سیکولر ازم کا بیانیہ اور پاکستان کا سماج


\"Yasser\"ممتاز کالم نگار اور دانشور جناب خورشید ندیم صاحب نے پچھلے دنوں اپنے ایک سیاسی تجزیے میں پیپلز پارٹی کو اس کا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے اسلامی سیکولر زم کا نعرہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ خورشید ندیم صاحب کا فرمانا ہے کہ جس طرح پیپلز پارٹی کے بانی قائد جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ستر کی دہائی کے مقبول نظریے سوشلزم کو اسلامی روایات سے ہم آہنگ کرکے اسلامی سوشل ازم بنا کر پیش کیا تھا اور پاکستان کے عوام کے لیے قابل قبول بنایا تھا ۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کو بھی چاہیے کہ آج کے مقبول بیانئے سیکولر ازم کو اسلامی سیکولرازم کے طور پر پیش کرے۔

اس سلسلے میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں:

1۔             سوشلزم اور سیکولرازم میں بنیادی فرق ہے۔ سوشلزم ایک معاشی نظریہ اور ایک مکمل فلسفہ ہے جب کہ سیکولرازم ریاست اور مذہب کے تعلق کا نام ہے۔ ستر کی دہائی میں عوام کی اس اکثریت نے سوشلزم کی حمایت کی تھی جو جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں ، سرمایہ داروں اور مذہبی قیادت کے گٹھ جوڑ سے زندگی کو ایک عذاب کی طرح جھیل رہے تھے ۔ سوشلزم کی عوام میں مقبولیت اور قبولیت کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ انسان کی بنیادی ضروریات کے باعزت حصول کے سادہ اور خوشنما نعر ے سے سجا تھا ۔ اگرچہ افسوس کہ عملی طور پر اس کا قیام ایک خواب ہی رہا۔

دوسری جانب سیکولرازم ہے جس کی تعریف تضادات سے بھرپور اور پیچیدہ و الجھی ہوئی ہے ۔

مختلف مکاتب فکر کی جانب سے سیکولراز م کی جو تعریفیں کی گئی ہیں ان میں قطبین کا فرق ہے ۔ ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم سیکولرازم کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں ” سیکولرزم کا مطلب مذہب کے معاملے میں اسٹیٹ کی غیرجانبداری ہے“۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ بھی فرمانا ہے کہ ” سیکولرازم اسلامی ریاست ہی کا ایک جز ہے۔ کیونکہ ایک سیکولر ریاست مذہبی  عقائد کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے، عبادات کے ضمن میں ہر شہری کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتی ہے ، اگر شہری اپنے اپنے مذہبی سول قوانین کے تحت زندگی بسر کرنا چاہیں تو انھیں سہولیات فراہم کرتی ہے۔ دیگر معاملات میں معاشرے کے مجموعی تحفظ اور فلاح و بہبود کی خاطر ایسے قوانین نافذ کرتی ہے جو سب کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں۔ شہریوں میں مذہبی بنا پر کسی قسم کا امتیاز روا نہیں رکھتی ، یعنی سب شہریوں کے اتحاد،مساوات اور آزادی کی ضامن ہوتی ہے۔ حقوق بشر کے تحفظ کا یقین دلاتی ہے اور قانون کی حاکمیت کی علمبردار ہوتی ہے۔ سیکولر معاشرے کی یہ تمام خصوصیات کسی طور پر بھی اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست سے متصادم نہیں“۔

اس کے برعکس دوسرا مکتبہ فکر ہے جس کا فکری زہر معاشرے کی اکثریت کی رگ رگ میں سرائیت کرچکا ہے وہ سیکولر ازم کو لادینیت اور ہرقسم کی اخلاقی اقدار سے عاری و مبرا نظام کے طورپر پیش کرتا ہے۔ سیکولرازم تو دور کی بات ہے،  اگر ان کے سامنے حقیقی اسلام بھی پیش کیا جاتا ہے تو وسائل کو اختیارات پر قابض طبقات اپنی اجارہ داری کے تحفظ کے لیے اس کے خلاف بھی جھوٹی روایات کا پہاڑ کھڑا کرکے سینہ تان لیتے ہیں۔ یہاں عوام کے ذہنوں کو اس طرح پراگندہ کردیا گیا ہے کہ وہ احمدیت، الحاد اور سیکو لرازم کو ایک ہی تصور کرتے ہیں ، ایسی صورت میں سیکولرازم پر اسلامی کیا اگر ”خالص اسلامی سیکولرازم“ بھی چسپاں کر کے عوام کے سامنے پیش کیا جائے تو مثبت نتائج کی امید رکھنا عبث ہے۔ کیونکہ سیکولرازم اور اس پر مستزاد اسلامی سیکولرازم کی اصطلاح، جس کے فرق کی وضاحت اور اس کا خلاصہ ہی پاکستان کے عوام کو سمجھانے کے لیے بھی :

                                                                آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کا معاملہ ہو گا اور ایسے میں سیکولرازم کے مبلغین اور شارحین ہی بے بس ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوں گے :

یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات

دے دل اور ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

2۔             پاکستان اور اس کے عوام کا بنیادی مسئلہ معاشی و سماجی نا انصافی ہے نہ کہ مذہب اور ریاست کا باہمی تعلق۔ یورپ نے سیکولرازم کا راستہ اختیار کیا تو اس کی وجہ وہاں کی مذہبی پیشوائیت کی بدعنوانیاں تھا۔ یورپ نے نہ صرف بدعنوان مذہبی پیشوائیت اور بادشاہت سے نجات حاصل کی بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی اور سماجیات و سیاسیات کے باب میں بھی انقلاب برپا کیا اور ایک مثالی معاشرہ قائم کیا۔ سیکولرزم ایک جدید صنعتی معاشرے کی ضرورت تو ہوسکتی ہے مگر پاکستان جہاں فکری پسماندگی، قبائلیت، جاگیرداریت اور وڈیرہ شاہی نے معاشرے کو شکنجے میں جکڑرکھا ہے وہاں سیکولرازم کا تصور بھی ابھی بہت دور کی بات ہے۔

ویسے بھی پاکستان جیسے ملک جس کی اکثریت ہی مسلم آبادی پر مشتمل ہو وہاں سیکولرازم کا نعر ہ بے معنی محسوس ہوتا ہے اور یہ اس طرح سے ضروری نہیں جس طرح بھارت میں، جہاں ہندو مذہب کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی ایک قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں۔ سیکولرازم بنیادی طور پر اس ریاست کی مجبوری ہے جہاں ہرمذہب کے ماننے والے بڑی تعداد میں موجود ہوں، جہاں کسی بھی مذہب کی سرکاری سرپرستی اس ریاست کے داخلی امن و سلامتی اور ترقی کے لیے تشویش کا باعث بن سکتی ہو۔

3۔             روایت پرست ہوں یا ترقی پسند، جدیدیت کا نعرہ لگانے والے ہوں یا رجعت پسند ، تھیا کریسی ہو یا لبرل ازم بقول بابا بلھے شاہ ” ہک نکتے وچ گل مک دی اے“ ( بحث ایک ہی نکتے پر منتج ہوتی ہے) اور وہ یہی ہے کہ صرف دو ہی طبقات ہیں ایک ظالم اور دوسرا مظلوم اس سے آگے کی صرف اصطلاحیں ہیں جیسا کہ اقبال نے کہا :

مسائلِ نظری میں الجھ گیا ہے خطیب

جس طرح یورپ میں سیکولرازم کا سبب مذہبی پیشوایت کی بدعنوانیاں تھیں ، پاکستان میں سیاستدانوں اور مذہبی پیشوائیت کی مالی اور نظریاتی بدعنوانیاں ہیں، یہاں عوام مذہب، وطن، زبان، فرقہ اور برادری کے نام پر استحصال کا شکار  ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ پاکستان کے مسائل کی بنیادی وجہ وسائل و ا ختیار پر قابض طبقات کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں، انھی طبقات نے عوام کو ہمیشہ ایک خوف اوراضطراب کی کیفیت سے دوچار رکھا ہے۔پاکستان کی ہرسیاسی جماعت اور ہر ہر ادارے میں اجارہ دار طبقے کے نمائیندے موجود ہیں۔

4۔             پاکستا ن میں اگر کوئی نظریہ یا بیانیہ پنپ سکتا ہے تو اس کی بنیاد اسی نعرے اور بیانئے پر ہوگی جو موجودہ استحصالی نظام کو نہ صرف رد کرے ، للکارے بلکہ نیست و نابود کردے۔ خدا نے چاہا تو اس کے لیے قوم سے ایسے حقیقی نوجوان اٹھیں گے جو فقط ماہ و سال کے پیمانے سے نہیں بلکہ فکری اعتبار سے بھی نوجوان اور ہر قسم کی جاہلیت اور عصبیت کا رد ہونگے جن کا واحد مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود اور اس وطن اور اس کے عوام کی خوشحالی و ترقی کے لیے کام کرنا ہوگا، اسی وطن کی مٹی کے لیے، جس کی محبت میں آشفتہ سروں نے وہ وہ قرض اتارے ہیں اور بدستور اتار رہے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے:

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویران سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments