زینب اور بنی اسرائیل


زینب کے قتل جیسا بھیانک تو نہیں مگر کچھ ایسا ہی گھمبیر معاملہ اس وقت پیش آیا جب سیدنا موسی علیہ سلام بنی اسرائیل کو لے کر یروشلم آگئے۔ ہوا یوں تھا کہ ایک شخص بنی اسرائیل میں قتل ہوگیا تھا۔ گواہی معدوم تھی۔ مشتبہ افراد ایک دوسرے پر الزام لگاتے تھے۔ بنی اسرائیل کی پولیس بھی کارکردگی کے معاملے میں پنجاب پولیس کی جڑواں بہن تھی۔ منصف بے بس تھے۔

(جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا تو اس میں باہم جھگڑنے لگے لیکن جس جرم کو تم چھپانے والے تھے اللہ نے اس کو ظاہر کرنا تھا۔ ہم نے حکم دیا کہ ذبح شدہ بیل کا کوئی سا ٹکڑا مقتول کے بدن کو مارو۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل پکڑو)

۔ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ ایک گائے ذبح کریں اور اس کا ایک ٹکڑا مقتول کی لاش پر ماریں۔ ایسا ہونا تھا کہ مقتول یک بہ یک زندہ ہوگیا۔ اس نے قاتل کی نشاندہی کی اور دوبارہ مرگیا۔
پولیس پر تو تین حرف بھیجیں۔ اس کو تو مرنے کا بھی حوصلہ نہیں ہے۔ جب پولیس مشرف کے دور میں پولیس آرڈر لا کر مکمل طور پر با اختیار ہونے کے انتظامات کررہی تھی سندھ کے ایک آئی جی صاحب کو ان کے اس وقت کے ڈی ایم جی دوست نے کہا تھا کہ پولیس میں آئی جی کی بدمعاشی اور کارکردگی میں اور اس کے ماتحت ہیڈ کانسٹیبل اللہ دتا کی بدمعاشی اور طرز ملازمت صرف ایک ڈگری کا فرق ہے اور وہ ہے یونی ورسٹی کی ڈگری کا۔

دکھ یہ ہے کہ اس واقعے کا دس جنوری کو عالی مرتبت چیف جسٹس ثاقب نثار نے نوٹس لیا۔ اسی دن فوج کے سپہ سالار نے بھی فوج کی جانب سے اس معاملے میں قاتل کی گرفتاری میں مکمل طور تعاون کی یقین دلائی۔ ان دونوں مقتدر ہستیون کا اس معاملے میں نوٹس لینا بدنصیب والدین کی اپیل پر تھا۔ درمیاں میں واٹس اپ پر ایک آڈیو ٹیپ بھی لیک ہوئی جس میں ایک ماتحت اپنی غلط سلط انگریزی میں کچھ درست خدشات کا اظہار اور میڈیا پر ٹکر چلانے کا ذکر کررہا تھا۔ یہ سب سے باخبر اشارہ تھا جو عین اس وقت کا تھا جب پنجاب کے چیف منسٹر ہارون الرشید کا بھیس بدل کر رات کے چار بجے مقتول زینب کے والدین کی ڈھارس بندھانے آئے تھے۔ اس آڈیو میں آئی جی کے لیے غلیظ زبان استعمال کی گئی مگر فریاد کی کوئی لے نہیں ہوتی اور نالہ پابند نے نہیں ہوتا۔ مصروف گفتگو افسران مایوس، جھنجلائے ہوئے اور نا امید لگتے ہیں۔

اب چونکہ انبیا اور معجزات کا زمانہ نہیں لہذا یہ تو ممکن نہیں کہ زینب خود کوڑے کے ڈھیر سے اٹھ کر کھڑی ہو اور اپنے سفاک قاتلوں کا نام پکارے اور دوبارہ ابدی نیند سوجائے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اب یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ نہیں حادثے کی طرح جرم کے ابتدائی گھنٹے بہت vital ہوتے ہیں۔ جرم میں تو سین آف کرائیم کو محفوظ رکھنا بھی بہت لازم ہوتا ہے کیوں کہCrime against body کا سب سے اہم گواہ جائے وقوعہ ہی ہوتی ہے۔ سما پر ٹی وی اینکر ندیم ملک کے پروگرام میں زینب کے چچا نے یہ کھلا الزام لگایا تھا کہ ڈی پی او ذوالفقار احمد نے جو اللہ نظر بد سے بچائے ایک باریش پی ایس پی افسر نے لاش ڈھونڈنے والے سپاہی کو دس ہزار روپے انعام دینے کا مشورہ دیا تھا۔

زینب کیس میں کیا کچھ نہیں ہوا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ جس دن سپہ سالار میدان میں آئے ان کا اس معاملے کا فوکل افسر یہ کرسکتا تھا کہ اس کیس سے متعلقہ ٹیم کو حکم دیتا کہ اپنے طور پر K۔ 9 یونٹ جس میں سراغ رساں کتے شامل ہوتے ہیں انہیں زینب کے لاش کے کپڑے سنگھائے جائیں اور اسے ٹریک کرنے کے لیے اس بازار میں لے جائے جہاں سے زینب کو ورغلا کر اغوا کیا گیا۔
اس کیس میں چند اہم نکات یہ ہیں۔ پہلا زینب اپنے کزن کے ساتھ مصحف قرآنی کی تعلیم کے لیے گئی تھی، بھائی تو مدرسے میں دوڑ کر اندر چلا گیا۔ زینب وہاں باہر سے غائب ہوئی۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جاننے والے کا اس درسگاہ اور آس پڑوس سے ایسا تعلق تھا کہ وہ زینب کو سی سی ٹی وی فوٹیج کی روشنی میں اجنبی نہ جان کر اس کے ساتھ ہنسی خوشی ہولی۔ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ فوج کے اس آپریشن روم میں ایک شیشہ ایسا لگایا جاتا جو یک طرف ہوتا جس کے پار سے زینب کے ہم مکتب بچے باآسانی اور بلاخوف اس ملزم کو دیکھ سکتے۔ سراغ رساں کتوں کی مدد سے گرفتار مشتبہ افراد کو اس کمرے میں بٹھا کر نشاندہی کرتے۔ اس کھوج میں سب سے اہم کردار ان بچوں کے علاوہ ان دو بچیوں کا ہے جو اس سی سی ٹی وی فوٹیج میں بیک پیک کے ساتھ اس مشتبہ فرد کا پیچھے دکھائی دیتی ہیں۔

یہاں سے ہم اپنے تفتیشی مفروضوں کا دائرہ اس طرف لے جاتے ہیں جہاں پچھلے برس اسی سوہنے شہر قصور میں بے شمار بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز بنی تھیں۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد یہ امکانات دوبارہ روشن ہوگئے ہیں کہ یہ جنسی اسکینڈل کا کیس۔ دیگر گیارہ بچیوں کے قتل کا کیس ک اور یہ مقدمہ ساتھ ساتھ کلپ کردیا جائے۔ ہتھنی کا، یہودی کا اور انصاف کا بدلہ کبھی پرانا نہیں ہوتا۔

اس دوران چیف جسٹس صاحب ایسا کرسکتے ہیں کہ کمسن بچوں سے جنسی زیادتی کا مقدمات کے لیے اٹارنی جنرل کو ایک نیا قانونی مسودہ وکلاء اور اہم بچوں کی نفسیات اور سماجیات کے ماہرین کی ایک کمیٹی سے مہر تصدیق ثبت کرا کے کسی وکیل ممبر کے ذریعے قومی اسمبلی میں پیش کرادیں۔ سینٹ کے چئیرمین خود بھی وکیل ہیں۔ وہ قدم بڑھائیں تو قوم ان کے ساتھ ہے۔

اس میں فاسٹ ٹریک عدالتیں اور چوک میں پھانسی کے اقدامات شامل ہوں تو بہت ہی اعلی اقدام ہوگا۔ ہندوستان میں برق رفتار عدالتوں کا قانون سن 2017 جس کے تحت ملک بھر میں 1734 عدالتیں تشکیل دے چکا ہے جس میں جرائم کے حساب سے دوسرے نمبر کی ریاست بہار میں سب سے زیادہ عدالتیں قائم کی جاچکی ہیں۔ ایمل کانسی کو زہر کا انجکشن دینے کے مناظر ٹی وی پر اور مقتولین کے اہل خانہ کو واشنگٹن میں دکھائے جاسکتے ہیں تو نہ ہم بھارت سے بڑی جمہوریت ہیں نہ امریکہ جیسا حساس معاشرہ۔ جہاں ریپ کا شکار خواتین کا نام ظاہر کرنا اور انسانی لاش کی تصویر دکھانا جرم ہے۔

سن دو ہزار بارہ میں دہلی کی ایک بس میں ایک طالبہ جیوتی کا بہت بھیانک بلاتکار اور قتل ہوا تھا۔ مقدمہ چلانے کے لیے سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس ایلتمش کبیر نے فوری طور پر چار فاسٹ ٹریک کورٹس بنا دیں تھی۔

سپریم کورٹ نے جب وہاں اس کیس کو جسے Nirbhaya Rape Case کے نام سے پہچانا جاتا ہے جب چار ملزمان کو جن کی عمر اٹھارہ برس سے کم تھی، پھانسی دینے سے انکار کیا تو عدالت کی کج فہمی پر اس حوالے سے شدید تنقید کی گئی کہ جنسی جرم کرتے وقت تو یہ مجرمان Juvenile نہ تھے۔

عدالت نہ جانے کیوں پولیس افسران کے معاملے میں وہی نرم رویہ رکھتی ہے جو پانامہ کیس کے تنقید کرنے والوں کے بارے میں اختیار کررکھا ہے۔ بہت سے لوگ اب پاکستان میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں قومی سطح کے لیڈرتو ایک طرف قصور کے با اثر افراد بھی فوج اور عدالت کے اختیار سے باہر ہیں۔ کراچی سے لے کر ہر جگہ روزانہ کا معمول ہے کہ ٹارگیٹ کلرز پکڑے جاتے ہیں۔ جیل ان کا شیرٹن ہوٹل بن چکی ہیں۔ سزا ایک کو بھی نہیں ہورہی۔ صرف شاہد مسعود اور غلام حسین پر امید ہیں کہ کڑا محاسبہ آج کل کی بات ہے۔

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan