مسلمان خواتین کو ریپ کی دھمکیاں اور آن لائن ’بولی‘ کے واقعات، پولیس نے اب تک کیا کیا ہے؟

کیرتی دوبے - نامہ نگار بی بی سی


انڈیا میں گذشتہ تین ماہ میں ایسے تین بڑے واقعات پیش آئے ہیں جن میں مسلمان خواتین کو نہ صرف کھلے عام ریپ کی دھمکیاں دی گئیں بلکہ سوشل میڈیا پر دوسرے لوگوں سے بھی ایسا کرنے کو کہا گیا۔

ایک یوٹیوب چینل پر مسلمان خواتین کی ویڈیو چلا کر نازیبا تبصرے کیے گئے اور مسلمان خواتین کو نشانہ بنانے کی بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک پورا پلیٹ فارم بنا کر ان کی ‘بولی’ لگائی گئی جس کا نام ’سُلی ایپ ڈیل‘ رکھا گیا۔

آج ہم مئی اور جولائی کے درمیان ہونے والے تین ایسے ہی معاملات کے بارے میں بات کریں گے اور پتہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ ان مقدمات کی تحقیقات میں اب تک کیا ہوا ہے؟

پہلا کیس: لائیو ویڈیو میں مسلمان خواتین کے خلاف کیے جانے والے نازیبا تبصرے

13 مئی 2021، جمعرات۔ اس دن’لبرل ڈوجی’ نامی چینل نے یوٹیوب پر لائیو سٹریم کی جس میں مسلمان لڑکیوں خاص طور پر پاکستان کی لڑکیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ویڈیوز لے کر انتہائی نازیبا تبصرے کیے گئے۔ جب ٹوئٹر پر خواتین نے اس ویڈیو سٹریمنگ کے خلاف لکھنا شروع کیا اور اس کی رپورٹ کرنے کی درخواست کی تو لائیو ویڈیو کی سیٹِنگ کو پرائیویٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔

لائیو سٹریمنگ میں عید کے موقع پر تیار اور سجی دھجی مسلمان خواتین کی ویڈیوز کو دکھاتے ہوئے ان کے جسمانی خدوخال اور کپڑوں پر انتہائی فحش تبصرے کیے جا رہے تھے اور ان کی ریٹنگ کی جا رہی تھی کہ دس میں سے کس کو کتنے نمبر ملنے چاہییں۔

89،000 سبسکرائبرز والا یہ یوٹیوب چینل اب بند ہو چکا ہے لیکن اس چینل کو چلانے کا الزام 23 سالہ رتیش جھا پر ہے۔ بی بی سی نے کئی بار رتیش جھا سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

پولیس تفتیش: رتیش جھا کے خلاف شکایت پر ایف آئی آر نہیں درج کی گئی

رتیش جھا کی کئی فیس بک اور واٹس ایپ چیٹس گزشتہ سال 2020 میں سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی تھیں جس میں وہ بتا رہے تھے کہ کس طرح مسلمان لڑکیوں کا ریپ کیا جائے اور ایم ایم ایس بنائے جائیں۔ اس فیس بک چیٹ میں رتیش نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نے اب تک کئی مسلمان خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا ہے اور اس کا ایم ایم ایس بنا کر پھیلایا۔

بی بی سی نے اس شخص سے رابطہ کیا جس کے ساتھ رتیش جھا نے چیٹ میں یہ باتیں کی تھیں۔ اندرا پورم کے رہنے والے ابھیمنیو سنگھ نے بی بی سی کے ساتھ ان تمام پیغامات کو شیئر کیا ہے۔

ابھیمنیو نے بی بی سی کو بتایا ‘یہ اپریل 2020 کی بات ہے ایک مسلمان خاتون کے بارے میں ایک غیر مہذب فیس بک پوسٹ پر میں نے تبصرہ کیا تھا، جس کے بعد مجھے رتیش جھا کا پیغام ملا اور اس نے کہا کہ مجھے مسلم خواتین سے ہمدردی کیوں ہے اور اس نے مجھے بھی گالیاں دیں۔ لیکن میں نے سوچا کہ یہ ضروری ہے کہ میں اس سے بات کروں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کے ذہن میں کیا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس نے سب کچھ بتانا شروع کر دیا’۔

اس کے بعد 23 اپریل 2020 کو ابھیمنیو سنگھ نے سائبر سیل کی ویب سائٹ پر رتیش جھا کے خلاف شکایت درج کروائی جس میں گفتگو کے سکرین شاٹس بھی بطور ثبوت دیے گئے۔

ابھیمنیو غازی آباد کے اندرا پورم علاقہ کے رہائشی ہیں اس لیے یہ معاملہ اندرا پورم پولیس سٹیشن کے تحت آتا ہے لیکن ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس معاملے میں شکایت پر ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔

جب بی بی سی نے سائبر پورٹل پر اس کیس کی حیثیت معلوم کی تو پتہ چلا کہ اندرا پورم پولیس نے یہ کہہ کر کیس بند کر دیا ہے کہ ‘درخواست گزار کو کوئی مسئلہ نہیں ہے’۔

لیکن ابھیمنیو نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے ان سے بات نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے یہ کیس بند کرنے کے لیے کہا۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں تحقیقات کی جائیں۔

بی بی سی نے اندرا پورم کے سرکل آفسر سے بات کی اور جاننا چاہا کہ اس معاملے میں اب تک کیا ہوا ہے، تو اس کے جواب میں ہمیں بتایا گیا کہ ‘جس شخص نے یہ مقدمہ درج کرایا ہے اس سے کہیں کے تھانے آئے تو ہم معلومات دے سکیں گے’۔

یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا گیا۔

ابھیمنیو کے مطابق شکایت درج کرنے کے دس پندرہ دن بعد اندرا پورم پولیس سٹیشن سے ان کے لیے فون آیا جس میں پرشانت نامی پولیس کانسٹیبل نے ان سے بات کی اور پوچھا کہ کیا وہ اس معاملے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں لیکن ابھیمنیو کے ہاں کہنے کے بعد بھی کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی۔

جب بی بی سی نے اندرا پورم پولیس سٹیشن میں تعینات کانسٹیبل پرشانت سے بات کی تو انہوں نے کہا ‘ہم نے معاملہ چوکی تک بڑھایا تھا جہاں رپورٹ لگا کر معاملہ غازی آباد سائبر سیل کو بھیج دیا گیا۔ یہ رپورٹ جولائی 2020 میں واپس سائبر سیل آئی اور پتہ چلا کہ فیس بک نے ہمیں درخواست گزار کے فراہم کردہ یو آر ایل کے بارے میں معلومات نہیں دی ہیں۔ جب فیس بک نے معلومات نہیں دیں تو یہ معاملہ بند ہو گیا۔ ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم نے آن لائن معلومات میں شکایت بند کرنے کی غلط وجہ لکھ دی’۔

لیکن کیا پولیس نے درخواست گزار کو کیس بند کرنے سے پہلے ایک بار بھی مطلع کیا تھا یا پولیس نے شکایت میں نامزد رتیش جھا سے ایک بار بھی پوچھ گچھ کی تھی؟ اگر نہیں تو ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ پرشانت اس سوال پر خاموش ہو گئے، پھر ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے آپ کو وہ معلومات دی ہیں جو ہمارے پاس تھیں’۔

بی بی سی کو سال 2020 کے کچھ آڈیو کلپس بھی موصول ہوئے ہیں جن میں رتیش جھا خود اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ ’رتیش سپیکس‘ اور ’لبرل مولانا‘ کے نام سے یوٹیوب چینل چلاتے ہیں۔

اس آڈیو کلپ میں رتیش کہہ رہے ہیں ‘میں اپنے چینل پر اپنی آواز بدل کر مولانا بن جاتا ہوں اور لوگ اسے بہت پسند کرتے ہیں’۔

’لبرل مولانا‘ وہی یوٹیوب چینل ہے جس کا نام بدل کر ’لبرل ڈوجی‘ رکھ دیا گیا۔ اور اس اکاؤنٹ کے ذریعے 13 مئی کو عید کے موقع پر مسلمان خواتین کی ایک ویڈیو کو قابل اعتراض انداز میں لائیو سٹریم کیا گیا تھا۔

14 مئی 2020 کو سیف عالم نامی وکیل نے ممبئی کی سائبر کرائم برانچ میں رتیش جھا اور لبرل ڈوجی یوٹیوب چینل کے خلاف شکایت درج کرائی تھی لیکن اب تک اس معاملے میں بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

بی بی سی نے ممبئی پولیس کے پی آر او ڈی سی پی چیتنیا سے بات کی اور جاننا چاہا کہ اس معاملے میں اب تک کیا ہوا ہے جس پر انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

دوسرا معاملہ: سُلی ایپ ڈیل، ایف آئی آر درج لیکن ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی

5 جولائی 2021، اتوار کا دن تھا جب ملک کی بہت سی مسلمان خواتین کو معلوم ہوا کہ ان کی تصویر اور نام کے ساتھ ان کی ‘بولی’ لگائی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ ‘سُلی ڈیلز’ نامی ایپ پر ہو رہا تھا۔

یاد رہے کہ ’سُلی‘ ایک توہین آمیز اصطلاح ہے جو انڈیا میں مسلمان خواتین کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

اس ایپ پر ٹوئٹر کا ڈیٹا بیس استعمال کیا گیا اور 83 مسلم خواتین کی تصاویر اور ان کے نام استعمال کیے جا رہے تھے۔ ان میں سے اکثر ان خواتین کو نشانہ بنایا گیا جو ٹوئٹر پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔

یہ ایپ اوپن سورس پلیٹ فارم ‘گِٹ ہب‘ پر بنائی گئی تھی لیکن جیسے ہی اس بارے میں ہنگامہ شروع ہوا ایڈمن نے اس ایپ کو ڈیلیٹ کر دیا۔

کیوں کہ ’گِٹ ہب‘ پلیٹ فارم ایک اوپن سورس پلیٹ فارم ہے اس لیے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس ایپ کے پیچھے کون ہے۔

29 جولائی کو پارلیمان کے اجلاس کے دوران راجیہ سبھا میں رکن اسمبلی عبدالوہاب کے سوال کے جواب میں خواتین اور بچوں کی بہبود کی وزارت نے کہا کہ ‘وزارت داخلہ کی جانب سے شیئر کی گئی معلومات کے مطابق دہلی پولیس نے سُلی ڈیلز کیس میں ایف آئی آر درج کی ہے’۔

تاہم ابھی تک اس معاملے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

پولیس تفتیش: ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی

بی بی سی نے دہلی پولیس کے پی آر او، ڈی سی پی چنمے بسلواہ سے بات کی جس میں انہوں نے ہم سے چند گھنٹوں کا وقت مانگا تھا لیکن آج تک ہمیں دہلی پولیس کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ہم نے دہلی سائبر پولیس کے ڈی سی پی انیش رائے سے سلی ڈیل ایپ کے معاملے کی تحقیقات کے بارے میں بھی معلومات طلب کی ہیں، لیکن ہمیں ان سے بھی ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’اپنی تصویر کے ساتھ ’برائے فروخت‘ لکھا دیکھ کر میں پریشان ہو گئی‘

خواتین محفوظ نہیں کیونکہ ’مرد سمجھتے ہیں کہ سڑکیں ان کی جاگیر ہیں‘

کشمیر: سکھ لڑکیوں کی ‘جبری تبدیلی مذہب اور شادی’ میں حقیقت کیا اور فسانہ کیا

آسام کے وزیراعلیٰ کی مسلمانوں میں زیادہ بچوں کی پیدائش سے متعلق دعووں کی حقیقت

اس معاملے کو ایک ماہ ہوچکا ہے اور ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ دلی سائبر پولیس کو تفتیش میں کیا معلوم ہوا ہے۔

اس ایپ کے حوالے سے حنا محسن خان کی جانب سے ایک کیس بھی دائر کیا گیا تھا۔ حنا ان خواتین میں سے ہیں جن کی تصویر اور نام اس ایپ پر استعمال کیا گیا تھا۔ یہ ایف آئی آر نوئیڈا سیکٹر 24 میں درج کی گئی ہے۔ ہم نے نوئیڈا سیکٹر 24 پولیس سٹیشن کو کئی فون کیے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

اس کے بعد ہم نے اس بارے میں حنا سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ آج تک پولیس کو اس معاملے میں کچھ نہیں ملا۔ ہماری ان سے بات سے پہلے اس بارے میں انہوں نے صرف چار دن پہلے سٹیشن انچارج سے بات کی تھی۔ انہیں بتایا گیا کہ اب تک پولیس کو کوئی ٹھوس معلومات نہیں ملی ہیں۔

تیسرا کیس: مسلم خواتین کو ریپ کرنے اور ریپ کروانے کی دھمکیاں، لڑکیوں کے نمبر شیئر کیے گئے

11 جولائی کو انسٹاگرام پر شیئر کی گئی ایک پوسٹ کا سکرین شاٹ منظر عام پر آیا۔ کنال شرما نامی شخص نے انسٹاگرام پر لکھا ‘مسلمان لڑکیوں سے شادی کریں، ان کو سرکاری پراپرٹی سمجھیں اور انہیں خود استعمال کریں، خود بھی لطف اٹھائیں اور دوسروں کو بھی مزے لینے دیں’۔

اس کے علاوہ اس اکاؤنٹ نے چیٹ میں 10 مسلمان لڑکیوں کے فون نمبر بھی شیئر کیے۔ بی بی سی نے اس فہرست میں شامل دو لڑکیوں سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن ان لڑکیوں نے کہا کہ ‘والدین نہیں چاہتے کہ ہم اس بارے میں کسی سے بات کریں اس لیے ہم آپ کو تفصیل نہیں بتا سکتے’۔

ایسی دو پوسٹس کے سکرین شاٹس شیئر کرتے ہوئے لوگوں نے سوشل میڈیا پر کنال شرما کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ 2 اگست کو دلی کمیشن برائے خواتین نے سوشل میڈیا پر گرفتاری کے مطالبے کا نوٹس لیا اور اس معاملے میں دلی پولیس کو ایک خط لکھا۔

تاہم جب بی بی سی نے دلی پولیس کے پی آر او ڈی سی پی ببسلواہ سے پوچھا کہ کیا اس معاملے میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے تو ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ کنال شرما نامی اس شخص کا تعلق دلی سے ہے اور اس کی عمر 18 سال ہے۔

اگر تحقیقات سے مطمئن نہیں تو قانونی طریقہ کیا ہے؟

اگر کوئی پولیس کی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہے تو وہ کیا کر سکتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے سپریم کورٹ کی سینئر وکیل کرونا نندی سے بات کی۔

کرونا نندی کا کہنا ہے کہ ‘اگر کسی متاثرہ شخص کو لگتا ہے کہ پولیس اس کے معاملے کی ٹھیک طرح سے تفتیش نہیں کر رہی تو وہ ڈی سی پی کو خط لکھ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ آئی پی سی کی دفعہ 156 کے تحت مجسٹریٹ کے پاس جانے کا آپشن بھی موجود ہے۔ اگر مجسٹریٹ کو لگتا ہے کہ پولیس کی تفتیش میں کمی ہے یا وہ تفتیش سے مطمئن نہیں ہے تو مجسٹریٹ پولیس کو تحقیقات کا حکم دے سکتا ہے اور تفتیش کی نگرانی بھی کر سکتا ہے۔ تحقیقات مکمل ہونے پر پولیس کو تاخیر کے بغیر چارج شیٹ داخل کرنی ہوگی۔‘

تیسرے آپشن کا حوالہ دیتے ہوئے کرونا نندی کا کہنا ہے کہ ‘اگر متاثرہ شخص کے پاس ملزم کے خلاف کافی ثبوت ہیں اور اس کے پاس وکیل ہے تو وہ نجی شکایت کر سکتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ متاثرہ شخص سیدھا عدالت جا سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ مجھے پولیس تفتیش کی ضرورت نہیں میرے پاس کافی ثبوت ہیں اور میں کیس کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔‘

سائبر پولیس کے لیے آن لائن ہونے والے جرائم کو ٹریک کرنا اتنا مشکل کیوں ہے؟

اس سوال کے جواب میں نندی کہتی ہیں ‘یہ کہنا کسی حد تک درست ہے کہ ہماری سائبر پولیس کو مجرموں کا سراغ لگانے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اگر آن لائن جرائم کرنے والا شخص وی پی این کا استعمال کر رہا ہے تو وہ یہاں بیٹھے بیٹھے ناروے کا سرور استعمال کرے گا، اب ناروے پولیس کے ساتھ ہماری پولیس کا رابطہ کرنا آسان نہیں ہے یہ بہت پیچیدہ عمل ہے۔‘

ٹیکنالوجی کے مسائل بھی ہیں۔ مثال کے طور پر مندر مارگ پولیس سٹیشن میں ایک خاتون اے سی پی ہوا کرتی تھیں جن سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ خود ایک انجینئر تھیں لیکن انہوں نے مجھے اس طرح کے ٹریسنگ میں ہونے والی پریشانی کے بارے میں بھی بتایا۔ کچھ معاملات میں ٹریک نہ کر پانے کی بات بھی درست ہے۔

لیکن وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ سب سے اہم بات ان جرائم کی اطلاع دینا ہے۔ اگر کوئی متاثرہ تفتیش سے مطمئن نہیں ہے تو وہ ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کر سکتا ہے اور مناسب انکوائری کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

نندی کا کہنا ہے کہ ‘باہر نکلنا اور شکایت کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ شکایت نہیں کرتے ہیں تو آپ ہراساں کرنے والے کو صرف مضبوط کریں گے۔ جو شخص آج آن لائن چھوٹے چھوٹے جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے وہ شکایت درج نہ ہونے کی وجہ سے کل مزید بڑے جرائم کا ارتکاب کرے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp