کریم الجیعان، ڈاکٹر عباس خان: جب انڈین نژاد برطانوی ڈاکٹر کی موت نے ایک شامی نوجوان کا مستقبل بدل دیا

کریم الاسلام - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


یہ کہانی 2013 سے شروع ہوتی ہے۔

دسمبر کے مہینے میں برطانیہ میں مقیم ایک 16 سالہ شامی نژاد نوجوان نے صبح اُٹھ کر حسبِ معمول اپنی سوشل میڈیا فیڈ پر سرسری نظر ڈالی تو اُس کی نظر ایک ٹویٹ پر آ کر ٹھہر گئی۔

خبر تھی کہ ایک انڈین نژاد برطانوی ڈاکٹر جو شام میں خانہ جنگی سے متاثرہ شہریوں کی مدد کرنے حلب گیا تھا، شامی حکام کی تحویل میں قتل کر دیا گیا ہے۔

اب اِسے اتفاق کہیں یا قسمت کہ اِس شامی نوجوان کی پیدائش بھی حلب شہر میں ہوئی تھی۔ اِس سوشل میڈیا پوسٹ نے اس شامی نوجوان میں ایک ایسے جذبے کو جنم دیا جس کے تحت آٹھ سال بعد وہ میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہوا اور مظلوم انسانیت کی مدد کی۔

اِس نوجوان اور اُس کی زندگی کا رُخ تبدیل کرنے والے ڈاکٹر کے بارے میں مزید جانتے ہیں۔

ڈاکٹر عباس خان کون تھے؟

شام

ڈاکٹر عباس

ڈاکٹر عباس خان کے والدین سنہ 1977 میں انڈین ریاست حیدرآباد دکن سے برطانیہ آئے تھے۔ عباس نے کنگز کالج لندن سے گریجوئیشن مکمل کی اور شام جانے سے پہلے وہ ٹرینی سرجن کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

نومبر 2012 میں وہ ترکی میں شامی پناہ گزینوں کے کیمپوں میں خدمات انجام دینے پہنچے۔ پھر وہ شام کے شہر حلب میں داخل ہوئے لیکن 48 گھنٹوں میں گرفتار کر لیے گئے۔

اُنھیں دمشق کی جیل میں رکھا گیا جہاں اہلخانہ کے مطابق اُنھیں قیدِ تنہائی میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دسمبر 2013 میں شامی حکام نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے خودکشی کر لی ہے۔

لیکن عباس کے جیل کے ساتھیوں، اہلخانہ اور برطانوی دفترِ خارجہ نے اس واقعے کو قتل قرار دیا تھا۔

ایک ڈاکٹر کی قربانی

دسمبر 2013 میں ڈاکٹر عباس خان کی کہانی سے متاثر ہونے والے شامی نژاد برطانوی نوجوان کا نام کریم الجیعان ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’اِس پوسٹ کو پڑھ کر میں سکتے میں آ گیا۔ وہ (ڈاکٹر عباس) ایک ایسا شخص تھا جو نہ شام میں پیدا ہوا نہ ہی وہاں کبھی رہا بلکہ اُس ملک سے اُس کا کوئی براہ راست تعلق بھی نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی وہ وہاں رہنے والے عام شہریوں کی مدد کا عزم رکھتا تھا۔ اُس نے دوسروں کی جان بچانے کے لیے خود اپنی جان داؤ پر لگائی اور بالآخر قربان بھی کر دی۔‘

کریم بتاتے ہیں کہ اُس وقت وہ ایک نوجوان تھے اور اُن کے لیے یہ تصّور کرنا بھی کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے لیے اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہے، انتہائی حیران کُن تھا۔ اِس جذبے نے کریم الجیعان کو اتنا متاثر کیا کہ انھوں نے ڈاکٹر عباس خان کی قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے خود ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا۔

سوشل میڈیا پر رابطہ

کریم الجیعان نے رواں برس ہی ’برائٹن اینڈ سسکس میڈیکل سکول‘ سے میڈیسن میں گریجوئیشن مکمل کی ہے۔ گریجوئیشن کی تقریب میں وہ ڈاکٹر عباس کی میڈیکل گاؤن میں تصویر فریم کروا کر ساتھ لے گئے اور اُس کے ساتھ تصویر بنوا کر ٹویٹ کی۔

یہ ٹویٹ جب ڈاکٹر عباس کی چھوٹی بہن سارہ خان تک پہنچی تو وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے سوچا کہ یہ کتنی خوبصورت بات ہے کہ اتنے برسوں بعد کوئی نوجوان عباس خان کی کہانی سے متاثر ہوا ہے۔ جس نے اپنی زندگی کے پانچ سال لگا کر میڈیکل کی ڈگری لی اور گریجوئیش پر عباس کی تصویر ساتھ لے کر تصویر بھی بنوائی۔ یہ سب اُس نے ایک ایسے شخص کے لیے کیا جسے وہ جانتا تک نہیں تھا۔ یہ میرے پورے خاندان کے لیے ایک انتہائی جذباتی تجربہ تھا۔‘

بی بی سی کے ذریعے ملاقات

سوشل میڈیا پر رابطے کے بعد بی بی سی نے سارہ خان اور کریم الجیعان کی لندن میں ملاقات کروائی۔

اِس ملاقات کے بارے میں سارہ کا کہنا تھا کہ ’کریم سے ملنا میرے لیے ایک بہت جذباتی تجربہ تھا۔ کریم کا جذبہ مثالی تھا اور اُن کی باتوں سے سچائی اور ایمانداری کا احساس ہوتا تھا۔ وہ عباس کے کام اور اُن کی قربانی کے بارے میں انتہائی مخلص تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’آپ اس تکلیف کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے‘

شام: مشرقی حلب کے پچاس فیصد علاقے پر حکومتی قبضہ

کراچی کی ڈاکٹر سعدیہ کو انتہائی مطلوب ملزمان کی فہرست میں کیوں شامل کیا گیا؟

سارہ بتاتی ہیں کہ اِس ملاقات سے اُن کے ذہن میں اُن کے مرحوم بھائی کی بےشمار خوشگوار یادیں تازہ ہو گئیں۔ لیکن سارہ کے بقول بھائی کی موت کا غم آج بھی تازہ ہے اور اُنھیں اِس بات کا افسوس ہے کہ ڈاکٹر عباس کو اب تک انصاف نہیں مل سکا۔

بھائی کی یاد

شام

کریم الجیعان سے ملاقات میں سارہ خان نے اُنھیں اپنے بھائی کے زیرِ استعمال ہاتھوں کی سرجری سے متعلق کتاب تحفے میں دی

اپنے بھائی کی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے سارہ خان بتاتی ہیں کہ ’میرے بھائی عباس خان بچپن ہی سے بہت مہربان اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ رکھنے والے شخص تھے۔ وہ شادی شدہ تھے اور اپنے دو بچوں اور اہلیہ سے بہت پیار کرتے تھے۔‘

’وہ طب کے شعبے کو انسانوں کی خدمت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ڈاکٹر بنے۔ وہ لوگوں کی تکالیف کا مداوا کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے آرتھوپیڈکس کے شعبے کا انتخاب بھی اِسی لیے کیا کیونکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں زیادہ تر زخمی ہڈیوں کی تکلیف کا شکار ہوتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عباس خان کے شام جانے کے فیصلے کے بارے میں سارہ بتاتی ہیں کہ ’وہ شام اِس لیے گئے کیونکہ وہاں خانہ جنگی جاری تھی اور ڈاکٹروں کی شدید قلت تھی۔ بلکہ حالات اتنے خراب تھے کہ ڈاکٹر اور سرجن ملک چھوڑ کر جا رہے تھے۔ عباس سمجھتے تھے کہ بحیثیت ڈاکٹر اور بحیثیت انسان یہ اُن کا فرض ہے کہ وہ وہاں جائیں اور لوگوں کی مدد کریں۔‘

کتاب کا تحفہ

کریم الجیعان سے ملاقات میں سارہ خان نے اُنھیں اپنے بھائی کے زیرِ استعمال ہاتھوں کی سرجری سے متعلق کتاب تحفے میں دی۔ سارہ کا کہنا ہے کہ اگر آج اُن کے بھائی زندہ ہوتے تو وہ بھی یہی چاہتے کہ اُن کی کتاب کریم جیسے کسی نوجوان ڈاکٹر کے استعمال میں جائے۔

سارہ خان کہتی ہیں کہ ’یہ جان کر کہ نوجوان ڈاکٹر طب کا شعبہ اختیار کر کے جنگ زدہ علاقوں میں لوگوں کی مدد کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں مجھے بہت خوشی ہوئی۔‘

’ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں ہر جانب مصائب سر اُٹھا رہے ہیں مجھے اور میری فیملی کو یہ دیکھ کر انتہائی اطمینان ہو رہا ہے کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو محبت، امن اور بھائی چارے کو فروغ دے رہے ہیں۔‘

شام

کریم الجیعان کے بچپن کی تصویر

کریم الجیعان جنھوں نے اپنی ہاؤس جاب چند روز پہلے ہی شروع کی ہے کہتے ہیں کہ یہ کتاب اُن کی زندگی کا سب سے قیمتی تحفہ ہے۔

وہ اُسے سینے سے لگا کر رکھیں گے اور اپنے بعد آنے والی ڈاکٹروں کی نسل کے حوالے اِس امید سے کریں گے کہ وہ بھی ڈاکٹر عباس خان کا انسانیت کی مدد کا مشن جاری رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp