تاریخ کے کھنڈرات


اگست کا مہینہ جب بھی آتا ہے مجھے مرحوم مشکور حسین یادؔ کی کتاب”یادوں کے چراغ“ شدت سے یاد آنے لگتی ہے۔ میں نے درجنوں بار اس کتاب کا مطالعہ کیا اور ان اداس نسلوں کے بارے میں سوچا جو دنیا کی اس عظیم ترین ہجرت میں درجنوں خواب سجائے پاکستان آئے تھے۔ اس کتاب کے ذریعے تاریخ کے کھنڈرات میں جھانکتے ہوئے روح احساس کے نشتر سے تڑپ اٹھتی ہے اور چند لمحوں کے لیے ہمارا حال سے رشتہ توڑ کر ہمیں ماضی کے حوالوں کی طرف محوپرواز کر دیتی ہے۔ اگرچہ ہر سال چودہ اگست کا یادگار دن پورے ملک میں شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔ جلوس نکالے جاتے ہیں، دھواں دار تقاریر کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کے اعلیٰ افسران اور حکومتی مشینری کے لوگ اپنے اپنے انداز میں رٹے رٹائے فقرات پیش کر کے قوم کے ساتھ عجیب طرح کا مذاق کرتے ہیں۔

یہ وہ واعظِ خوش الحان خود بھی جانتے ہوتے ہیں کہ یہ سب کچھ احساس کی روح سے عاری ہے۔ چودہ اگست کو ٹی وی چینلوں سمیت جلسے جلوسوں میں کیے جانے والے خطبات اور مکالمے سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی مٹ جاتے ہیں اور پندرہ اگست کا دن روٹین کے مطابق جھوٹے بولنے، کرپشن کرنے، سود لینے اور دو نمبری کرنے میں گزر جاتا ہے۔ میں کبھی کبھی اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا تین سو پینسٹھ دنوں میں ہمارے پاس قیام پاکستان کی عظیم الشان تحریک کو یاد کرنے کیے لیے صرف ایک دن ہی بچتا ہے۔

چودہ اگست کے اس ڈوبتے سورج کی کرنیں یقیناً کسی گوشے میں بیٹھے ہوئے خزاں رسیدہ درخت کی طرح کسی ایسے بوڑھے پر بھی پڑتی ہوں جو عمرِ رفتہ کی یادگاریں اپنے چہرے پر سجائے اپنی بھیگی پلکوں پر آئے ہوئے آنسوؤں کے قطروں کو پی جانے کی کوشش کرتا ہوگا اور ذہن کے دریچوں میں زبردستی آ جانے والی ان حزن آگیں یادوں کو بھلانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ یادیں جن کا تعلق 47ء کے ہنگاموں سے ہوگا، وہ یادیں جو اس نے اس عظیم ہجرت میں اپنے پلو سے باندھے پاکستان کی جانب ہجرت کی تھی، وہ یادیں جن کے سہارے اس نے زندگی کے ستر برس گزار دیے۔

کتنی تلخ حقیقت ہے ناں کہ ایک بوڑھے شخص نے تقسیم کے وقت جو خواب پروئے تھے ان میں ایک بھی پورا نہ ہو سکا۔ اس موضوع کو کسی حد تک اردو ادب میں حسن عسکری کی طرف سے” پاکستانی ادب“ کی بحث میں چھیڑا بھی گیا جو ”جھلکیاں“ میں شائع ہوئی۔ تقسیم کے بعد مہاجرین کے لیے جہاں رہائش کا سب سے بنیادی مسئلہ تھا وہاں شناخت کا مسئلہ بھی اہم ترین تھا۔ آج ستر سال گزرنے کے بعد بھی ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ اس خونی سمندر عبور کر کے آزادی کے نعرے لگاتے پاکستان پہنچے تھے کیاہم نے ان کو وہ پاکستان دیا؟ یقیناً میرے قارئین کا جواب بھی نفی میں ہوگا۔

کیا ہم تاریخ کے ان کھنڈرات کو بھول سکتے ہیں جن میں ہمارا ماضی پڑا ہوا جسے ہم نے جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا؟ اس سوال کا جواب بھی سنجیدہ قاری نفی میں دیں گے۔ میرے سمیت ادب اور تاریخ کے سنجیدہ قارئین ان سینکڑوں لٹے پٹے گرد آلود قافلوں کو کیسے بھول سکتے ہیں جو خوابوں کے دیس میں پہنچنے کی کوشش کرتے کرتے تاریخ کے اوراق میں دفن ہو گئے اور افسوس اس قوم پر جس نے انہیں ایسے فراموش کر دیا جیسے ان کی زندگی کی حیثیت محض قربانی کے بکرے کی سی تھی۔ تاریخ کے وہ کھنڈرات جن کی فضا میں اب بھی لاکھوں معصوم بچوں کی بلبلاہٹیں سنائی دے سکتی ہیں۔ لاکھوں عصمت مآب دوشیزاؤں کی چیخیں جہاں دب کر رہ گئی ہیں اور نہ جانے کتنے بوڑھو ں کے سامنے ان کے جواں سالہ بیٹے روتے اور چیختے امر ہو گئے۔ آج تاریخ کے کھنڈرات میں جھانکتے ہوئے میرے سامنے ان شہداء کا خون ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا۔ یہ سوالیہ نشان ازل سے ابد تک کے اس راستے کی فضا میں ٹھہر گیا ہے۔

مجھے ایک سکھ سردار سجن سنگھ (سابق ممبر لیجلیٹو اسمبلی پنجاب) کے وہ الفاظ آج بھی یاد ہی جن میں انہوں نے قیام پاکستان کے دورا ن ہندوؤں کی درندگی کا نشانہ بننے والوں مسلمانوں کا قصہ بیان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا ”جو کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے معتبر دوستوں سے اس ہولناک مظالم کی بابت سنا ہے، اس کی یاد بدن کے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔ مشرقی پنجاب کے لوگوں نے بے گناہ انسانوں اور معصوم بچوں پر اتنے مظالم ڈھائے کہ ان کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انسانوں کو گاجر مولیوں کی طرح کاٹ دیا گیا، بچوں کے والدین کے روبرو برچھیوں اور بھالوں پر چڑھا کر مارا گیا اور زندہ انسانوں کو جلتی آگ میں ڈال کر بھون دیا گیا۔ نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا گیا۔ ایک عورت کے ساتھ دس دس گنڈوں نے رات بھر زنا بالجبر اس شدت سے کیا کہ وہ پاگل ہو گئیں“۔

یہ الفاظ میں جب بھی بڑھتا میرے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ آج جب پاکستان کو اس نہج پہ کھڑا دیکھتا ہوں تو چیخ اٹھتا ہوں کہ کیا پاکستان کے لیے مذکورہ بالا لوگوں کی قربانیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ ستر سال گزر گئے، اس ملک سے نہ کرپشن ختم ہوئی، نہ سود ختم ہوا، نہ دونمبری کا خاتمہ ہوا، نہ زنا اور شرا ب کے اڈے بند ہوئے اور نہ ہی چکلوں میں کوئی کمی آئی۔ کمی آئی تو اتنی ہی کہ جگہ تبدیل ہو گئی۔ پہلے سب کچھ چوری ہوتا تھا اور اب سرعام ہونا شروع گیا۔ کتنا اچھا صلہ دیا ناں ہم نے ا ن آباؤ اجداد کو جنہوں نے یہ ملک ایک اسلامی ریاست کے نام پر سجایا تھا۔ آج جب ستر سال پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں 14 اگست 1947 ء کو کھڑے تھے۔

ہمارا معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو گیا، مادہ پرستی کا زہر ہماری نسوں میں سرایت کر گیا، نظریہ پاکستان اور اسلامی نظریہ محض لفظوں کی جگالی بن کر رہ گیا اور ہم زوال کی جانب گامزن ہیں۔ نہ جانے کب ہم اس فرسودہ نظام سے چھٹکارا پائیں گے جب ہمیں وہ پاکستان نظر آئے گا جس کا خواب دیکھا گیا تھا۔ آج ہم سب کو ماضی کے ان کھنڈرات میں جھانکنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم فیصلہ کر سکیں کہ ہم کہاں سٹینڈ کرتے ہیں۔ یقین جانیں اگر آج بھی ہم نے تاریخ کے ان کھنڈرات میں نہ جھانکا، اگر آج بھی ہم نے ماضی سے سبق نہ سیکھا تو ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).