مجھے کرپشن سے پیار ہے!


کس کس بہانے سے راستے سے نہ روکے گئے تھے؟ صرف ایک مثال عرض کرتا ہوں۔ کسی بھی نیٹ روک کا سو روپے کا ایزی لوڈ کرنے پر پچھتر روپے ملتے تھے۔ وقت بدلا، نواز حکومت آئی اور سو روپے پر اٹھاسی روپے ملنے لگے۔ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں سے حاصل ہونے والا ٹیکس بھی کسی ملک کے ذرائع آمدن میں سے ایک اہم ذریعہ ہے۔ انہی دنوں طاقت وروں کی نواز حکومت سے بگڑ گئی۔ حکومت کو گرانے کے لیے دو کزن میدان میں اتارے گئے۔ ایک کزن میدان سے جاتا تو دوسرا میدان میں اتار دیا جاتا اور کبھی سین کو مزید پر کشش بنانے کے لیے اکٹھا کر دیا جاتا۔

احتجاج سے حکومت نہ گر سکی تو کئی دوسرے ذرائع آزمائے گئے جن میں ایک حکومت کی معاشی ناکا بندی بھی شامل تھا۔ ایزی لوڈ کا ذکر میں اسی ضمن میں کر رہا ہوں۔ مہم چلوائی گئی کہ سو روپے کے لوڈ پر سو روپیا دیا جائے۔ سو نوٹس لیا گیا اور عوام کو سو روپے لوڈ کرنے پر سو روپے پورے ملنے لگے۔ یوں حکومت پاکستان کو اگر ٹیکس کی مد میں کچھ رقم ملتی تھی تو وہ بھی رکوا دی گئی، اس کے علاوہ کئی بھی حکومت کے بنائے گئے کئی منصوبے جہاں سے آمدن متوقع تھی، لے لیے گئے تاکہ حکومت طاقتوروں کے آگے گھٹنے ٹیک دے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔

یہ صرف ایک مثال ہے۔ بات کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کہاں کہاں راستہ نہ روکا گیا لیکن اس کے باوجود ملک ترقی کرتا رہا، سڑکیں بنتی رہیں، موٹرویز بھی پھلتے پھولتے رہے، بجلی کا بحران بھی حل ہو گیا، گیس کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ بھی ختم ہو گیا، پرانی تاریں بھی تبدیل کر دی گئیں، ندی نالوں سے امڈتے سیلابوں کے آگے بند بھی باندھ دیے گئے، ضرب عضب کے لیے سرمایہ بھی مہیا کر دیا گیا، سی پیک کا نہ صرف افتتاح ہو گیا بلکہ وہ گھوڑے کی رفتار سے دوڑنے لگا، پاکستان امریکی غلامی کی نکل کر چائنا اور روس کی مزید قربت میں بھی آ گیا، ملک سے بم دھماکے بھی ختم ہو گئے، اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں نہ صرف رک گئیں بلکہ بہت سی چیزیں سستی بھی ہو گئیں، بجلی کی پروڈکشن کو فرنس آئل سے سستے ذرائع پر منتقل کر کے نہ صرف اسے بلکہ گیس کی ترسیل اور ضیاع کو روک کر اسے بھی سستا کر دیا گیا، تعلیم، صحت اور پولیس سمیت متعدد محکموں میں نہ صرف بہتری لائی گئی بلکہ ان میں بھرتی کی ذریعے افرادی قوت کی کمی کو بھی پورا کیا گیا، لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے گئے، زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھتے رہے، شرح نمو بھی بالائی سیڑھیاں چڑھتی رہی، مشرف دور سے فنڈ کی کمی سے سنگ بیاد کی سطح پر رکے گئے ڈیموں کے لیے نہ صرف فنڈ مہیا کیے گئے بلکہ ان کے لیے زمین خرید کر ان پر کام بھی شروع کر دیا گیا، کئی سالوں سے ”سسکتا“ نیا ائر پورٹ بھی بن گیا، کئی شہروں میں میٹرو بنا کر شہریوں کے لیے سستے اور باوقار سفر کی فراہمی یقینی بنائی گئی، ہسپتالوں میں دوائیں اور ٹیسٹ مفت کر دیے گئے، قطر سے سستی ترین ایل این جی کا معاہدہ بھی ہو گیا، پٹرولیم مصنوعات بھی دن بدن سستی ہوتی رہیں، ملکی تاریخ کا کم ترین قرضہ لیا گیا، کئی سالوں سے رکے پے سکیل نہ صرف ریوائز ہوتے رہے بلکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی بڑھتی رہیں، بیرونی اور اندرونی قرضوں کا حجم بھی کم ہوتا رہا، اور حکومتی سطح پر پانچ سالوں میں ایک بھی سکینڈل بریک نہ ہو سکا لیکن نواز شریف کرپٹ رہا کیونکہ دلہن وہی ہے جو ”پیا من“ بھائے اور ”پیامن“ تو ناراض تھے۔

وقت بدلا، عمران حکومت معرض وجود میں آئی، پاکستان سے کرپشن کا روزانہ باہر جانے والا تین چار ہزار ارب روپیا بھی روک دیا گیا، بجلی، گیس اور دہشت گردی جیسے جن پر بھی قابو پایا جا چکا تھا لہذا اس ضمن میں بھی اچھی خاصی بچت ہو رہی ہے، تنخواہیں نہ بڑھا کر بھی پیسا بچا لیا گیا، کسی کے سوموٹو نوٹس کا ڈر بھی نہیں ہے، پیج بھی دو بجائے ایک ہے، ملک میں دھرنا دینے والے لعل پیاروں کی کوئی جوڑی بھی نہیں ہے، کوئی موٹر وے اور میٹرو بھی نہیں بن رہی، بیرونی قرضہ پچھلے ستر سالوں سے دوگنا ہو گیا ہے، اب کسی کرپٹ کی حکومت بھی نہیں ہے، اشیائے ضروریہ مہنگا کر کے کھربوں روپیا بھی عوام کی جیبوں سے نکال لیا گیا ہے، ہسپتالوں میں غریبوں کے مفت علاج معالجے، ٹیسٹ اور دواؤں کی مد میں ضائع ہونے والی رقم بھی بچا لی گئی ہے، چینی، آٹا اور گھی جیسی اشیائے خورد و نوش کی چیزیں تین چار سو فیصد مہنگی کر کے بہت سا پیسا کمایا جا چکا ہے، ٹیکس در ٹیکس لگا کر بھی عوام کی جیبوں سے خوب پیسا نکالا گیا ہے، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں گھڑی کی سوئی کی رفتار سے بڑھ رہی ہیں اور اس صورت میں بھی ملکی خزانہ بھر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم صاحب وقتاً فوقتاً اپنی پیاری عوام کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ اس مہینے ریکارڈ ریونیو اکٹھا ہو گیا ہے۔

سوال لیکن پھر بھی یہی ہے کہ اگر واقعی اتنا پیسا اکٹھا ہو رہا ہے تو جا کہاں رہا ہے؟ عوام شہباز گل اور باقی صادقوں اور امینوں کے دیے گئے اعداد و شمار پڑھ کر اور سن کر یہ پہلے نہیں تو اب یہ ضرور سوچتی ہے کہ یہ کیسے دیانتدار ہیں جو ہم سے سب کچھ چھین کر بھی دیانتدار ہیں اور کہ وہ کیسا کرپٹ تھا جو ملک اور عوام کو اتنا کچھ دے گیا؟ مہنگائی، غربت و افلاس اور بیروزگاری کی چکی میں پستے عوام پھر اس کرپشن کو کیوں یاد نہ کریں اور اس دیانتداری سے پناہ کیوں مانگیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments