اوریا مقبول جان اور ملا عمر صاحب کا قد


مکرم اوریا مقبول جان صاحب کی ایک ٹویٹ دیکھی۔ جس میں طالبان کے بانی ملا عمر صاحب کو عمر ثالث قرار دیا ہے یعنی پہلے عمر حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ دوئم تھے اور دوسرے عمر پہلی صدی کے مجدد حضرت عمر بن عبد العزیز تھے اور اوریا صاحب کے نزدیک ان کے ایک اور مثیل ملا عمر صاحب بانی تحریک طالبان تھے۔ اور ملا عمر صاحب کی ایک تصویر بھی ٹویٹ کے ساتھ نشر کی گئی تھی۔ اور اس میں ملا عمر صاحب ایک جیپ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کا سر جیپ کی چھت سے ٹکرا رہا ہے۔ اور اس ٹویٹ میں بڑے فخر سے لکھا ہوا ہے کہ ملا عمر کی یہ تصویر انجانے میں لی گئی تھی اور وہ اتنے دراز قد تھے کہ ان کا سر جیپ سے ٹکراتا تھا۔

اس پہلے بھی ملا عمر صاحب کے متعلق انٹرویو دیتے ہوئے اوریا مقبول جان صاحب نے فرمایا تھا کہ میں نے کسی شخص کے دل میں اپنی قوم کے لئے اتنا درد نہیں دیکھا جتنا ملا عمر صاحب کے دل میں اپنی قوم کے لئے تھا۔ کہ یہ لوگ آپس میں لڑ کر برباد ہو رہے ہیں۔ اور پھر ان کے کچھ خوابوں کا ذکر کیا جن میں ملا عمر صاحب کو ہدایات دی گئی تھیں۔ اور پھر قندھار پر طالبان کے قبضے کا جذباتی ذکر کیا گیا۔ میری حقیر رائے میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم خوابوں اور مبالغوں کی دنیا سے نکل کر حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں۔

افغانستان کے مستقبل کے بارے میں تو افغانستان کے باشندے ہی بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ پاکستانیوں نے کرنا ہے۔ اور ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ یہ جائزہ لیں کہ اگر افغانستان پر طالبان کی گرفت مضبوط ہو گئی تو اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ یہ جائزہ لیں کہ پہلی مرتبہ جب طالبان افغانستان پر قابض ہوئے تھے اور ان کی برادر تنظیم تحریک طالبان پاکستان پاکستان میں سرگرم تھی تو اس کے ہمارے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوئے تھے؟

میرے خیال میں اس مسئلہ پر زیادہ سوچ بچار کی ضرورت نہیں ہے۔ جب اس خطہ میں طالبان نے اپنا اثر و رسوخ بڑھایا تھا تو اس کے پاکستان پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے تھے۔ اس بحث میں الجھے بغیر کہ ملا عمر صاحب کے دل میں اپنی قوم کا درد تھا کہ نہیں یا یہ کہ ان کا قد سات فٹ تھا یا پانچ فٹ سے بھی کم تھا، ہمارے دلوں میں اپنی قوم اور اپنے ملک کا درد ضرور موجود ہے۔ کیا ہم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ پہلے کی طرح ستر ہزار پاکستانیوں کا خون بے دردی سے بہایا جائے۔

اگر اوریا مقبول جان صاحب ملا عمر صاحب کی دراز قد کی داد دینا چاہتے ہیں تو یہ ان کا مسئلہ ہے لیکن ہم یہ بات فراموش نہیں کر سکتے کہ 2011 میں نیوی کی تنصیبات پر طالبان نے حملہ کیا تھا، 2014 میں کراچی ائر پورٹ پر طالبان نے حملہ کیا تھا اور آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچوں کا خون بہانے کا گھناؤنا کارنامہ بھی طالبان نے سرانجام دیا تھا۔ اور اسی تنظیم نے دھماکوں پر دھماکے کر کے پاکستان کا امن تباہ کر دیا تھا۔

میں اس بات پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کہ ملا عمر صاحب کو کیا خواب آئے تھے لیکن میرے نزدیک اہم بات یہ ہے کہ ہماری قوم نے جاگتی آنکھوں سے کیا خوفناک مناظر دیکھے تھے۔ ہم یہ حقیقت فراموش نہیں کر سکتے کہ 2001 میں جو شخص طالبان کی طرف سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے لڑنے کے لئے افغانستان گیا، وہ امریکی فوجوں کا راستہ تو نہیں روک سکا اور جب وہ پاکستان میں داخل ہوا تو اسے گرفتار بھی کیا گیا لیکن اسی شخص یعنی صوفی محمد صاحب نے تحریک نفاذ شریعت بنا کر امریکہ کا غصہ پاکستان پر نکالا اور تحریک نفاذ شریعت بنا کر سوات، بنیر، دیر مالاکنڈ میں پاکستان کی حکومت کی عملداری کو چیلنج کر کے ریاست کے اندر ریاست قائم کر دی۔ اور جب طالبان سوات کے مختلف مقامات پر قبضہ کر رہے تھے تو پاکستان کی فوج کے دستوں نے بغیر کسی مزاحمت کے کئی مقامات ان کے حوالے کر دیے۔ ہم یہ تاریخی حقائق کس طرح فراموش کر دیں؟

یہ بحث نہیں کہ طالبان نے قندھار میں دودھ شہد کی نہریں جاری کی تھیں کہ نہیں، غور طلب بات یہ ہے کہ طالبان پولیو کے خلاف مہم کو ایک مغربی سازش قرار دے کر اس کو روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے ہیں۔ دسمبر 2019 میں تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے دو پولیس افسران کو اس پاداش میں شہید کر دیا کیونکہ وہ پولیو مہم چلانے والے عملہ کی حفاظت کر رہے تھے۔ اپریل 2019 میں بنوں، بنیر اور کوئٹہ میں ان حملوں کی وجہ سے پولیو مہم کو روکنا پڑا اور نتیجہ پاکستان اب تک بھگت رہا ہے۔

ضرب عضب کے آپریشن سے شکست کھا کر تحریک طالبان پاکستان نے کچھ عرصہ خاموشی میں گزارا ہے۔ اور اب کئی بزرجمہر یہ پیشگوئیاں کر رہے ہیں کہ طالبان کی اصلاح ہو چکی ہے اور اب یہ وہ طالبان وہ طالبان نہیں جو کہ کسی زمانے میں ہوا کرتے تھے۔ گویا ایک اور ہنی مون شروع ہو رہا ہے۔ اگر طالبان اتنے ہی تبدیل ہو چکے ہیں تو پولیو مہم کی مخالفت ترک کیوں نہیں کر دیتے۔ اگست 2019 میں ہی یہ خبریں منظر عام آئی تھیں کہ شمالی وزیرستان اور میراں شاہ میں طالبان نے لوگوں کو موسیقی سننے اور عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے سے منع کرنا شروع کر دیا ہے۔ اور ان علاقوں کے قریب وانا اور جنوبی وزیرستان میں طالبان نے پمفلٹ شائع کر کے پولیس کو متنبہ کیا ہے کہ وہ یہ علاقہ چھوڑ دیں۔ اس شکست کے بعد وقتی طور پر طالبان اس قابل ہی نہیں رہے تھے کہ وہ حسب سابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ ان کی کمزوری کو ان کی اصلاح سمجھنا ایک سنگین غلطی ہو گی۔

ابھی طالبان افغانستان پر طالبان کا قبضہ نہیں ہوا لیکن گزشتہ دو ڈھائی سال سے پاکستان میں طالبان کی دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک ادارے کے مطابق 2019 میں خیبر پختونخوا میں تحریک طالبان نے 21 حملے کیے جبکہ 2020 میں اسی صوبے میں ان حملوں کی تعداد بڑھ کر 28 ہو گئی۔ لیکن دوسری طرف اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2020 کے آخری چھ ماہ میں طالبان نے افغانستان سے پاکستان کے اندر سو سے زائد وارداتیں کیں۔

اس سال کے کے دوران تحریک طالبان کی سرگرمیوں میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ اس سال کے صرف پہلے دو ماہ کے دوران تحریک طالبان پاکستان نے 32 وارداتوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اور اپریل کے مہینے میں طالبان نے کوئٹہ کے ایک ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ حقائق نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ہم ملا عمر صاحب کا قد ناپتے رہ جائیں اور طالبان پہلے کی طرح پاکستان میں خون کی ہولی کھیلنے کا محبوب مشغلہ جاری رکھیں۔

آج ٹی وی پر دیکھا کہ وزیر اعظم صاحب سندھ کے حالات پر بہت فکر مند ہیں اور میٹنگ کی صدارت کر رہے ہیں کہ سندھ کے حالات کس طرح بہتر کیے جائیں۔ بہتر ہو گا اگر وہ طالبان کی طرف سے درپیش ممکنہ خطرات پر بھی مشاورت کا سلسلہ شروع کریں تا کہ پاکستان میں یہ بھیانک تاریخ نہ دہرائی جائے۔

[تفاصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں
The Evolution and Potential Resurgence of the Tehrik-i-Taliban Pakistan
By Amira Jadoon, Special report United States Institute of peace no 494, May 2021]


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments