ترکی: بڑھتی ہوئی حدت اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ترکی کیسے متاثر ہو رہا ہے


موسمیاتی تبدیلی
وسطی ترکی میں ہزاروں مردہ فلیمنگوز دکھائی دیے ہیں
گذشتہ ایک برس کے دوران ترکی میں شدید ترین گرمی و سردی نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کو ایک مرتبہ پھر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ماحولیات سے متعلق ترک حکومت کی حکمت عملی کو بھی تنقید کا سامنا ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات ترکی کو درپیش مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

ترکی 20 امیر ترین ممالک کے گروپ ’جی 20‘ کا وہ واحد رکن ہے جس نے ابھی تک ’پیرس معاہدے‘ پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس کا ہدف ہے کہ عالمی درجہ حرارت کو صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت کے مقابلے میں دو ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہ بڑھنے دیا جائے۔

صدر رجب طیب اردوغان تسلیم کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی واقعی ایک بڑا خطرہ ہے اور وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ آب و ہوا میں تبدیلی سے ’ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں ہمیں زیادہ خطرات کا سامنا ہوگا۔‘

لیکن ترک حکام کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ترکی کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عالمی امداد حاصل کرے، جس کے لیے اسے پیرس معاہدے کی توثیق بھی کرنی چاہیے۔

ترکی میں کیا ہوا ہے؟

سنہ 2020 کے دوران ترکی میں تقریباً ایک ہزار ایسے واقعات ہوئے جن کی وجہ شدید ترین موسم ہے اور ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک کی تاریخ میں یہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔

یاد رہے کہ 28 اور 29 جولائی کے درمیان ترکی کے 21 صوبوں میں 63 مقامات پر آگ بھڑک اٹھی تھی جس کے بعد متاثرہ دیہات کو خالی کرا لیا گیا ہے جبکہ چھٹیوں پر آئے سیاح بھی اپنے ہوٹلوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

اگرچہ ریکارڈ کے مطابق بحیثیت مجموعی سنہ 1971 کے بعد سنہ 2020 ترکی کی تاریخ کا ’تیسرا گرم ترین سال‘ رہا ہے، تاہم جولائی 2021 میں ملک کے جنوب مشرقی علاقے گیزرا (جزیرہ ابن عمر) میں درجہ حرارت 49 اعشاریہ ایک ڈگری سینٹی گریڈ کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گیا تھا۔

اس کے علاہ اِس سال جنوری میں ملک کے سب سے زیادہ گنجان آباد صوبے استنبول میں بہت زیادہ سردی پڑی اور درجہ حرارت اتنا گر گیا کہ گزشتہ 15 برس کی سردی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔

یہی نہیں بلکہ حالیہ عرصے میں ترکی کے کئی صوبوں میں خشک ہوتے ہوئے دریاؤں میں ہزاروں مردہ مچھلیوں کی خبریں بھی سامنے آ چکی ہیں۔ خشک سالی اور آبپاشی کی غلط روایات کی وجہ سے جولائی میں توز جھیل میں ہزاروں فلیمنگوز کے مر جانے کی خبریں بھی شائع ہو چکی ہیں۔

اسی دوران، یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ترکی میں سیلاب عام ہو چکے ہیں، خاص طور پر بحیرہ اسود کے شمال میں واقع علاقے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں ان علاقوں میں شدید بارشوں کے بعد اچانک تیز ہلاکت خیز سیلاب دیکھنے میں آئے اور سینکڑوں لوگوں کو وہاں سے ہنگامی بنیادوں پر نکالنا پڑا۔

سائنسدان بتاتے ہیں کہ جب آب و ہوا زیادہ گرم ہو جاتی ہے تو اس میں نمی کو جمع رکھنے کی صلاحیت زیادہ ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں پھر شدید طوفان آتے ہیں اور تیز بارش کے بعد فلیش فلڈ یا اچانک سیلاب آ جاتے ہیں۔

دیگر عوامل کے علاوہ گزشتہ دہائیوں میں پانی کے درجہ حرارت اور صنعتی آلودگی میں مسلسل اضافے کے نتیجے میں سمندر میں ناک کے میل جیسا گندہ لیسدار مواد بھی خطرناک حد تک پھیلتا دکھائی دیا ہے۔ ’میوکسی لیج‘ نامی یہ مواد جون میں بڑی مقدار میں مرمرا کے سمندر میں بھی تیرتا دکھائی دیا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اتنا زیادہ کثیف مادہ ترکی کے پانیوں میں دیکھا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق میوکسی لیج کی بڑھتی ہوئی مقدار کی وجہ سمندر کے درجہ حرارت اور صنعتی آلودگی میں اصافہ ہے۔

مشرقی ترکی کی جھیل وان

مشرقی ترکی کی جھیل وان کی سطح پر خشکی کی وجہ سے دراڑیں پڑ چکی ہے

ترکی پر کیا اثرات ہو رہے ہیں؟

خوراک کی دستیابی پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ یہ بات ترکی کی ماحولیات کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ مہمت امین برپینار نے ایوان کو اس برس اپریل میں ہی بتا دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ بحیرہ اسود کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے ترکی میں مچھلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے اور ملک کے اس علاقے میں سیلابوں کی وجہ سے ریٹھوں (ہیزل نٹ) جیسی بڑی فصلیں اور پھل کی پیداوار بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

کسان بھی خبردار کر چکے ہیں کہ خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی پیداوار میں کمی ہو سکتی ہے کیونکہ اب وہ دریاؤں میں خشکی کہ وجہ سے اپنے کھیتوں کو پانی نہیں دے پائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

ترکی کے مختلف صوبوں میں آگ، مقامی افراد اپنے گھر اور سیاح ہوٹل چھوڑنے پر مجبور

استنبول کینال پراجیکٹ: ’یہ کسی فوارے کا نہیں اس صدی کے بڑے نہری منصوبے کا آغاز ہے‘

ترکی میں آگ: ’صرف دس منٹ میں ہم مکمل طور پر سرخ آگ میں گھرے ہوئے تھے‘

کسانوں کی ایک تنظیم کے صدر سیدات بشکاوک نے مئی میں بائیں بازو کے ایک اخبار میں لکھا تھا کہ ’خشک سالی ملک کے تقریباً تمام علاقوں کو متاثر کر چکی ہے، اس کے سب سے زیادہ اثرات ملک کے جنوب مشرقی اور وسطی علاقوں میں دیکھنے میں آ رہے ہیں اور یہ رجحان ابھی تک جاری ہے، بلکہ اب اس نے ایک بحران کی شکل اختیار کر لی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کھیتوں میں خشکی کے اثرات دیگر شعبوں پر بھی پڑتے ہیں۔ جب خشک سالی سے فصلوں کی پیداوار کو نقصان پہنچتا ہے تو جانوروں کی افزائش بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ جانوروں کو بھی خوراک نہیں دی جا سکتی۔‘

ترکی کے موسمیات کے 2021 کے سرکاری نقشے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خشکی سے ملک کے مشرقی اور جنوب مشرقی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ ترکی کا سب سے کم ترقی یافتہ علاقہ ہے جہاں آبادی میں کرد اقلیت کا تناسب زیادہ ہے۔

ذرائع ابلاغ کیا دکھاتے ہیں؟

لگتا ہے کہ حالیہ برسوں میں ترک میڈیا موسمیاتی تبدیلی سے متعلق خبریں زیادہ دے رہا ہے، لیکن ایسی خبریں بہت کم ملتی ہیں جن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ترکی میں انتہائی گرمی اور انتہائی سردی کی وجہ اصل میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی ہے۔

مثلاً جب جنوری میں کچھ ذائع ابلاغ نے ڈیموں میں پانی کی گرتی ہوئی سطح کے بارے میں خبریں دیں تو انھوں نے بھی زیادہ توجہ خشک سالی پر مرکوز رکھی اور یہ ذکر بہت کم کیا کہ اس کی ممکنہ وجہ موسمیاتی تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل این ٹی وی نے اپنے ایک تعلیمی پروگرام میں یہ بتایا کہ پانی کو کیسے کفایت شعاری سے استعمال کرنا چاہیے، جس میں پروگرام کے میزبان یہ بتا رہے تھے کہ دانت صاف کرتے ہوئے، شیو کرتے ہوئے یا برتن دھوتے ہوئے آپ نلکے کو بند بھی کر سکتے ہیں۔

اسی طرح جب جون میں سمندر میں بڑھتے ہوئے فاسد مادے کے بارے میں خبردار کیا جا رہا تھا، تو حکومت کے حمایتی چند ذرائع ابلاغ نے شروع شروع میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تالہ بندی کے دنوں میں لوگ گھروں میں بہت زیادہ صابن وغیرہ استعمال کر رہے تھے۔

تاہم کچھ ہفتوں بعد حکومت اور حزب اختلاف کے حمایتی ذرائع ابلاغ، دونوں میں سمندری آب و ہوا کے ماہرین کے یہ بیانات بھی سامنے آنے لگے کہ سمندر میں فاسد مادوں کی بڑھتی مقدار کی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ حزب اختلاف کے حامی میڈیا نے شمالی ترکی اور جرمنی میں حالیہ سیلابوں کے حوالے سے بھی یہی کہا کہ ان کی وجہ بھی بڑی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔

سرکاری حکام کا رد عمل کیسا ہے؟

حالیہ عرصے میں جب بھی ترکی میں کوئی موسمی آفت آئی تو ترک حکام نے کبھی کبھار ہی اسے موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ قرار دیا اور اکثر دیکھا گیا کہ حکام نے اس کا کوئی عارضی حل ہی تلاش کرنے کی کوشش کی۔

صدر اردوغان فخر سے بتاتے ہیں کہ حکومت نے گذشتہ 18 برس میں ’کئی ارب درخت‘ لگائے اور وہ سنہ 2030 تک مضر گیسوں کے اخراج میں 21 فیصد کمی کے ہدف پر بھی قائم ہیں۔

اسی طرح خاتون اوّل بھی ماحولیاتی مسائل پر ایک اہم آواز بن چکی ہیں۔ وہ 2017 میں قومی سطح پر قدرتی وسائل کے ضیاع کو ختم کرنے کے ’زیرو ویسٹ پراجیکٹ‘ کی رہنمائی بھی کر چکی ہیں جس کے تحت 2019 میں پلاسٹک کے بیگوں پر اضافی ٹیکس بھی لگایا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

صدر اردوغان کا استنبول کینال منصوبہ کیا ہے اور یہ نہر اتنا طوفان کیوں برپا کر رہی ہے؟

صدر اردوغان کے ’نہر استنبول‘ منصوبے پر تنقید کرنے والے 10 سابق ایڈمرل زیرِحراست

سمندر کی لہروں کی طاقت کم کیوں ہو رہی ہے؟

ان اقدامات کے علاوہ اب تک ترکی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کئی پالیسیاں بھی ترتیب دے چکا ہے اور وہ ماحولیاتی قوانین کے مسودے پر بھی کام کر رہا ہے۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ ترکی کے اقدامات ناکافی ہیں۔

اس برس اپریل میں سربراہانِ مملکت کی کانفرنس میں ترکی کے صدر اردوغان ان ممالک میں شامل تھے جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، لیکن صدر کا کہنا تھا کہ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو مضر گیسوں کے اضافے میں ترکی کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔

صدر نے کہا تھا کہ ترکی ’ماحولیاتی تبدیلی سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنے حصے کا کام کرتا رہے گا لیکن شرط یہ ہے کہ ترکی کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں جو ان ممالک کو حاصل ہیں جو معاشی اعتبار سے اسی سطح پر ہیں جہاں ترکی کھڑا ہے۔‘

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحولیات پر ہونے والے آخری مذاکرات میں بھی ترکی نے بین الاقوامی سطح پر زیادہ مالی معاونت کی درخواست کی تھی اور توقع ہے کہ گلاسکو میں ’سی او پی 26‘ کے عنوان سے ہونے والی سربراہ کانفرنس میں بھی ترکی کا مطالبہ یہی ہوگا۔

مہمت امین برپینار نے 2020 میں کہا تھا کہ ماحولیاتی مسائل پر ’یورپین یونین کے معیار‘ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے ترکی کو 80 ارب یورو کی ضرورت ہے۔

آگے کیا ہوگا؟

ایک ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر ترکی کی بہت زیادہ توجہ تعمیرات پر ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک ماحول دوست معیشت (گرین اکانومی) کی جانب ترکی کی پالیسیوں میں تبدیلی سست رہی ہے۔

مارچ 2021 میں توانائی کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل انرجی ایجنسی) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ ایک عشرے میں ترکی نے اپنے ہاں دوبارہ قابل استعمال بنائے جانے والے قدرتی ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں تقریباً تین گنا اضافہ کر لیا ہے۔ لیکن ابھی تک ملک کا بہت زیادہ انحصار فوسل فیول یا قدرتی ایندھن پر ہے۔

تاہم ایسا لگتا ہے کہ قدرتی آفات میں اضافے کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر ترکی میں موسمیاتی مسائل کے حوالے سے آگہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مہمت امین برپینار نے اپریل میں کہا تھا کہ ترکی میں ایسے لوگوں کی تعداد 85 فیصد ہو چکی ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر یقین رکھتے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ حالیہ دنوں میں کئی مقامات پر جنگلات میں آگ لگ جانے کے واقعات سے لوگ مزید قائل ہو جائیں کہ درجہ حرارت میں اضافہ واقعی ایک خطرناک چیز ہے۔

استنبول یونیورسٹی کے تعلیمِ ِجنگلات کے شعبے کے پروفیسر دوگنے تولنے کا کہنا ہے کہ ’حالیہ برسوں میں جنگلات میں آگ کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے اس قسم کی آگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور آگ کو تیزی سے پھیلنے سے روکنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔‘

انقرہ یونیورسٹی کے پروفیسر احسان سیسک نے اپنی ایک پارلیمانی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگلے ایک سو برس میں (ترکی میں) خشک سالی میں دس گنا اضافہ ہو جائے گا۔

ان ماہرین کے علاوہ مہمت امین برپینار بھی خبردار کر چکے ہیں کہ سمندروں کی سطح میں اضافے سے استنبول میں مشہور آبنائے باسفورس کے ساحل کے سامنے بنے بڑے بڑے گھر اس صدی کے آخر تک پانی میں ڈوب جائیں گے۔

اگرچہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ترکی کے ردعل پر سوال اٹھائے جا سکتے ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ ملک میں اس حوالے سے فوری اقدامات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp