محترمہ کلثوم نواز کی وفات اور سوشل میڈیا کا اخلاقی انحطاط


گاؤں میں کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ دو قبیلوں کے درمیان شدید دشمنی چل رہی تھی، دونوں طرف کے افراد قتل ہوچکے تھے، کہیں آنا جانا ہوتا تو احتیاطاً دونوں قبائل کے لوگ مسلح ہو کر جاتے لیکن۔۔۔۔ اکثر یہ مناظر بھی دیکھنے کو ملے کہ گاؤں میں فوتگی ہو گئی تو نماز جنازہ میں دونوں قبائل کے افراد نے شرکت کی، گاؤں میں غیر اعلانیہ قانون بن گیا کہ فوتگی کے موقع پر دشمنی والے لوگ جنازہ میں شرکت کرسکتے ہیں، فاتحہ خوانی پر بھی آسکتے ہیں، ایسے موقع پر مفاہمت کی ایسی فضا بن جاتی تھی کہ جنازہ میں ایک دوسرے کے جانی دشمن بغیر اسلحہ کے شریک ہوتے، یہ وہ واحد موقع ہوتا تھا کہ انہیں یہ خوف لاحق نہیں ہوتا تھا کہ ان پر مخالفین حملہ کردیں گے، مزید احتیاط کے طور پر بعض اوقات فوتگی کے موقع پر ایک قبیلہ کی طرف سے باقاعدہ یہ پیغام بھجوا دیا جاتا تھا کہ اگر ہمارا مخالف قبیلہ جنازہ یا فاتحہ خوانی میں شرکت کرنا چاہے تو بے خوف و خطر کرسکتا ہے، پرانا دور تھا، اخلاقی اقدار تھیں اور ان کی پابندی سختی سے کی جاتی تھی۔۔۔۔ خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں تھا کہ قبیلہ کی عزت پر حرف آئے گا اور گاؤں میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس قبیلہ کی اس بداخلاقی کو بطور بری مثال پیش کیا جاتا رہے گا، اس دور میں نہ سوشل میڈیا تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا کے دانشور۔۔۔۔

لیکن آج جبکہ تہذیب و تمدن ترقی کی معراج کو چھو رہا ہے اخلاقی اقدار ہمارے معاشرے سے عنقا ہوتی جا رہی ہیں۔۔۔۔ ایک وہ دور تھا کہ بدترین دشمن کا بھی احترام کیا جاتا تھا، کڑے وقت میں اس کے ساتھ ہمدردی کا رویہ اختیار کیا جاتا تھا، ایک آج کا ترقی یافتہ دور ہے کہ ہم بطور قوم اخلاقی طور پر شدید انحطاط کا شکار ہو چکے ہیں۔

شریف خاندان کے دو افراد کرپشن کیس میں جیل میں چلے گئے، میرا ان سے دور دور تک کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے، نواز شریف کی اہلیہ ان کے جیل جانے سے پہلے علاج کے لئے لندن میں تھیں، لیکن یار لوگوں نے اس موقع پر جس اخلاقی انحطاط اور گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا شاید ماضی میں اس کی مثال نہ مل سکے۔ سیاست اپنی جگہ، سیاسی مخالفت اپنی جگہ، لیکن انسان کو اخلاق سے اس قدر نیچے بھی نہیں گرنا چاہیے جس طرح محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کے حوالے سے کیا گیا۔ اندازہ کیجئے کہ ان کو بیماری اور موت کے بعد بھی معاف نہیں کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر جو زبان استعمال کی گئی مہذب معاشرے میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں بلکہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو شاید کسی جہالت زدہ معاشرے میں بھی اس کی نظیر شاید نہ ملے۔

کبھی ان کی بیماری کو ڈرامہ قرار دیا گیا تو کبھی کہا گیا کہ بیماری پر سیاست چکائی جا رہی ہے، جب فوت ہوئیں تو ایک صاحب نے ان کے جہنم میں ٹھکانے کی پوسٹ لگا کر اپنا دل ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی، لوگ ویسے ہی مذہبی لوگوں کو شدت پسندی اور انتہا پسندی کا طعنہ دیتے ہیں، خود کو جدید تعلیم یافتہ، روشن خیال اور مہذب کہلانے والے مذکورہ پوسٹ کی روشنی میں اپنا عکس ذرا آئینے میں ملاحظہ فرمائیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بری طرح اخلاقی انارکی کا شکار ہے۔ برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے، اخلاقی اقدار ہوا گئی ہیں، چھوٹے اور بڑے کی تمیز ختم ہو چکی، ہم دوسروں کا دل توڑ کر خوشی محسوس کرتے ہیں، ہماری زبان و قلم سے زہریلے نشتر برآمد ہوتے ہیں جو دوسروں کو چھلنی کردیتے ہیں، ایسی حرکتیں کرکے ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔آپس کی محبت اور بھائی چارہ اب کتابی باتیں بن گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا معاشرہ آگے بڑھ سکتا ہے، آگے بڑھنا تو چھوڑیں کیا ایسے معاشرے کی بقا ممکن ہے؟ کاش کہ ہم کچھ سیکھ لیتے اور سمجھ سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).