‏کسان پر کیا بیت رہی ہے


دال روٹی کی فکر سے زیادہ کسان کی سوچ جاتی ہی نہیں ایک زرعی خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے زراعت کے شعبے میں مسائل کو دیکھ کر لگتا ہے یہی ہے کہ پاکستان میں جیسے بڑے بڑے ادارے پی آئی اے ہوگیا پاکستان سٹیل مل پاکستان پوسٹ اور ریلوے جیسے ادارے نقصان پر چل رہے ہیں اور شاید قرب المرگ ہیں۔ شاید اسی طرح زراعت کے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔

اپریل مئی کے مہینے میں دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی فصل گندم کی کٹائی کا وقت ہوتا ہے۔ مگر اس سال بھی پچھلے کئی سالوں کی طرح کسان پریشان ہیں پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں نے بیچارے غریب کسانوں کو بھی پریشان کیے ہوا ہے۔ بے موسمی بارشیں جن کی وجہ سے گندم کی فصل بری طرح متاثر ہوئی ہے اور آمدن میں تقریباً آدھی کمی آئی ہے اور گندم کی قیمت وہی پرانی مگر ہاں آٹے کی قیمت پر ہفتہ مل مالکان بڑھاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے نہ صرف اس سال کی فصل بلکہ اب ہر فصل چاہے فصل ربیع ہو یا فصل خریف سبزیوں کے باغات ہوں یا پھلوں کے سبھی ہی اس لپیٹ میں ہیں۔

ان کا نہ کوئی ازالہ کرنے والا اور نہ کوئی دکھ بانٹنے والا ایک ایسا دکھ جس کو پاکستان کی آبادی کا تقریباً پینسٹھ فیصد حصہ ہر روز جھیلتا ہے

ایک زرعی ملک میں زراعت کے ساتھ اس قدر بے راہ روی بہت فکر مندانہ ہے بہت سے کسان اس شعبے کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ہر سال کا نقصان برداشت کرنا بے بس کر دیتا ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کو جو ہر دیہات گاؤں میں محکمہ زراعت کے دفاتر اور ریسرچ سنٹر ہیں ان کو بروئے کار لانا ہوگا ان کی مدد سے کسانوں کو فصل کی بہتری کے لیے مشورے بیج کی فراہمی فصل کی کاشت کا وقت کھاد کی فراہمی اور دیگر سہولیات دینا ہوں گی وگرنہ اس سال گندم کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے یہ شاید مستقبل میں آٹے کے بحران کا سبب بنے۔

ملک پہلے سے بہت سے قرضوں کے بوجھ تلے ہے، اگر گندم بھی درآمد کرنا پڑی تو کیا ہوگا اور اگر اسی طرح چلتا رہا تو زراعت کا شعبہ ناپید ہو جائے گا۔ جیسے ایک طرف فصلوں کے نقصانات اور دوسری طرف لینڈ مافیا زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا بننا اور ساتھ کسانوں کا یوں مایوسی اور سرکار کی مسلسل خاموشی زراعت کے شعبے کو ختم کرنے کی راہ ہموار کر ر ہے ہیں۔ ایک زرعی ملک جسے کبھی دنیا کا غلہ گھر کہا جاتا تھا اب عدم دلچسپی سے شاید اپنے اس نام سے محروم ہونا شروع ہو گیا ہے۔

سائنسی ترقی نے نئے زراعت کے طریقے ایجاد کر لئے جس سے کم رقبے پر زیادہ فصل کاشت کرنا مگر ہمارے ہاں وہی فرسودہ نظام ہے اب ہمیں بھی سائنسی طریقے اپناتے ہوئے اپنے زراعت کہ شعبے کو بچانا ہوگا۔ کیونکہ جہاں دنیا میں تمام کاروبار میں مندی دیکھنے میں آئی وہیں زراعت اور ویٹرنری کے کاروبار سود مند دیکھے گئے ہیں اور مملکت پاکستان ان دو شعبوں میں ایک معمولی سی توجہ سے کروڑوں ڈالرز کما سکتا ہے۔

بس اس کے لیے کچھ اصلاحات کرنی ہوں گی نئی پالیسیز مرتب کرنا ہوں گی اور ان پر عملدرآمد کرنا ہوگا اور کچھ ہی عرصے میں اس کے ثمرات ملنا شروع ہو جائیں گے مگر شرط یہ ہے کہ پرانے فرسودہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد سائنسی اصولوں کو اپنا کر کام کرنا ہوگا

آزاد احمد چودھری
Latest posts by آزاد احمد چودھری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments