نور مقدم کے خلاف مقدمہ


کیا اس قسمت جلی کو مذبوحہ لکھا جا سکتا ہے؟ کیسے لکھیں کہ وہ کوئی بہیمتہ الانعام تو نہ تھی۔ اور کیوں نہ لکھیں کہ وہ ذبح کر دی گئی۔ موقع تعزیت کا تھا مگر داہنی طرف والوں نے ہاتھ خوب صاف کیے۔ بنیادی دلیل ان کی یہی تھی کہ نہ نور اس کے ہاں جاتی اور نہ ذبح ہوتی، ہمارے کچھ کہنے سے پہلے ذرا دیکھ لیجیے کہ ایسوں کے بارے انشا اللہ خاں انشا کیا ارشاد فرما گئے ہیں۔

یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروز عید قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا

یعنی جو ذبح ہوا، وہی قصور وار ٹھہرا۔ حیراں ہیں کہ کسی نے نور مقدم کے والدین کو شامل قصور کیوں نہ کیا۔ کوئی اگر یہ کہہ دیتا کہ نہ اس کے والدین اسے پیدا کرتے اور نہ آج وہ قتل ہوتی، تو کیا کچھ روایت سے ہٹ کر ہوتا۔ ویسے کوئی چھٹ بھیا یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ اس معاملے میں خدا بھی قصور وار ہے کہ نہ وہ عورت بناتا اور نہ عورت کا ریپ ہوتا۔ اس معاملے کو یہیں روکتے ہیں اور مدینہ کو چلتے ہیں۔ قریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے کا مدینہ، ایک چھوٹا سا شہر۔

عکرمہ تابعی کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس نے مجھے اور اپنے بیٹے علی بن عباس کو حکم دیا کہ تم دونوں سیدنا ابو سعید خدری کے پاس جاؤ اور ان سے حدیث سنو۔ جب ہم ان کے پاس گئے تو وہ اپنے بھائی کے باغ کو سیراب کر رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر وہ قریب آ گئے اور گوٹھ لگا کر بیٹھ گئے۔ ہم نے مدعا بیان کیا تو وہ کہنے لگے کہ، ہم لوگ مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے اینٹیں ایک ایک کر کے اٹھا رہے تھے جب کہ سیدنا عمار بن یاسر دو دو اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے۔ اسی دوران رسالت مآبﷺ سیدنا عمار کے پاس سے گزرے تو اپنے ہاتھ سے ان کے سر سے گرد اور مٹی جھاڑتے ہوئے فرمایا: عمار کی کم بختی کہ اسے ایک باغی گروہ قتل کرے گا، عمار انہیں جنت کی طرف بلائے گا جب کہ وہ لوگ عمار کو آگ کی طرف بلا رہے ہوں گے (صحیح مسلم: 7320، صحیح بخاری: 2812 ) ۔

اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ سیدنا عمار جنگ صفین میں شہید ہو چکے ہیں۔ جنگ صفین اس لیے بھی ناگزیر ہو گئی تھی کہ حضرت امیر معاویہ سیدنا علی کے خلاف میدان جنگ میں چلے آئے تھے۔ سیدنا عمار بن یاسر سیدنا علی کے لشکر میں شامل تھے۔ سیدنا عمار کی شہادت کی خبر جب حضرت عمر ابن العاص تک پہنچی اور عمر ابن العاص اس خبر کو حضرت امیر معاویہ تک لے کر گئے تو ذرا دیکھیے کہ انہوں نے کیا ارشاد فرمایا۔

محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ جب حضرت عمار بن یاسر شہید ہوئے تو عمرو بن حزم حضرت عمرو بن عاص کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ سیدنا عمار شہید ہو گئے ہیں اور نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ یہ سن کر حضرت عمرو بن عاص ”انا للہ“ پڑھتے ہوئے گھبرا کر اٹھے اور حضرت معاویہ کے پاس چلے گئے، حضرت معاویہ نے ان سے پوچھا کہ تمھیں کیا ہوا؟ انہوں نے بتایا کہ سیدنا عمار شہید ہو گئے ہیں، حضرت معاویہ نے فرمایا کہ عمار تو قتل ہو گئے لیکن تمھاری یہ حالت؟ انہوں نے کہا کہ میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ حضرت معاویہ نے کہا کہ تم اپنے پیشاب میں گرتے، کیا ہم نے انہیں (عمار) قتل کیا ہے۔ انہیں تو علی اور ان کے ساتھیوں نے خود قتل کیا ہے، وہی انہیں لے کر آئے اور ہمارے نیزوں کے درمیان ڈالا (مسند احمد: 17931 )

حضرت امیر معاویہ کی دلیل پر کچھ تبصرہ نہیں ہو گا کہ ابھی زندگی کی کچھ بہاریں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور ویسے بھی محترم ایاز امیر سے بار بار سبق پڑھ چکے ہیں کہ یہاں سر فروشی کی تمنا رکھنا پرلے درجے کی بیوقوفی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments