آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’مقامی‘ عسکریت پسندوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

عامر پیرزاده - بی بی سی


بشیر احمد بھٹ کو اپنے بھائی کے گھر کی دیواروں پر لگے خون کے دھبے اُس شام کی یاد دلاتے ہیں جب پلوامہ کے اس گھر میں تین افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔

27 جون کو بشیر احمد بھٹ کے بھائی فیاض احمد بھٹ، جو ایک پولیس اہلکار تھے، سونے کی تیاری کر رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ جب وہ دروازے پر گئے تو ان کی بیوی اور بیٹی بھی ان کے پیچھے تھیں، کیونکہ انھیں رات کے اس پہر دروازے پر ہونے والی دستک کے خطرات کا بخوبی اندازہ تھا۔

دروازہ کھلا اور دو مشتبہ عسکریت پسندوں نے فیاض بھٹ، اُن کی بیوی اور بیٹی کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔

45 سالہ فیاض محکمہ پولیس کی سپیشل برانچ میں کام کرتے تھے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سپیشل پولیس افسر ایک کم اجرت والی ملازمت ہے۔ فیاض احمد اپنے قصبے کے قریب ہی تعینات تھے۔

بشیر احمد بھٹ اپنے گھر میں ہی تھے جب انھوں نے بھائی کے گھر میں گولی چلنے کی آواز سُنی۔ وہ بھائی کے گھر کی جانب بھاگے۔ جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو وہاں ایک دلخراش منظر اُن کا منتظر تھا۔

بشیر احمد نے اپنے بھائی کی لاش کو گھر کے داخلی دروازے کے قریب پڑے دیکھا۔ اُن کی بیوی اور بیٹی خون میں لت پت فیاض احمد کی لاش کے قریب پڑی درد سے کراہ رہی تھیں۔

بشیر بتاتے ہیں ’ان گولیوں نے ایک منٹ میں پھولوں سے بھرے باغ کو تباہ کر دیا تھا۔ ان کا قصور کیا تھا۔‘

فیاض احمد بھٹ کا بیٹا انڈیا کی ٹیریٹوریل آرمی میں کام کرتا ہے۔ جب ان کے خاندان کو قتل کیا گیا تو وہ کام کی غرض سے گھر سے دور تھا۔

انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم ہوئے دو برس بیت چکے ہیں۔ ریاست اب دو حصوں میں بٹ چکی ہے جسے براہ راست مرکزی حکومت کنٹرول کرتی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا موقف ہے کہ ریاست میں بدامنی کو ختم کرنے کے لیے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنا ضروری تھا۔

انڈین سکیورٹی فورسز کے لیے کام کرنے والے مقامی افراد مسلسل مشتبہ عسکریت پسندوں کے نشانے پر ہیں۔

دہلی میں قائم تھنک ٹینک ’انسٹیٹوٹ فار کنفلکٹ مینجمنٹ‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اجے ساہنی کا کہنا ہے ’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں دوسرا فریق پولیس کا مخبر اور آلہ کار قرار دیتا ہے۔‘

اطلاعات کے مطابق رواں برس جولائی تک انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 15 سکیورٹی اہلکار اور 19 عام شہری مارے جا چکے ہیں۔

وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1990 سے سنہ 2020 تک کشمیر میں 14 ہزار سے زائد عام شہری اور 5294 سکیورٹی اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔

انڈیا کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کشمیر میں علیحدگی پسند جنگجوؤں نے سنہ 1989 سے نئی دہلی کے خلاف جہدوجہد شروع کر رکھی ہے۔

کشمیر کا خطہ جوہری اسلحے سے لیس مسلح دو پڑوسی ملکوں پاکستان اور انڈیا میں جھگڑے کی بنیاد ہے۔

دونوں ملکوں کے مابین ہونے والی تین جنگوں میں دو کشمیر کے خطے میں لڑی گئی ہیں۔

نئی دہلی ہمیشہ پاکستان پر الزام پر عائد کرتا ہے کہ وہ کشمیر کے علیحدگی پسند جنگجوؤں کی پشت پناہی کرتا ہے مگر پاکستان اِن الزامات کی ہمیشہ سے تردید کرتا آیا ہے۔

انڈین سکیورٹی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ جب سے دونوں ملکوں کے مابین سنہ 2003 میں ہونے والے سیزفائر کے معاہدے پر پھر سے عملدرآمد شروع ہوا ہے تب سے پاکستان کی جانب سے مسلح عسکریت پسندوں کو جموں کشمیر بھیجنے کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن کشمیر کے اندر پرتشدد کارروائیاں ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہیں۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے انسپکٹر جنرل پولیس وجے کمار نے رواں برس جون میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا ’پچھلے چند دنوں میں ایسے معصوم شہریوں اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا جب وہ چھٹی پر گھر گئے یا نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد۔ وہ خوف کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہاں امن و استحکام دیکھنا نہیں چاہتے۔‘

مقامی عسکریت پسند اگلی صفوں میں

انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کیے جانے کے بعد سے مقامی جنگجوؤں کی ہلاکتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

پچھلے کئی ماہ میں مسلح افواج اور شدت پسندوں کے مابین جھڑپوں کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ جنوری سے اب تک 90 مبینہ عسکریت پسند جموں و کشمیر کے مختلف مقامات پر سکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلوں میں مارے جا چکے ہیں۔

مارے جانے والے 90 مبینہ عسکریت پسندوں میں 82 مقامی باشندے تھے اور ان میں چودہ برس کی عمر کے نوجوان بھی شامل تھے جو مسلح گروہوں میں شمولیت کے تین روز کے اندر ہی مارے گئے۔

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2020 میں جموں و کشمیر میں 203 عسکریت پسند مارے گئے جن میں 166 مقامی باشندے تھے۔ جبکہ 2019 میں کل 152 عسکریت پسند مارے گئے جن میں 120 مقامی باشندے تھے۔

ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت کشمیر میں قریباً 200 متحرک عسکریت پسند موجود ہیں جن میں 80 غیر ملکی ہیں جبکہ 120 مقامی ہیں۔

رواں برس کسی مشتبہ عسکریت پسند کو ’غیر ملکی‘ عسکریت پسندوں کے درجے میں شامل نہیں کیا گیا ہے اور صرف ایسے عسکریت پسندوں کو ‘غیر ملکی’ تصور کیا جاتا ہے جو پچھلے برس سے کشمیر میں متحرک ہیں۔ البتہ مقامی عسکریت پسندوں کی فہرست میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ رواں برس جنوری سے جولائی تک 76 کشمیری باشندوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں۔ حکام کو خدشہ ہے کہ اس تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ اگر رواں برس کے اعداد و شمار کا موازنہ کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر میں پُرتشدد کارروائیوں میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی باشندوں کے ہتھیار اٹھانے کے رجحان میں اضافہ انڈیا کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کے لیے اچھا رجحان نہیں ہے۔

نئی دلی میں قائم تھنک ٹینک کے چیف ایگزیکٹیو اجے ساہنی کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں کی جانب سے جنگجوؤں کی صفوں میں شریک ہونے کی ایک وجہ مرکزی حکومت سے ناراضگی بھی ہو سکتی ہے۔

اجے ساہنی کہتے ہیں ’ماضی قریب میں مرکزی حکومت کی جموں و کشمیر سے متعلق پالیسیوں کے بارے میں ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن مجموعی رجحان میں کمی ہو رہی ہے۔ مقامی لوگوں کی شرکت اس لیے بڑھ رہی ہے کیونکہ پاکستان بہت واضح طور پر یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ تحریک مقامی ہے۔‘

خاموش سرحدیں

پاکستان اور انڈیا کی فوجوں کی جانب سے سیزفائر پر عملدرآمد شروع ہونے سے رواں برس فروری سے لائن آف کنٹرول پر خاموشی ہے لیکن انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے اندر جنگجوؤں کے حملے اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے جاری ہیں۔

سرینگر میں انڈین فوج کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ جب سے سیزفائر کے معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوا ہے اس کی ایک بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے۔

چنار کور کے لیفٹینٹ جنرل دویندرا پرتاب پانڈے کا کہنا ہے کہ ’سیز فائر کے بعد سے عسکریت پسندوں کو سرحد پار بھیجنے کا ایک واقع بھی پیش نہیں آیا ہے۔‘

لائن آف کنٹرول پر سیز فائر نے نہ صرف انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جاری شورش پر اثر ڈالا ہے بلکہ لائن آف کنٹرول کے قریب رہنے والوں نے گذشتہ پانچ ماہ سکون سے گزارے ہیں۔

لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب رہنے والے کشمیری دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کی بھاری قیمت ادا کر چکے ہیں۔ شازیہ محمود بھی ان میں سے ایک ہیں۔

سنہ 1998 میں شازیہ محمود کی والدہ اُس وقت فوت ہو گئیں جب ایک گولہ ان کے گھر پر لگا۔ نومبر 2020 میں شازیہ محمود کے شوہر سرحد پر فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے۔

شازیہ محمود بتاتی ہیں کہ ایک روز 11 بجے کے قریب دونوں جانب سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ شازیہ نے اپنے خاوند طاہر محمود میر کو جو گھر سے باہر کام کر رہے تھے واپس بلایا۔ ’اس نے ہمیں کہا کہ تم لوگ اندر جا کر چھپ جاؤ، میں آ رہا ہوں۔‘

طاہر محمود کبھی واپس نہیں آئے۔ وہ گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے۔

شازیہ محمود بتاتی ہیں ’میری سب سے چھوٹی بیٹی صرف بارہ روز کی تھی جب وہ فوت ہوئے۔ جب وہ مجھ سے اپنے باپ کے بارے میں پوچھے گی تو میں اسے کیا بتاؤں گی۔‘

اب جب سیزفائر کے معاہدے پر عمل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے لائن آف کنٹرول پر حالات قدرے نارمل ہیں لیکن دونوں جانب سے 2003 میں طے پانے والے اس معاہدے پر عمل درآمد کو جاری رکھنے پر شکوک کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

لائن آف کنٹرول سے دور گاؤں اور شہروں میں بشیر احمد بھٹ جیسے لوگوں کے لیے امن اب بھی ایک خواب ہے۔

بشیر احمد بھٹ کہتے ہیں ’دونوں ملکوں کے حکمران ہماری زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ انھیں بات چیت کرنی چاہیے۔ میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ براہ مہربانی انسانیت کو بچائیں۔ اس جھگڑے کا خاتمہ ہونا چاہیے تاکہ کشمیریوں کی زندگیوں اور انسانیت کو بچایا جا سکے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp