افغان سرحد پر باڑ لگنے سے دہشت گردی 80 فی صد کم ہوئی: پاکستانی فوج کا دعویٰ


پاکستان نے 2017 میں افغان سرحد پر باڑ لگانے کا عمل شروع کیا تھا۔
اسلام آباد — پاکستان کے سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ 2600 کلو میٹر طویل سرحد کے 90 فی صد حصے پر باڑ لگانے کا کام مکمل کر لیا گیا ہے جب کہ باقی ماندہ کام بھی رواں برس کے اختتام تک مکمل کر لیا جائے گا۔

فوجی حکام کا دعویٰ ہے کہ باڑ لگانے سے دہشت گردی کے واقعات 80 فی صد تک کم ہوئے ہیں۔

پاکستان فوج کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان میں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طالبان اور افغان فوج کے درمیان ہرات، قندھار اور ہلمند کے کنٹرول کے لیے شدید لڑائی جاری ہے۔

منگل کو پاک افغان سرحد طورخم پر صحافیوں کے ایک وفد کو بریفنگ دیتے ہوئے پاکستانی فوج کے کمانڈنٹ کرنل فرید کیانی نے پاکستان سے افغانستان میں دہشت گردی کے الزامات کی سختی سے تردید کی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے اب تک 843 قلعہ نما چوکیاں قائم کی گئی ہیں تاکہ مشکوک افراد پر نظر رکھی جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ باڑ لگانے سے قبل پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقے دہشت گردی کی زد میں تھے تاہم اب یہاں مکمل امن قائم ہو چکا ہے۔ اب فرنٹیئر کور کے ساتھ ساتھ ریگولر آرمی بھی بارڈر پر تعینات کر دی گئی ہے۔

پاک افغان طورخم کراسنگ کو سینٹرل ایشیا کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس کراسنگ پر دونوں ممالک کے درمیان 65 فی صد تجارت ہوتی ہے جب کہ باقی ماندہ تجارت چمن، انگور اڈہ اور خرلاچی کے ذریعے ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ طورخم سرحد پر کرونا وبا سے قبل یومیہ 20 ہزار افراد سرحد کراس کرتے تھے۔ تاہم اب یہ تعداد بہت کم ہو چکی ہے۔

کرنل فرید کا کہنا تھا کہ ڈیلٹا ویریئنٹ کے پھیلاؤ کو روکنے کی وجہ آمدورفت بہت محدود کر دی گئی ہے اور روزانہ کی بنیادوں پر دونوں اطراف سے آنے جانے والوں کی تعداد اب تقریباً ایک ہزار کے قریب ہے۔

حکام کے مطابق باڑ لگانے کے عمل کے بعد منشیات اور دیگر اشیا کی سمگلنگ اور منی لانڈرنگ روکنے میں بھی مدد ملی ہے۔

کرنل فرید کیانی کے مطابق پاکستان افغانستان سے سبزیاں، پھل، کپاس اور خشک میوہ جات درآمد جب کہ سیمنٹ، خوردنی تیل، مکئی، چاول، تھریشر اور ٹریکٹر برآمد کرتا ہے۔

پاکستانی فوجی حکام کا کہنا تھا کہ ابھی تک افغان بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں کسی بھی مہاجر کیمپ کی تعمیر نہیں کی گئی ہے اور اس لحاظ سے حکومت کی حکمتِ عملی بالکل واضح ہے کہ وہ مزید افغان مہاجرین کا بوجھ اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

کرنل فرید کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی سرحد سے متصل ننگرہار میں حالات ٹھیک ہیں اور وہاں لڑائی کی اطلاعات نہیں ہیں۔

پاک فوج کے مطابق ڈیورنڈ لائن کی اصطلاح مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور جہاں باڑ لگائی گئی ہے وہ ایک انٹرنیشنل بارڈر ہے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر سید حامد افضل اورکزئی کا کہنا تھا کہ باڑ کا مقصد دہشت گردی کی روک تھام ہے۔

افغانستان کے موجودہ حالات کے پس منظر میں انہوں نے بتایا کہ اگر یہ باڑ نہ لگی ہوتی تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ بغیر کسی روک ٹوک کے پاکستان میں داخل ہو رہے ہوتے۔

یاد رہے کہ پاکستان نے افغانستان سے متصل سرحد پر باڑ لگانے کا کام 2017 میں شروع کیا تھا۔ پاک فوج کے مطابق سرحد سے ملحقہ زیادہ تر علاقہ دشوار گزار ہے اور بعض مقامات سطح سمندر سے دس ہزار فٹ کی اونچائی پر ہیں جہاں آکسیجن کی مقدار 20 سے 30 فی صد ہوتی ہے۔

پاک افغان سرحد پر باڑ سے شہریوں کی مشکلات

طارق آفریدی کا تعلق ضلع خیبر کے علاقے لنڈی کوتل سے ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ باڑ سے قبل انہیں کافی آسانی تھی۔ انہیں افغانستان جانے میں کوئی دشواری نہیں تھی۔

ان کے مطابق ان کے خاندان کے کئی افراد سرحد پار رہتے ہیں اور باڑ لگنے سے قبل وہ با آسانی آتے جاتے تھے۔

طارق آفریدی کا کہنا ہے کہ اب کسی نہ کسی وجہ سے بارڈر بند ہو جاتا ہے جب کہ پاسپورٹ اور ویزہ کی شرائط بھی سخت کر دی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عید کے دنوں میں صوبہ ننگر ہار سے سستے نرخوں میں جانور مل جاتے تھے تاہم اب یہ سہولت بھی بند ہے جب کہ روزگار کے مواقع بھی کم ہو گئے ہیں۔

یاد رہے کہ سرحد کے دونوں اطراف کے قبائل کی آپس میں صدیوں پرانی رشتہ داریاں ہیں اور وہ اس آہنی باڑ کو ایک دوسرے سے آزادانہ ملنے میں ایک رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔

دوسری جانب پاک فوج کا کہنا ہے کہ خار دار تار کا مقصد خاندانوں کی تقسیم ہرگز نہیں ہے بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی اپنی سیکیورٹی یقینی بنانا چاہتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments