کوک کے بدلے سٹرانگ لوگوں کے اشاروں پر ناچنے والے ٹول


ایک نہایت سینئر اداکار نے جو اپنے زمانہ عروج میں مردانہ رومانی کشش کا سمبل سمجھے جاتے تھے اور بے شمار لڑکیوں کے دل انہیں دیکھ کر ڈھول کی طرح دھڑکنے لگتے تھے، انکشاف کیا ہے کہ ان کے سکول کالج کے دنوں میں کوک کی وجہ سے فحاشی اور بے حیائی پھیلتی تھی۔ جو بندہ بے حیائی پھیلانے لیے بطور ٹول یعنی آلہ کار استعمال ہوتا تھا اس کا کوئی بھلا سا نام بھی بتایا تھا لیکن برا ہو اس کم بخت یادداشت کا، اس ٹول کا نام میں بھول گیا ہوں۔ آسانی کے لیے انہیں ٹول صاحب کہہ لیتے ہیں۔

تو بات چیت کرتے ہوئے ان سینئیر اداکار نے بتایا کہ ٹول صاحب نے انہیں کالج میں اس لیے آٹو میٹکلی اپنا بھائی بنایا ہوا تھا کیونکہ وہ کالج میں بڑے سٹرانگ لوگ تھے۔ ٹول صاحب نے ان کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ وہ وہاں ان کی گیندیں اٹھاتے تھے، اور پانچ آنے کی کوک اور سینڈوچ کے بدلے ان کے لو لیٹر جا کر بتائی گئی لڑکی کو دے آتے تھے۔

بات یہ ہے کہ ٹول تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ ایک پانا پلاس پیچ کس ناکارہ ہو جائے تو اس کی جگہ دوسرا آ جاتا ہے۔ وہ کالج سے نکل گئے مگر آج بھی اس کالج میں کوئی ٹول صاحب سٹرانگ لوگوں کو آٹومیٹکلی بھائی بنا کر ان کی گیندیں اٹھا رہے ہوں گے اور کوک کی بوتل کے بدلے لڑکیوں کو لو لیٹر دے رہے ہوں گے۔ اور کالج سے نکلنے والے ٹول صاحب بھی جہاں گئے ہوں گے وہاں بھی وہ کوک کے بدلے یوں ہی محبت نامے پہنچانے کی خدمات سرانجام دے رہے ہوں گے۔ بندہ ایک مرتبہ سٹرانگ لوگوں کی خوشنودی کے لیے قربانیاں دینے، ان کی گیندیں اٹھانے اور ان خدمات کے بدلے کوک پانے کا عادی ہو جائے تو بھلا یہ عادت بھی کبھی چھوٹتی ہے؟

ٹول صاحب کا بھی قصور نہیں، جب تحریص زیادہ ہو تو بندہ بشر بہک ہی جاتا ہے۔ اصل خرابی کی جڑ تو کوک ہے۔ کوک کی وجہ سے الٹے سیدھے رومان پروان چڑھتے ہیں۔ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں کوک کی وجہ سے۔ لڑکے یوں ہی کوک دے کر عصمت، عفت، عظمیٰ، عالیہ جیسے پاکیزہ ناموں والی البیلی سی بھولی بھالی لڑکیوں کو محبت نامے بھیجتے ہیں۔ دس لڑکیاں عفت کی پتلیاں ہوں گی تو دو چار بہک بھی جاتی ہوں گی۔ پیاموں کا تبادلہ ہوتا ہو گا۔ ڈیٹنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہو گا۔ وہ سب کچھ کر لیتی ہوں گی جو نہیں کرنا چاہیے۔ وہ بھی اس کچی عمر میں جب برے کام کی پہچان نہیں ہوتی، بلکہ چڑھتی جوانی کے خمار میں مبتلا ٹین ایجر اس پر نادم ہونے کی بجائے الٹا لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یعنی وہ ہر کام ہوتا ہے جس کی قانون اور اور ہماری مشرقی اخلاقی قدریں مخالفت کرتے ہیں۔

ہمیں ”چن تے سورما“ نامی ایک فلم کا نغمہ دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا ہے جس میں ایک نہایت بھولی بھالی، نازک اندام سی گل بدن لڑکی کوک کی اس حد تک عادی ہو گئی ہے کہ وہ ناچ ناچ کر سٹرانگ لوگوں کی منتیں کر رہی ہے کہ ظالم مجھے کوک پلا دے۔ سٹرانگ لوگ بھی اسے کوک دکھا دکھا کر پرچا رہے ہیں، اپنی انگلیوں پر اسے نچا رہے ہیں، لیکن کوک کو دور دور سے ہی دکھا رہے ہیں۔ خدا جانے کیسا نشہ ہے اس شے میں کہ اس کی آس پر ہی حسینائیں اور ٹول صاحب یوں لٹو ہو کر سٹرانگ لوگوں کے اشاروں پر ناچنے لگتے ہیں۔

کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں ٹین ایجر ڈیٹنگ کریں اور بڑے ہو کر سٹرانگ لوگوں سے کوک لے کر غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام کریں؟ اس سب سلسلے کو روکنا ہے، بے حیائی اور فحاشی کا خاتمہ کرنا ہے، تو کوک پر پابندی لگانی چاہیے تاکہ بے حیائی کا سدباب ہو۔ ورنہ شاخ نازک پر بننے والا آشیاں ناپائیدار ہو گا اور یہ تہذیب خود اپنی کوک سے خودکشی کر لے گی۔

سنا ہے کہ کوک کی وجہ سے سکول کالج کے علاوہ بڑی سطح پر بھی گڑبڑ ہو رہی ہے۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ جب ٹین ایج میں ایسی عادت پڑ جائے تو بندہ چاہے جس مقام پر بھی پہنچ جائے، سٹرانگ لوگ اسے کوک دے کر اپنے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کر لیتے ہیں اور وہ زندگی بھر سٹرانگ لوگوں کی گیندیں اٹھانے اور ان کے نامہ و پیام پہنچانے اور دیگر خدمات کی انجام دہی پر ہی لگا رہتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments