امرد بازی، بادشاہ، مشائخ اور شاعر


سعودی عرب کے سابق گرینڈ مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز کے شاگرد رشید، ڈاکٹر سلمان العودہ نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم جنس پسندی کی اس دنیا میں کوئی سزا نہیں ہے اور ہم جنس پسند اس فعل کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں ہوتے۔

اسی طرح عرب سپرنگ کا آغاز کرنے والے ملک، تیونس کے 80 سالہ مفکر راشد الغنوشی نے بھی ایک انٹرویو میں بتایا، ”ہم جنس پسندی کو ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ ہے۔ ان کے مطابق ہم جنس پسندی ایک نجی معاملہ ہے اور اس سلسلے میں قانون کا اختیار نہیں ہونا چاہیے چنانچہ اسے جرم نہیں ہونا چاہیے۔

مردوں میں ہم جنس پسندی کی تاریخ نسلوں کی بجائے صدیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ عربی زبان میں اسے لواطت اور انگریزی میں سدومی کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی اصلاحات میں مذہب کا دخل ہے۔ عربی کا لواطت پیغمبر لوط کے نام سے مشتق ہے جب کہ انگریزی سدومی موجودہ اسرائیل میں بحیرہ مردار کے جنوب مغربی کنارے پر واقع جبل سدوم  سے ماخوذ ہے۔

حالانکہ موجودہ دور میں سدوم نام کی کوئی آبادی وہاں موجود نہیں ہے مگر عہد نامہ عتیق (تورات عظیم) اور عہد نامہ جدید (انجیل مقدس) سدوم شہر کی تباہی کی تفصیل دی گئی ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں قرآن حکیم نے پیغمبر لوط کی رہائش اور ان کی قوم پہ عذاب کا بتایا ہے۔ اس شہر کے نام کا حوالہ قرآن حکیم میں نہیں دیا گیا۔ اسلام سے پہلے کی ابراہیمی کتابوں میں پیغمبر لوط کا ذکر بہت محدود سا ہے جبکہ قرآن پاک میں پیغمبر لوط کا ذکر نسبتاً تفصیل سے آیا ہے۔

جب بھی ہم جنس پسندی کی بات آتی ہے تو عمومی طور پر مردوں کے ہی جنسی رویے کی بات کی جاتی ہے مگر یہ جنسی رویہ عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ عورتوں کے اس جنسی رجحان کو انگریزی زبان میں (لیزبین ازم) کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ یونانی جزیرے لیزبوس کے نام سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس جزیرے کی وجہ شہرت مشہور یونانی شاعرہ سیفو ہیں جنہوں نے معلوم تاریخ میں پہلی بار اپنی محبوبہ کے بارے میں جذباتی شاعری کی۔

اس طرح کے جنسی رویے کو عجیب سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ جنسی عمل کے متعلق عام غلط فہمی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ اس لیے ناقابل قبول لگتا ہے کیونکہ جنسی عمل کو صرف افزائش نسل کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زمین پہ پائی جانے ذہین ترین مخلوقات یعنی انسان، چمپینزی اور ڈولفن جنسی عمل تسکین کے حصول کے لیے کرتے ہیں جس کی وجہ سے کبھی کبھی بچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں ورنہ ان کے سیکس کی فریکوئینسی کی نسبت سے ان کی آبادی کو بے قابو ہو جانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام جانداروں کے جنسی عمل اور نئے بچے پیدا ہونے کا ایک خاص موسم ہوتا ہے جبکہ ان ذہین مخلوقات کے بچے سارا سال پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

ہم جنس پسند رویے کا تعلق بھی جنسی تلذذ سے ہوتا ہے جو کہ ایک انتہائی ذاتی رجحان ہے یہی وجہ ہے کہ ایسا جنسی رویہ رکھنے والے افراد جنس مخالف کی دستیابی کے باوجود ہم جنسی کا رجحان رکھتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں شادی بھی اس مسئلے کا مستند حل نہیں ہے اور ایسے افراد شادی کے بعد بھی ایسا رجحان رکھتے ہیں بلاشبہ یہ کچھ دب ضرور جاتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا کیونکہ ہم جنس پسندی ایک قدرتی رجحان ہے جو ماں کے پیٹ سے ہی پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ میری رائے میں ہم جنس پسندی کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔

لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم نے جنسی رویوں کو حال ہی میں سمجھنا شروع کیا ہے لہذا ہم جنس پسندی کو روایتی طور پر قابل اعتراض سمجھا جاتا رہا ہے چنانچہ بالکل منطقی طور پر تقریباً ہر مذہب نے اس کے لیے سخت سزائیں تجویز کیں ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ بالعموم مذہبی پیشوا ہی اس عمل میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صوفیانہ روایات سے مزین مردانہ اجارہ داری کی حامل مذہبی قیادت بالعموم نسائی لذت سے محروم رہی ہے کیونکہ تقدس کا تصور جنسی لذت سے آلودہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ جنسی گھٹن کی شکار مذہبی قیادت کے لیے دینی تربیت کے لیے مدخول بچے آسان ہدف رہے ہیں۔

اس کے علاوہ بچوں کو خوف زدہ کر کے خاموش رہنے پہ مجبور کر دینا اور ان کے دل میں تقدس کے ہیولے کا ادب (رعب) پیدا کر لینا آسان رہا ہے۔ بچے سمجھتے ہیں چونکہ مذہبی رہنما خدا کے دنیاوی نمائندے ہیں لہذا ان کی ہر بات پہ مطلق فرمانبرداری ضروری ہے چاہے وہ حکم بظاہر ناجائز ہی ہو کیونکہ وہ مذہب کو مقدس ہستی سے زیادہ تو نہیں سمجھتے۔ ماسوائے اس کے بچوں کو سیکس کے موضوع پہ تعلیم کی کمی بھی اس کے لیے ذمہ دار رہی ہے۔

یہ مشق کسی ایک تہذیب یا مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تقریباً ہر ثقافت اور مذہب اس حوالے سے شریک لطف رہا ہے۔ قدیم جاپان میں مردوں کی کم عمر لڑکوں سے جنسی لذت حاصل کرنے کے رواج کو نان شوکو کہا جاتا تھا، اس مقصد کے لئے اشرافیہ کے پاس واکاشو کہلائے جانے والے لڑکے موجود ہوتے تھے۔ اسی طرح یونانیوں نے بھی لڑکے رکھے ہوئے تھے ارسطو نے اپنی کتاب پولیٹکس میں اس پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ کریٹ کے حکمران آبادی کنٹرول کرنے کے لئے بچہ بازی/ اغلام بازی کی پذیرائی کرتے تھے۔

چینی تہذیب میں بھی یہ رواج عام تھا۔ شہنشاہ  “آئے” کی آستین پر ایک مرتبہ ان کا عاشق سو گیا اس نوجوان کو اٹھانے کے بجائے آپ نے اپنی آستین ہی کاٹ لی۔ یہ دیکھتے ہوئے بعد میں درباری بھی ایک آستین نکال لیا کرتے تھے، اسی وجہ سے چین میں لڑکوں کا شوق رکھنے والوں کے لئے “آستین کٹوں کی محبت” کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

فارس میں بھی یہ مرض عام تھا، سکندر اعظم کو فارس کے حکام نے باگواس نامی ایک لڑکا بھی تحفہ میں دیا تھا، سکندر کو یہ نوجوان بہت عزیز تھا رقص کے مقابلوں میں اسے نچوایا کرتا تھا، اس سے کھلے عام اپنے پیار کا اظہار بھی کر دیا کرتا تھا۔ باگواس کے بوسے کی اصطلاح یہاں سے نکلی۔ عباسی دور میں خلیفہ الامین نے لڑکوں سے دربار میں رونق لگائے رکھی۔ عثمانی دور کی اشرافیہ بھی یونانیوں سے اس درجہ متاثر تھی کہ حماموں میں تلک نام کے کم عمر لڑکے رکھے جاتے جو مردوں کو نہلانے کے علاوہ دیگر خدمات بھی سر انجام دیتے تھے۔

بابل کی تہذیب میں بھی مرد کا مرد سے جنسی تسکین حاصل کرنا ایک معمول کا فعل تھا۔ خوش بختی اچھی قسمت کے لئے ضروری تھا کہ ان مذہبی پیشواؤں سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ مصر کی تہذیب میں بھی یہ ہی چیز جاری تھی۔ ان کی تین ہزار سال پہلے کی گلگامش کی کہانی میں بھی بادشاہ گلگامش انکیدو نامی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔

آج بھی افغان معاشرے میں یہ رویہ مباح سمجھا جاتا ہے کہ سماجی شان و شوکت کے لیے نوعمر لڑکے رکھے جائیں۔ یہ رویہ اس حد تک مقبول ہے کہ 2015 میں امریکی جرنیلوں نے اپنے فوجیوں کو ہدایت کی تھی کہ افغان ”بچہ بازی“ میں مداخلت نا کی جائے۔ شاید ہی کوئی افغان سردار ایسا ہو گا جس کے حجرے میں امرد موجود نا ہوں۔ ناصرف یہ بلکہ ان لڑکوں کی ملکیت پر قابل فخر ہے بلکہ ان کی ملکیت پانے کے لیے جنگجو سرداروں کی خونی لڑائیاں بھی عام ہیں۔ یہ لڑکے ناصرف جنسی راحت دیتے بلکہ فنکارانہ ذوق کی تسکین بھی کرتے ہیں جیسا کہ پازیب کے ساتھ رقص وغیرہ۔ اس حوالے سیاسی یا مذہبی وابستگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مذہبی، متشرع طالبان اور افغان حکومت کے حامی سیکولر سردار، دونوں اس حمام میں ننگے ہیں۔

مذہبی اداروں میں اس حوالے سے سب سے زیادہ بدنام مسیحی گرجا رہا ہے۔ میڈیا کے فروغ نے بیسویں اور اکیسویں صدی کے دوران مسیحی گرجا کی ہم جنسی پرستی کا پول کھول دیا ہے حالانکہ گرجا پہ ایسے الزامات صدیوں سے لگتے آئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ گرجا میں رہنے والی راہباوں کی بکارت کو محفوظ رکھتے ہوئے ان سے غیر فطری جنسی فعل کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

بعینہ، یہودی برادری کی عبادت گاہوں (سینا گوگ) میں ہم جنسی معاملات کی شکایات کا انبار ہے۔ بودھ صوفی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ابھی حال میں ہی تھائی لینڈ کی بودھ خانقاہوں میں نوعمر بودھ بھکشووں کے ساتھ عمر رسیدہ بھکشووں کی جنسی زیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک 13 سالہ بھکشو کی شکایت کے مطابق 51 سالہ رہبر بھکشو اسے اپنے ننگے جسم کا مساج کرنے اور اپنے جسم کو چوسنے کا کہتے۔

پاکستان میں یہ روایت اردو کی رعایت سے آئی ہے حالانکہ اردو کی قبولیت عام سے پہلے بھی برصغیر کے مسلمانوں میں عشق افلاطونی (افلاطون کے نزدیک عورت سے محبت فضول ہے کیونکہ عورت سے جنسی عمل صرف نسل آ گے بڑھانے کے لیے ہے جب کہ عشق حقیقی کا حظ صرف نوعمر بغیر داڑھی کے لڑکوں سے ہی اٹھایا جا سکتا ہے ) کی مضبوط ثقافت موجود تھی۔

