پاکستان میں ایلیٹ خاندان کیسے اجارہ دار بنے؟


وزیر اعظم عمران خان نے بہ روز منگل اسلام آباد میں سہگل خاندان کے تحت منعقدہ تقریب میں تاریخی جملہ کہا: جب رولنگ کلاس چوری کرنے لگے تو ملک تباہ ہوجاتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی یہ کلاس یعنی حکمران طبقہ کیسے وجود پذیر ہوا اور اس کا ارتقاء کیسے ممکن ہوا۔ پاکستان میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ارتقاء کے نتیجے میں جو بالاتر طبقات اشرافیہ کی صورت میں پیدا ہوئے ہیں ان کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں پانچ بڑے تاریخ واقعات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔

یہ تاریخی واقعات نوآبادیاتی عہد سے جنم لینے والی ایلیٹ کلاس کی گروہ بندی کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہیں۔ اس میں مذکورہ واقعات کلیدی اہمیت رکھتے ہیں : اینگلو انڈین جنگیں ( 1765۔ 1857 ) ، تقسیم ہند ( 1947 ) ، سقوط ڈھاکہ ( 1971 ) ، اور صنعتوں کو نیشنلائزڈ کرنے کی پالیسی ( 1972 ) ۔ ان تمام واقعات نے یہاں کی سیاسی و اقتصادی سمت کو یکسر تبدیل کر دیا جس سے قومی سطح پر تباہی ہوئی اور بعض خاندانوں کی سیاسی و اقتصادی طاقت مستحکم ہوئی، امیر زادوں کے نئے گروہ تشکیل ہوئے، ان خاندانوں نے اپنی دولت و طاقت، مضبوط سیاسی نیٹ ورک کی بنیاد پر قومی اقتصادی پالیسیوں پر اثر ڈالا۔ قومی سطح پر پیدا ہونے والے مختلف بحرانوں میں ان خاندانوں نے بہت کچھ گنوایا، تاہم مضبوط سماجی جڑیں اور نیٹ ورک کی بنیاد پر یہ اپنی تعمیر نو کرنے میں کامیاب رہے۔

پاکستان کی کاروباری اشرافیہ کا پہلا گروہ ملک کی تشکیل سے قبل ابھر کر سامنے آیا، اور ان کا معاشی عروج برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی معاونت سے ہوا۔ یہاں کے تاجروں نے برطانوی فوج کی خدمات کے کنٹریکٹس حاصل کیے، سن ستاون کی جنگ آزادی، پہلی اور دوسری عالمی جنگ بھی اس اشرافیہ کی گروتھ میں معاون بنی۔ برطانوی سرکار کی فوجی ضروریات کو یہاں کے تاجروں اور بینکاروں نے پورا کیا اور خوب منافع کمایا بالکل ویسے ہی جیسے بنگال کے جگت سیٹھ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی مالی ضروریات پوری کی تھیں۔ پاکستان کی نام ور کاروباری شخصیت سید بابر علی کا خاندان انھی میں سے ایک تھا۔ بہت سے دوسرے بڑے کاروباری خاندان بھی برٹش ایمپائر کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے تھے، ملک کی بانی شخصیات کے معاشی و سماجی رشتے اس گٹھ جوڑ کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔

نوآبادیاتی عہد کے خاتمہ یا تقسیم ہند کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جناح صاحب نے تحریک آزادی کے لیے درکار سرمایہ کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مسلم تاجر برادری میں سے سیاسی حامیوں اور فنانشل حامیوں کا مربوط گروپ بنانے کی کوشش کی۔ مسلم لیگ نے نئی ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے سرمایہ داروں کی تلاش شروع کر دی تھی۔ چنانچہ جناح صاحب نے 30 ء کی دہائی میں بہ طور وکیل اور بعد ازاں مسلم لیگ کے لیڈر کی حیثیت سے اپنے سماجی حلقوں میں جو تعلقات استوار کیے تھے انھیں بروئے کار لایا۔ ریاست گجرات کے سرمایہ داروں کے ساتھ جناح صاحب کا تعلق، اردو زبان بولنے والے ایلیٹ طبقات کے اندر ذاتی مقبولیت سے تحریک پاکستان کو سرمایہ فراہم کرنے کے لیے آمادہ کیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ جناح صاحب کی جانب سے نئی ریاست پاکستان میں کاروباری سرمایہ کاری کی حفاظت کی یقین دہانی کرانے پر یہ سرمایہ دار پاکستان منتقل ہونے پر آمادہ ہوئے۔ یہ سرمایہ داروں اپنے کاروبار کو داؤ پر لگا کر، جناح صاحب کی ضمانت پر اپنے خاندان سمیت پاکستان منتقل ہونے پر رضا مند ہوئے۔ جناح صاحب کے گجراتی کاروباری خاندان آدم جی داؤد کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے، ان دونوں کی پہلی ملاقات 1928 ء میں ہوئی جب جناح صاحب ایک بیرسٹر اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ ہندستان میں مسلم مفادات کی نمائندگی کے لیے قائم خیراتی مسلم اینڈومنٹ یعنی وقف املاک پر مجوزہ ٹیکس کے خلاف آدم جی نے جناح صاحب کو بہ طور وکیل ہائیر کیا۔ جناح صاحب یہ کیس جیت گئے اور مسلمانوں کے خیراتی اداروں پر برٹش سرکار نے ٹیکس ختم کر دیا، یہ مقدمہ اس تعلق کو تقویت دینے کی بنیاد بنا۔

ایک وکیل کی حیثیت سے مہارت اور مسلم کیمونٹی کی خدمت کے عزم پر، آدم جی جناح صاحب کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے جبکہ جناح صاحب کو، بہ طور بزنس مین اپنی صلاحیت کے لحاظ سے اور معاشی طور پر طاقتور گجراتی برادری میں سے سیاسی حمایت پیدا کرنے کی صلاحیت کے لحاظ سے آدم جی پر بہت زیادہ اعتماد تھا۔ چنانچہ جناح صاحب نے ذاتی طور پر داؤد کو 1936 ء میں مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کا ممبر نامزد کیا اور کئی مواقع پر تحریک پاکستان سے متعلقہ مہمات کے لیے کلکتہ مسلم چیمبر آف کامرس سے فنڈ اکٹھا کرنے میں آدم جی کی مدد حاصل کی۔

گجرات کے کاروباری خاندانوں اور تاجروں کے ساتھ، آدم جی نے جناح صاحب کے لیے منعقدہ کئی تقریبات کی میزبانی کی اور اس مہم میں میمن، بوہرہ، کھوجا کمیونٹیز سے سیاسی حمایت حاصل کی گئی اور آدم جی نے لیگی ممبران کو برٹش سرکار سے متعارف کرایا اور آزاد مسلم ریاست کے لیے سرمایہ داروں و تاجر برادری میں راہ ہموار کرنے میں آدم جی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ گویا داؤد نئی ریاست کے سب سے بڑے صنعت کاروں میں بہ طور ایک صنعت کار اپنی پوزیشن پہلے ہی مستحکم کر چکے تھے۔

تقسیم ہند کے بعد جب پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تو ان سرمایہ دار خاندانوں کو ملک میں آبادکاری کے لیے سہولیات فراہم کی گئیں اور جناح صاحب نے انھیں پاکستان منتقل ہونے پر آمادہ کیا۔ چنانچہ دہلی اور بمبئی کے سینئر سول سرونٹس، امیر مسلمان تاجروں کی پاکستان منتقلی کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی، ان خاندانوں کو مہاجرین قرار دیا گیا جس کے بعد اشرافیہ تارکین وطن کو پاکستان میں جائیدادیں دینے کا بندوبست کیا گیا تاکہ ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جاسکے۔ پاکستان منتقل ہونے والی بیوروکریسی کے ساتھ ان اشرافیہ خاندان کے قریبی تعلقات ہونے کی بناء پر انھیں یہاں زمینیں الاٹ کی گئیں۔ پاکستان ہجرت کرنے والے ان اشرافیہ خاندانوں کو وقف بورڈ کے ذریعے سے لاہور اور کراچی میں بڑی بڑی جائیدادیں فراہم کی گئیں۔

جس خطہ میں پاکستان بنایا گیا یہ صنعتی طور پر پسماندہ علاقہ تھا، گویا جناح صاحب کی حکومت نے پاکستان میں صنعتوں کی نمو کو تیز کرنے کے لیے گجرات اور دیگر ہندستانی شہروں سے آنے والے انھی تاجروں کو بڑے پیمانے پر عوامی مالی اعانت پر مبنی قرضے، گرانٹس اور ٹیکس کی چھوٹ دی اور پاکستان میں اشرافیہ کی گرفت کو مضبوط کرنے کی بنیاد رکھی، ان میں کلکتہ کے سہگل، بمبئی کے ولیکا، کھوجا اسماعیلی، سید خاندان، ہوتی اور بمبئی کے بورا خاندان سرفہرست ہیں۔

مسلم لیگ کی لیڈر شپ بالخصوص جناح صاحب کے ساتھ مستحکم تعلقات رکھنے والوں کو ریاست پاکستان میں اہم سیاسی عہدوں پر بہ طور مشیر، وزیر اور صنعتی عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ اصفہانی برادرز، جناح صاحب کی درخواست پر مشرقی پاکستان منتقل ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد انھوں نے اورینٹ ائیرویز قائم کی، جب اس کمپنی کو 1955 ء میں نیشنلائزڈ کیا گیا تو نئی ریاستی ائر لائن میں اصفہانی برادرز کو پہلا چیئرمین تعینات کیا گیا۔

محمد علی حبیب بھی جناح صاحب کے ذاتی دوست تھے جنھوں نے جناح صاحب کی ایماء پر مسلمانوں کے لیے بمبئی میں 1941 ء میں حبیب بینک قائم کیا وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہوئے۔ بمبئی کے ایک اور ممتاز کاروباری فرد حبیب ابراہیم بھی پاکستان منتقل ہوئے اور جناح صاحب سے قریبی تعلق کی بنا پر انھیں 1947 ء میں برطانیہ کا ہائی کمشنر تعینات کیا گیا اور بعد ازاں انھیں گورنر سندھ تعینات کیا گیا۔ پاکستان منتقل ہونے والی اس ایلیٹ مہاجر کیمونٹی کو ریاست میں بالاتر طبقہ کے طور پر سہولیات فراہم کی گئیں، پاکستان منتقل ہونے والے 16 صنعتی خاندانوں میں صرف تین خاندان پہلے سے ہی یہاں آباد تھے۔

سن پچاس کی دہائی میں ریاست نے پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے ذریعے سے قرضے اور فنڈز ان سرمایہ داروں میں تقسیم کیے، چنانچہ بیوروکریسی اور اشرافیہ کے گٹھ جوڑ نے پی آئی ڈی سی اور پاکستان انڈسٹریل فنانس کارپوریشن کے تحت فنڈز حاصل کر کے بڑے صنعت کار کے طور پر ابھرے۔ گویا اس دہائی میں پاکستان میں صنعتی ترقی ہوئی لیکن جی ڈی پی میں قابل ذکر اضافہ نہ ہوسکا کیونکہ 1959 ء تک قائم شدہ تین ہزار صنعتی یونٹ صرف سات خاندانوں کے کنٹرول میں تھے اور صنعتی اثاثہ جات بھی انھی خاندانوں کی زیر ملکیت تھے۔

پاکستان کے مارشل لاء ادوار میں پنجاب اور سندھ کے جاگیرداروں اور وڈیروں کو صنعتی طبقہ میں شامل کرنے کے لیے سہولیات فراہم کی گئیں، جنرل ایوب نے اس کی ابتداء کی جس کے بعد جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے ملک کے صنعت کار طبقات کو مزید طاقت ور بنا دیا۔ صرف یہی نہیں ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں صنعتی طبقات کو نیشنلائزیشن کی پالیسی سے زد پہنچائی گئی لیکن اس کے اثرات دور رس نہیں رہے بلکہ ضیاء کے دور میں انھیں دوبارہ طاقت فراہم کر دی گئی اور ریاستی سطح پر ان طبقات کو قرضے اور مالی امداد مہیا کی گئی اور صنعتی طبقات کی طاقت کا مرکز کراچی سے پنجاب میں منتقل کر دیا گیا۔

پاکستان کے حکمران طبقات سرمایہ داروں، فوجی، بیوروکریٹک اور سیاسی ایلیٹ کے نمائندہ ہیں، قوم کی پوری تاریخ گواہ ہے، اشرافیہ کو مفادات کو تحفظ فراہم کرنا اور خاندانوں کو تحفظ فراہم کر کے اشرافیہ کی بالادستی کو قائم رکھا جاتا ہے یہی اشرافیہ برطانیہ، مشرق وسطیٰ اور امریکا کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ملک کے پالیسی ساز اداروں کو کنٹرول کرتی ہے جس کی بنیاد جناح صاحب کے دور میں رکھی گئی تھی۔ جس رولنگ کلاس کی بات وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہی، اسی طبقے کے ساتھ مل کر تحریک انصاف نے اپنی حکومت بنائی جنھیں وہ خود ایلیکٹ ایبلز کہتے ہیں، یہ ایلیکٹ ایبلز انھی حکمران طبقات کے سانجھے دار یا مفادات کے نگہبان ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments