اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات۔۔۔ ایک تاریخی موقع؟


پاکستانیوں سے اگر پوچھا جائے کہ اس کے دشمن کون کون سے ہیں تو جو تین نام سامنے آئیں گے وہ انڈیا امریکہ اسرائیل ہوں گے۔ ناموں کی یہ فہرست مرتب کرنے کے لیے کون کون سے فیکٹرز اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں یہ ایک طویل لیکن الگ بحث ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کسی بھی تنازعہ میں براہ راست ملوث نہیں رہے۔ تاہم عربوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اہل فلسطین کی حمایت میں پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہمارے ہاں کی تاریخ اور روایتی لٹریچر نے اسرائیل کے لیے ایک ایسی فضا قائم کر دی ہے کہ ایسے لگتا ہے اگر فلسطینی اپنے حقوق سے دستبردار بھی ہو جائیں تب بھی پاکستانی عوام انہیں یہ حق دینے پہ تیار نہیں ہوں گے۔

سیاست میں کسی رائے یا موقف کو حرف آخر کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔ روز دنیا میں نئی تبدیلیاں آتی ہیں جن کے اثرات ممالک پہ نہ صرف براہ راست پڑتے بلکہ وہ اپنی پالیسیوں کو بھی ازسرنو منظم کرتے۔ آج کے حریف کل کے حلیف بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اور جنہیں آج آپ اپنا دوست کہہ رہے کل اسی سے آپ کا سامنا بطور دشمن بھی ہو سکتا۔ قیام پاکستان کے وقت چین اور بھارت کے درمیان مثالی تعقات تھے۔ چینی۔ ہندی بھائی بھائی اس دور کا سب سے زیادہ بولا جانے والا نعرہ تھا۔

لیکن وقت یکساں نہ رہا اور تبت کی جنگ کے بعد چین پاکستان کے تعلقات میں خوشگوار تبدیلیاں آئیں۔ حالانکہ ہم اسی چین کے خلاف اپنی فوجیں تک بھارت کو پیش کرنے کو تیار تھے۔ لیکن آج ہم بجا دعوی کر رہے ہیں کہ پاک۔ چین دوستی ہمالیہ سے بلند تر ہے۔ اسی طرح لادین کیمونسٹ روس کے خلاف ریاستی سطح پہ جنگ اسلامی جہاد کے طور پہ لڑی گئی جبکہ دو عشروں کے بعد لادین چین کے لیے ہم نے اپنی پلکیں تک بچھا دیں۔ اور انہیں خنجراب سے گوادر تک کے علاقے پہ دسترس دے دی۔

سابق ممتاز امریکہ سیکریٹری خارجہ ہینری کسنجر نے بجا کہا تھا کہ بین الاقوامی تعلقات قومی مفادات کے تحفظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ہم اپنی تاریخ میں امریکہ اور یورپ سے مثالی تعلقات کے خواہاں رہے ہیں۔ بعض ادوار میں ہمارے تعلقات ان ممالک سے مثالی رہے بھی ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ ممالک اسرائیل کی تخلیق کے مرکزی کردار تھے۔ اس امر کے لیے ہم نے کبھی ان ممالک سے اپنے تعلقات کی نوعیت کو ازسر نو منظم کرنے پہ کبھی غور نہیں کیا۔

یہ بات فلسطین کے مسئلے پہ ہماری سنجیدگی کو ظاہرکرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان نے سرد جنگ کے دور میں روس کے خلاف اور نائن۔ الیون کے بعد طالبان کے خلاف امریکی جنگ تنہا لڑی ہے۔ اس دوران امریکی نوازشات کی بارش بھی ہوئی لیکن ہم نے کبھی اپنا وزن اسرائیل مخالف پلڑے میں ڈال کر امریکہ سے فلسطینیوں کے لیے حقوق کی بات نہیں کی۔

اب متحدہ عرب امارات نے مصر اور ترکی کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس عمل کا مسلم دنیا میں کافی شدید ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ ایرانی حکومت نے اس کے تانے بانے اسی سال ہونے والے امریکی الیکشن سے جوڑے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ترکی کے اسرائیل کے ساتھ باہمی تعلقات ہیں اردگان انتظامیہ نے عرب امارات کے اس عمل کو مسلم امہ کے ساتھ غداری سے تعبیر کیا ہے۔ البتہ پاکستان میں پہلے جیسا سخت موقف سامنے نہیں آسکا۔

اب کی بار نیوز چینلز پہ اس مسئلہ پہ کھلی بحث کی اجازت دی گئی ہے۔ جو کہ اس مسئلہ پہ نا صرف عوامی رد عمل کو جانچ رہی ہے بلکہ کسی حد تک رائے عامہ استوار بھی کی جا رہی ہے۔ مذہبی حلقے عرب دنیا سے قربت کے باعث مخمصے کا شکار ہیں۔ پرنس محمد بن سلیمان بذات خود اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اس لیے مذہبی حلقوں میں امارات کے اس عمل کی مخالفت میں وہ پہلے جیسی شدت نظر نہیں آئی۔

پاکستان میں اسرائیل مخالف حلقوں کے پاس اسرائیل کی مخالفت کے لیے کوئی نئی دلیل نہیں ہے۔ وہ لوگ جو قرآن کی اس دلیل کو جواز بنا کر اپنا مقدمہ کھڑا کرنے کی کوشش کرتے کہ یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ ان کے اپنے رویے میں دوغلے پن کی کثرت دیکھنے کو ملتی ہے۔ کیونکہ انہوں نے کبھی عیسائی اکثریتی ممالک سے تعلقات قائم ہونے پہ اتنا واویلہ نہیں کیا۔ اسرائیل مخالف حلقوں کی طرف سے نہ ہی عیسائی ممالک سے تعلقات پہ کوئی ردعمل سامنے آتا نہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے مسلمان ملکوں کے بارے ان کی پالیسی واضح ہے۔

اسرائیل کی مخالفت کی دوسری وجہ فلسطینیوں کی سرزمین پہ ناجائز قبضہ اور فلسطینیوں کا ناحق خون بہانا بھی ہے۔ یہ عمل اگرچہ واقعتاً قابل مذمت ہے لیکن ہماری خارجہ پالیسی اس عمل کو اصول کے طور پہ نافذ نہیں کیا جا سکا۔ کیونکہ یمن کی خانہ جنگی میں سعودی عرب کا ہاتھ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں یمنی لوگوں کا خون ناحق بہا، لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے بے گھرہوئے اور انفراسٹرکچر مکمل طور پہ تباہ گیا امریکہ بہادر نے افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔

انڈیا بھر میں مسلمانوں کے حالات بالعموم اور کشمیرمیں بالخصوص انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ ان سب کے باوجود سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات مثالی ہیں۔ امریکہ سے تعلقات کی بہتری کی خاطر ہم خود افغانستان میں شریک جرم تک رہے ہیں۔ انڈیا کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کے باوجود کبھی بھی تعلقات ختم نہیں ہوئے۔ ایسی صورت حال میں اسرائیل سے تعلقات محض مسلمانوں کے خون اور ان کی زمین پہ ناجائز قبضہ کی خاطر استوار نہ کرنا منافقت کی کلاسیکل مثال ہے۔

بیسویں صدی نے بارڈر کا تصور دے کر دنیا کو جنگلوں میں بند کیا تو اب دنیا ایک مرتبہ پھر ملکوں کی بجائے خطوں کی ترقی پہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ ایسی صورتحال میں دنیا میں آنے والی تبدیلیاں ہر ملک پہ اثر انداز ہوں گی۔ پاکستان کو بھی نئی صورتحال کو باریک بینی سے دیکھنا ہو گا۔ اگر عربوں میں فلسطین کے مسئلہ پہ پہلے جیسے موقف میں تبدیلی کے برعکس اثار محسوس ہو رہے ہیں تو پاکستان کو مسلم دنیا میں اتفاق رائے سے کوئی متفقہ لائحہ عمل کے متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں او۔ آئی۔ سی یا عرب لیگ کے لیول پہ فیصلہ کیا جانا چاہیے تاکہ وہ ممالک جنھوں نے اسرائیل کی مخالفت عرب ممالک سے اظہار یکجہتی کے لیے کی تھی وہ مستقبل میں ماضی کی خارجہ پالیسی کے باعث کسی نقصان سے دوچار نہ ہوں۔

بیسویں صدی نے دو عظیم جنگوں سمیت سو سے زائد جنگوں کو دیکھا ہے۔ انسانی تاریخ کی سب سے خونریز صدی تھی۔ اس تناظر میں دنیا اپنی تاریخ کے پر امن ترین دور سے گزر رہی ہے۔ کیونکہ اس وقت کوئی سے دو ممالک بھی آپس میں حالت جنگ میں نہیں ہیں۔ جہاں بھی جنگیں ہو رہی ہیں وہ خانہ جنگی کی مثالیں جن کے محرکات علیحدہ ہیں۔ گلوبلائزیشن اور ایک دوسرے پہ انحصار (INTERDEPENDENCE) کے باعث دنیا نے اس فیز کو حاصل کیا ہے۔ باہمی انحصار نے باغی ریاستوں کو مہذب بنانے اور دنیا سے تعاون پہ مجبور کیا ہے۔ باہمی انحصار کے عمل کو مغربی ممالک میں آنے والے ٹیکنالوجی کے انقلاب، مشرق وسطی سے نکلنے والے تیل اور ترقی پذیر مگر آبادی کے اعتبار سے بڑے ممالک نے تیز بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

کشمیر اور فلسطین کے مسائل پون صدی پرانے ہیں۔ انہیں حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ آئل کی دریافت کے بعد عرب ممالک کی اہمیت میں اضافہ ہونے سے دنیا فلسطین کے مسئلہ پہ کافی سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ فلسطین میں دو ریاستوں کا قیام مسئلہ کا ایک مناسب حل ہے۔ اگرچہ اسرائیلی وزیر اعظم اس امکان کو کئی بار رد کر چکے ہیں لیکن ایک ریاست کی صورت میں اسرائیل اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ کیونکہ اسرائیلی علاقوں میں مسلمانوں کی افزائش یہودیوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔

1967 میں مسلمان اسرائیل کی آبادی کا 14 فیصد تھے جو کہ اب 22 فیصد ہو چکے ہیں۔ ایک کروڑ کی کل یہودی آبادی میں سے ساٹھ لاکھ محض اسرائیل میں آباد ہیں۔ 50 لاکھ ریفیوجی کیمپس میں مقیم مسلمانوں کی واپسی سے آبادی کا تناسب یکساں تبدیل ہو جائے گا۔ لیکن عربوں میں باہمی اتحاد کی کمی اور مغربی ممالک پہ بے پناہ انحصار کی وجہ سے اس پہ کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی پے در پے شکستوں کے باعث عرب ممالک اسرائیل کا میدان جنگ میں مقابلہ کرنے کی حکمت عملی ترک کر چکے ہیں۔

اب عربوں میں اسرائیل سے تجارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہش شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں اسرائیل کی نسبت عرب ممالک کے لیے زیادہ خطرہ ہیں۔ اس لئے اسرائیل کے ساتھ معاہد ہ کرنا ان کے مفاد میں ہے۔ اس وقت خلیجی ممالک سعودی عرب، اردن، مصر وغیرہ سبھی مسئلہ فلسطین کا حل چاہتے ہیں، کیونکہ فلسطین کے نام پر ہی دہشت گرد تنظیمیں مسلم نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں اور تشدد کو جواز فراہم کراتی ہیں۔ عربوں میں اسرائیل کے حوالے سے یہ سوچ ایک مثبت تبدیلی ہے۔ اس سے فلسطینیوں کی زندگی پہ جاری جمود کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ عرب ممالک کے ساتھ تجارت کے دوران عربوں پہ بڑھنے والا انحصار اسرائیل کے جارحانہ رویہ میں کمی لائے گا۔

پاکستان کے اسرائیل سے تعلقات کی نوعیت کا انحصار عربوں خصوصاً سعودی عرب کی خواہشات پہ ہے۔ عرب ممالک تنازع کا براہ راست حصہ ہونے کے باعث اسرائیل سے فلسطین کے مسئلہ پہ بات چیت کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان بطور غیر جانبدار ملک کے دونوں فریقین کے مابین اختلافات کی خلیج کو کمی کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن ہم نے اپنے عربوں کے ساتھ جڑے جز وقتی معاشی مفادات کو ترجیح دی اور اس کاز کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔

اب عربوں میں تقسیم بہت واضح ہو چکی ہے۔ ہر ملک اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے جا رہا ہے۔ ہمیں بھی دوبارہ سے تجزیہ کرنا ہو گا کہ ہم نے 70 سال سے اسرائیل کو تسلیم نہ کر کے کیا حاصل کیا ہے؟ اور اگر ہم تسلیم کر لیتے تو ہمیں کیا کیا نقصان ہو سکتے تھے؟ ہم کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے پہلے دن سے بات چیت پہ زور دے رہے ہیں اور اس ضمن میں کئی معاہدات بھی ہوئے۔ لیکن بات چیت کے اس اصول کو فلسطین کے مسئلہ پہ لاگو کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس سے ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ ہم فلسطین کے مسئلے سے اس حد تک سنجیدہ ہیں کہ اس پہ بات چیت کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔

اسرائیل سے تعلقات بہتر ہونے سے مشرقی بارڈر پہ انڈیا اسرائیل کے اشتراک سے جاری جارحیت میں بھی کمی آئے گی۔ پاکستان کو خارجہ پالیسی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے سٹائل پہ تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ مودی کی خارجہ پالیسی نے سعودی عرب اور ایران جیسے پاکستان کے دوست ممالک سے تعلقات قائم کرکے سفارتی تنہائی کا شکار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ لائن آف ایکچول کنٹرول پہ ٹینشن سے قبل چائنا اور انڈیا کے مابین تجارتی حجم تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہا تھا۔ پاکستان کو بھی انڈیا کے دوست ممالک سے تعلقات قائم کر کے سفارتی محاذ پہ اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہیے۔ انڈیا اسرائیل تعلقات ناصرف دیرینہ ہیں بلکہ انتہائی پائیدار بھی ہیں جس کی ایک وجہ پاکستان کے اسرائیل سے تعلقات کا نہ ہونا ہے۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا ایک مرتبہ پھر دو پولز میں تقسیم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ چائنا کا ون بیلٹ۔ ون روڈ منصوبہ مغربی ممالک امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا چکا ہے۔ امریکہ اس عالمی شطرنج پہ اپنے مہروں کو واضح پوزیشن پہ بیٹھا چکا ہے۔ حالیہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات میں سرد مہری کا پس منظر بھی یہی ہے۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں استحکام پیدا کرنا پڑے گا۔ اگر پاکستان نے سرد جنگ کے پیٹرن پہ اس تجارتی محاذ آرائی میں کردار ادا کیا تو انتہائی بھیانک نتائج برامد ہوں گے۔

پاکستان کے عرب دنیا سے جڑے مالی مفادات کو بھی شدید ٹھیس پہنچے گی۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ساتھ یہ ہی المیہ ہے کہ یہ دو مخالف ممالکے مابین ایک وقت میں تعلق رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ ہم نے روس سے تعلقات کی قیمت پہ مغربی ممالک سے تعلقات قائم کیے۔ جو ہماری تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ حتی کہ ایران۔ سعودی عرب تنازعہ میں بھی توازن قائم رکھنے میں ناکام رہے۔ اور ہم نے اپنا وزن ایرانی مخالفت میں سعودی عرب کے پلڑے میں ڈال دیا۔

اس سفارتی ناکامی نے انڈیا کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ ایران سے قرابت داری قائم کر سکے۔ پھر آہستہ آہستہ سعودی عرب بھی انڈیا کی گود میں جا بیٹھا۔ انڈیا نے جس مہارت کے ساتھ امریکہ اور روس کو ایک ساتھ مینج کیا تھا اسی مہارت کے ساتھ اب ایران اور سعودی عرب کو بھی ڈیل کر لیا ہے۔ چین اور امریکہ اب تجارتی جنگ کا طبل بجا چکے ہیں اور ہم ایک مرتبہ پھر اپنا سفارتی توازن بھی کھو رہے ہیں۔

خارجہ پالیسی کو قابل، ہنر مند اور منجھے ہوئے افراد کے ہاتھوں میں دیا جائے۔ عرب ممالک میں کام کرنے والے لاکھوں پاکستانی زر مبادلہ کا بڑا حصہ پاکستان بھیجتے۔ اس لیے ہونے والی ذرا سی چوک پاکستان کو بے روزگاری کے صحرا میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اسرائیل کے مسئلہ پہ جذبات کی بجائے حقائق پسندی کا ثبوت دینا چاہیے۔ اسرائیل اب ایک حقیقت ہے جس وقت اسے شکست سے دوچار کیا جا سکتا تھا تب ایسا ممکن نہیں ہو سکا اب تو عرب خود اس کا ادراک رکھتے ہیں کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں اس لیے بائیکاٹ ترک کرنے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ ہمیں عربوں کی پیروی میں اسرائیل کو تسلیم کر کے خود کو بے وقعت کرنے کی بجائے لیڈنگ پوزیشن میں آ کر عرب اسرائیل تعلقات میں توازن پیدا کر کے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ع


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).