تحریک انصاف کو ووٹ کیوں دیں؟


ملک میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کب کا ہو چکا۔ بڑی حد تک لوگوں کو امکان نظر آ رہا ہے کہ یہ معرکہ جولائی کی پچیس تاریخ کو لڑا جائے گا۔ اس تاریخ کے اعلان کے بعد نئے کاغذات نامزدگی کو لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دینے کی وجہ سے شکوک و شبہات نے سر ابھارا تھا کہ خبر نہیں آنے والے دنوں میں حالات کس کروٹ بیٹھیں؟ سپریم کورٹ نے مگر دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اس فیصلے کو معطل کر دیا۔ اب امیدوار الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کے تحت ترتیب دیے گئے کاغذات نامزدگی ہی جمع کروائیں گے لیکن اس کے ساتھ چند بنیادی معلومات جن کا کالم نئے فارم سے نکالا گیا تھا اس کے بارے میں ایک حلف نامہ جمع کروانے کے پابند ہوں گے۔ اس کے ساتھ سپریم کورٹ نے خبردار کیا ہے کہ معلومات کی فراہمی میں کسی بھی گڑبڑ کی سزا میں توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کے اثاثہ جات کی تفصیل اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ سابقہ اراکین پارلیمنٹ کو اس پر سخت اعتراضات تھے جس کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل بر محل ہے کیونکہ اس وقت کسی بات کو بنیاد بنا کر انتخابی شیڈول آگے پیچھے کرنے کی کوشش کی گئی تو ایسی بہت سی قوتوں کی امید بر آئے گی جو پہلے ہی کسی بہانے الیکشن کو التوا میں ڈالنا چاہتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری تھا کہ عوامی مستقبل جن کے ہاتھ میں سونپا جا رہا ہے ان کی ملک سے وفاداری غیر تقسیم شدہ ہو، اور وہ اخلاقی اور سماجی برائیوں سے بھی پاک ہوں۔ اس کو یقینی بنانے اور الیکشن مقرر وقت پر منعقد کرانے کے لئے لہذا اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جو سپریم کورٹ نے تجویز کیا ہے۔

افسوس سے مگر کہنا پڑتا ہے کہ شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے مگر، اس ضمن میں اس کے حالیہ چند اقدامات مایوس کن ہیں۔ مثلا پنجاب میں اکثریت رکھنے والی جماعت کے واضح اعتراضات کے باوجود نگراں وزیراعلی کے منصب پر جس شخصیت کا تقرر کیا ہے اس کی غیر جانبداری پر ابھی سے تحفظات سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں، اور یہ بڑی حد تک جائز بھی ہیں کیونکہ مذکورہ شخصیت ایک زمانے سے مسلم لیگ ن کی سخت مخالف تصور کی جاتی رہی ہے۔ لہذا اگر مسلم لیگ کو آئندہ انتخاب میں پنجاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پچھلے چند سالوں میں جو نظیر قائم کی گئی ہے اسے مد نظر رکھتے کس طرح امید کی جا سکتی ہے یہ الیکشن متنازعہ نہیں ہو گا۔

امیدواروں کے مالی گوشواروں کو عوام سے مخفی رکھنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بارے میں بھی تمام سنجیدہ تجزیہ نگار تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر شہری کو اپنے حکمران سے سوال کا حق حاصل ہے کہ اس کے پاس موجود لباس کن ذرائع سے بنا۔ بطور ایک شہری اور ووٹر جب مجھے یہ علم نہیں ہوگا کہ میرے ووٹ سے ایوان میں پہنچنے والے کی ملکیت پہلے کتنی تھی تو پھر، میں یہ سوال کس طرح کر سکوں گا؟ مجھے کیسے تسلی ہو گی کہ میرا حکمراں جس بیش قیمت سوٹ کو پہن کر مہنگی گاڑیوں میں اتراتا ہے یا پھر جن محلات اور چارٹرڈ طیاروں میں بیٹھ کر میری محرومیوں کے سینے پر مونگ دلتا ہے یہ دولت میرے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہوئے وسائل لوٹ کر نہیں بنائی گئی۔ پچھلے چند سالوں سے تمام ریاستی ادارے کرپشن کے خلاف جنگ کا تہیہ کیے ہوئے ہیں مگر میری نظر میں الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ ایک لحاظ سے خود کرپشن کو بنیاد فراہم کرنے کے مترادف ہے۔

اس باب میں تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو امیدوار نامزد کریں جو شرافت، لیاقت، صداقت، امانت اور دیانت کے اصولوں پر پورا اترتے ہوں۔ ملکی سیاسی نظام کی بے توقیری کی ایک وجہ اس کے کرداروں کی یکسانیت بھی ہے۔ پچھلے ستر سالوں سے مسلسل منظر نامے پر ایسے افراد چھائے ہیں جو ایک کے بعد ایک کر کے باریاں لیتے اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرتے رہے۔ گذشتہ تمام انتخابات میں ٹرن آؤٹ کم ترین رہنے کی وجہ بھی یہ ہے کہ عوام جانتے ہیں ان کے ووٹ سے نظام میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں۔ اسی بے اعتمادی سے کچھ عرصہ بعد مایوسی پھوٹتی ہے اور یہی مایوسی جب تشدد پر متنج ہوتی ہے تو پھر غیر جمہوری اقدامات کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس وقت بھی تمام سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار فائنل کرنے کے لئے سوچ بچار میں مصروف ہیں اور غالب امکان ہے کہ اس بار بھی اکثر جماعتوں کے امیدوار کرپشن، منی لانڈرنگ، دہری شہریت اور دیگر اخلاقی نوعیت کے سنگین الزامات سے داغدار ہوں گے۔

کچھ لوگوں کو اس ضمن میں تحریک انصاف سے امید تھی کہ شاید وہ نیک شہرت کے حامل نوجوان چہروں کا انتخاب کرے گی۔ دو ہزار گیارہ کے بعد یہ جماعت مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچی کیونکہ یہ سیاست کے رائج اصولوں کے برعکس تبدیلی کا نعرہ لے کر اٹھی تھی۔ اس کے فالووز کا خیال تھا کہ وہ لوگ ”اسٹیٹس کو“ کے خلاف جہاد میں ہم سفر ہیں۔ پچھلے انتخابات میں اس جماعت کے پلیٹ فارم سے کچھ نئے چہرے بھی سامنے آئے، مگر اس مرتبہ اس جماعت نے بھی نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کر کے پورے ملک سے مسترد ہوئے سیاسی کچرے کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ “اسٹیٹس کو“ اور موروثی سیاست کی اس سے بڑی کیا مثال ہوگی کہ اندرون سندھ کے ایک جاگیردار گھرانے کو اس جماعت نے چھ ٹکٹ جاری کیے ہیں۔

لوگ پھر یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر اس جماعت کے پاس کیا امتیاز ہے کہ دوسری جماعتوں پر اسے ترجیح دی جائے؟ پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان جنہیں اب تک خود ٹکٹ نہیں ملا ان سے جب یہ سوال ہوا تو وہ فرماتے ہیں ہمارا امتیاز عمران خان ہے جس دامن پر مالی کرپشن کا کوئی داغ نہیں اور الیکٹیبلز کا ساتھ ہماری مجبوری ہے کیونکہ ہم نے انہیں ہر حال میں وزیراعظم بنانا ہے۔ ان کی خواہش کا احترام اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ عمران خان آج تک کس عہدے پر رہے جہاں ہوتے ہوئے انہوں نے اپنا دامن اس برائی سے پاک رکھا۔

کچھ دنوں سے ان کی سابق اہلیہ کی لکھی ہوئی کتاب کے چرچے  ہو رہے ہیں اور بتایا جا رہا کہ اس کتاب میں چیئرمین تحریک انصاف پر سنگین نوعیت کی اخلاقی کرپشن کے الزام درج ہیں جنہیں عمران خان نے کبھی مسترد بھی نہیں کیا۔ عمران خان کے ہی بتائے قوائد کے مطابق اپنی ذات کو کلیئر کرنا خود ان کی ذمہ داری ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اخلاقی کرپشن مالی کرپشن سے کہیں زیادہ سنگین جرم ہے لہذا جب تک وہ یہ نہیں کرتے انہیں اقتدار سونپنا ایک ”اسلامی جمہوری ریاست“ کے کس طرح شایان شان ہوگا؟ ووٹ ایک مقدس امانت ہے اور روز قیامت حکومت کرنے والے شخص کے اعمال میں ووٹر بھی شریک گردانا جائے گا لہذا عوام کو میری تجویز ہوگی کہ اپنے ووٹ کا کسی وقتی جوش سے بالاتر ہو کر بہت سوچ سمجھ کر ایمانداری سے استعمال کریں تا کہ ان کے دنیاوی اور اخروی دونوں مستقبل رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).