اردو کی اولین تحریر سے بھی 350 سال پہلے پیدا ہوئے سلطان علا الدین خلجی کی اپنے غلام ملک کافور سے محبت پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ خلجی کے دور حکومت میں ایک مبصر ضیا الدین بارانی نے خلجی کے آخری دنوں کا احوال بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان چار پانچ برسوں میں جب سلطان اپنی یاداشت کھونے لگے تھے تو وہ ملک کافور کے ساتھ گہری محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کچھ ایسی ہی حکایات سلطان محمود غزنوی اور ان کے چہیتے مملوک ایاز کے لیے بھی ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد سرمد پر اپنی تحریر کی ہوئی کتاب ’حیات سرمد‘ میں صوفی سرمد کی اپنے محبوب ابھے چند کے لیے سرمستی عشق کے بارے میں لکھا ہے۔

پنجابی کے نامور شاعر اور لاہور کے صوفی شاہ حسین اور ہندو لڑکے مادھو کے عشق سے کون واقف نہیں ہے؟ اس عشق کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنے محبوب کا نام اپنے نام کا مستقل حصہ بنا لیا اور اب بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ مادھو لال حسین ایک شخص کا نام نہیں تھا بلکہ دو الگ الگ نام تھے۔

اسلامی تصوف میں اس حوالے کی روایت پہلے عرب (شاعر ابو نواس) اور پھر فارس (خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی ( 1315۔ 1390 ) فارسی شاعر حافظ کا مشہور شعر تو ہر کوئی کس لذت سے سناتا ہے کہ “اگر وہ شیراز کا ترک مجھے مل جائے تو میں اس کے تل کے بدلے سمر قند اور بخارا کے شہر اسے بخش دوں” سے وارد ہوئی۔

اردو غزل کے بادشاہ، ریختہ کے استاد، صوفی ابن صوفی سید محمد تقی (ولد سید محمد متقی جو ایک معروف مزار کے سجادہ نشین تھے ) عرف میر تقی میرؔ، جن کو خدائے سخن کا لقب دیا جاتا ہے، نے شاعری کے اپنے دیوان کے متعلق کہا تھا کہ میرا دیوان میرے معشوق لڑکے کے لیے لکھا گیا ہے۔ ان کے معشوق لڑکے کے حسن کے قصے اور طرحداریوں کے افسانے اس کے خال و خد سے لے کر عشوہ طرازیوں تک چلے جاتے ہیں۔

اسی طرح پرانی دلی کے قدماء میں سے ایک بزرگ شاعر شیخ شرف الدین مضمون نے اپنے محبوب کے بارے میں لکھا کہ میرے محبوب کے چہرے پر داڑھی آ گئی ہے جبکہ میری داڑھی سفید ہو چکی ہے۔ لیکن وہ اب بھی ساری رات مجھ سے مصاحبت کرتا ہے۔ ہندو اردو شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھ پوری بھی اپنے بیٹے کے عمر کے لڑکے کے عشق میں مبتلا تھے۔ کہتے ہیں کہ فراقؔ گورکھ پوری کی ہم جنسیت کی وجہ سے ان کے بیٹے نے خود کشی کر لی تھی کہ اس کا باپ اس کے دوستوں سے بھی باز نہ آتا تھا۔

ایک مشہور فقیہ نے اس رویے کا علاج یہ تجویز کیا تھا کہ اپنے شاگرد کا سر منڈوا دیا تاکہ وہ خوبصورت ہونے کی وجہ سے دوران سبق فقیہ کی توجہ منتشر نا کروا دے۔ مگر کیا کیجئے، مسئلہ حل نہیں ہوا اور اس کے بعد استاد محترم کو اپنے عزیز شاگرد کو اپنی مسند کے عقب میں یعنی اپنی نظروں سے اوجھل بٹھاتے۔ جدید قانون تو پیڈوفیلیا کو ایک سنگین جرم مانتا ہے، مگر کیا اس سب کے بعد مفتی الشیخ عزیز الرحمان پہ شرعی یا ثقافتی حوالوں سے گرفت کی جانی چاہیے؟ جواب آپ کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments