۔ اسے چین نہیں آتا تھا۔ وہ اپنے محلے کے ایک ہڈی جوڑ حکیم کو دن رات یاد کیا کرتا۔ کہا کرتا کہ میں اپنے گھر ہوتا تو دو منٹ میں میرا گٹہ سیٹ ہو جانا تھا۔

پہلوان کی ٹھنڈی آہیں روز سننی پڑتی تھیں۔ تو ایک دن تنگ آ کر اسے ہم نے کہا کہ اس حکیم کا پتہ دو، اسے بلا لاتے ہیں۔ پہلوان نے یہ سنا اور نعرہ لگایا کہ اوئے میں بیمار ہوں بے غیرت نہیں۔ بات نکلے گی کہ پہلوان ہڈی تڑوا کر بیٹھا ہے۔ میرا دشمن خوش ہو گا۔ میں اپنی حرکتوں سے اپنے دشمن کو خوشی دے دوں۔ یہ کدھر لکھا ہوا ہے۔

بات سمجھ نہیں آئی تھی ۔ بہت مدت بعد سہیل وڑائچ کو نواب اکبر بگٹی کا انٹرویو کرتے سنا۔ نواب سے جب سوال ہوا کہ آپ اتنے گارڈ کیوں رکھتے ہیں تو نواب کا جواب بہت دلچسپ تھا۔ اس لئیے رکھتا ہوں کہ میرے دشمن کو خوشی نہ ملے۔ یہ بات کبھی اتنی واضح نہ ہوتی اگر ہم انٹرویو کرنے ایک ملک صاحب کے پاس فاٹا نہ جاتے۔

ملک صاحب کا تقریبا سارا خاندان ہی مارا گیا تھا۔ ملک صاحب خود سفر میں تھے جب یہ سانحہ ہوا۔ ہم پہنچے تو ملک صاحب بہت نارمل ملے۔ ہم لوگ یہی سمجھے کہ ذہنی صدمہ پہنچا ہے۔ واقعے کی تفصیلات پوچھیں۔ جب واپس روانہ ہوںے لگے تو ان سے پوچھا کہ ملک صاحب اب آپ کیا کریں گے۔

ملک صاحب نے کہا کہ اب میں زندہ رہوں گا، ترقی کروں گا۔ ہم بھی اب آباد اور زندہ رہیں گے۔ یہ وقت نہیں ہے کہ ہم اپنی سرکار اپنے اداروں پر تنقید کریں ہم بس ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ یہ سب بھی کریں گے لیکن جب صورتحال نارمل ہو گی۔

لڑائی تو یہی ہے نہ کہ بندوق کے زور پر کوئی سوچ نافذ نہیں کی جا سکتی۔ کوئی موقف رکھنے پر، اس کا اظہار کرنے پر کسی کو مارا نہیں جا سکتا۔ ہم جو سوچتے ہیں وہی کہتے ہیں۔ کسی بھی خوف کے آگے جھکنے سے انکار کرتے ہیں۔ زندہ رہیں گے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments