مرگ انبوہ سے مردہ خانے میں عورت تک


’مردہ خانے میں عورت‘ مشرف عالم ذوقی کا تازہ ناول ہے جو پاکستان میں سنگ میل اور ہندوستان میں میٹر لنک پبلکیشنز سے، ایک ساتھ شائع ہوا ہے۔ مردہ خانے میں عورت کو مرگ انبوہ کا دوسرا حصہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ناول کا ہیرو مسیح سپرا آزاد ہندوستان میں خود کو مردہ ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کے حادثات و واقعات سے گزرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے گھر کو مردہ خانہ بنا لیتا ہے۔ گھر میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو زندہ رہنے کی علامت ہو۔ مسیح سپرا کو یقین ہے کہ مردوں کو بھوک ضرور لگتی ہو گی۔ وہ محض اپنے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے، سفید کفن پہنتا ہے اور مردوں کی طرح زندگی گزارنے لگتا ہے۔ مگر مردوں کو بھی چین نصیب نہیں۔ پھر ایک دن اس مردہ خانے میں ایک عورت آ جاتی ہے۔

تہذیب و ثقافت کی صدیوں اور ہزاروں پرانی ریت و رواج سے چلی آ رہی داستانوں میں روپ بدل بدل کر سامنے آنے والی عورت منٹو کی کہانیوں میں طوائف بن کر دنیا کے سامنے آئے یا پریم چند کے کفن میں بھوک بن کر۔ یا چیخوف کی خادمہ میں موت کی نیند بن کر مجھے کوئی تعجب نہیں ہو گا۔

مگر اکیسویں صدی ؟
اور مردہ خانہ میں عورت ؟

ناول مرگ انبوہ میں، میں نے موت کو رقص کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ بوسیدہ حویلیوں میں رقص کرتے ہوئے موت نے مردہ گھر کا راستہ دیکھ لیا تھا۔ میں مردہ گھر سے گزرا۔ مرگ انبوہ میں جہانگیر مرزا کو نیند میں چلنے کی بیماری تھی۔ جہانگیر مر گیا اور اس کی روح نادیدہ خلاء میں بھٹک رہی ہے۔ مردہ خانے میں عورت میں، مسیح سپرا کی شکل میں جہانگیر مرزا کی واپسی ہوئی ہے۔ ناول سے ایک مختصر اقتباس:

’’دیکھو۔ پرانی عمارت تھی۔ مگر اب نہیں ہے۔ صرف انسان نہیں گم ہوتے۔ نقشے گم ہو جاتے ہیں۔ عمارتیں گم ہو جاتی ہیں۔ مکاں گم ہو جاتے ہیں۔ مکیں گم ہو جاتے ہیں۔

مسیح سپرا ہے۔
مسیح سپرا بھی نہیں رہے گا۔‘‘
(مردہ خانہ میں عورت)

تخیلات سے پیدا ہونے والی دنیا ایک خوفناک روپ دھار چکی تھی۔ وحشی بندروں اور مارکیز کے شہر ”تنہائی کے سو سال“ سے نکل کر آنے والے خانہ بدوشوں کی جماعت پورے ملک پر حاوی ہو چکی تھی۔

اسی ناول سے ایک اور اقتباس دیکھے:

’’ممکن ہے زندان کا دروازہ ہم پر کھول دیا جائے۔ ممکن ہے مذہبی عمارت گرانے کے عوض ہم پر مقدمہ چلایا جائے۔ مگر یہاں ہم سب دوست ہیں، جو زندان کے پالن ہار ہیں، وہ بھی جو بیڑیوں میں قید ہیں، وہ بھی جو وحشتوں کے اسیر ہیں، وہ بھی جو حکومت کے طرف دار ہیں۔

اس لیے تماشا تو ضرور ہو گا۔ لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا کیوں کہ یہاں سب اپنے ہیں اور ان کی تعداد بہت کم ہیں جو پرانی عمارت سے چپکے ہوئے ہیں۔‘‘

(مردہ خانہ میں عورت)

وقت بدل چکا تھا۔ سیاسی لہروں میں چیخنے اور چلانے کی ہزاروں دردناک آوازوں نے سپرا اور ریحانہ کی سرگوشیوں میں ڈر گھول دیا تھا۔

سپرا نے موت کو دیکھ لیا تھا۔ اسے چیخیں سنائی دیتی تھیں۔ جمہوریت کی چیخ۔ قانون کی چیخ۔ مردوں کی چیخ۔ چیخیں بہت دردناک ہوتیں اور سپرا نے انہی چیخوں کے درمیان خود کو مردہ تصور کر لیا تھا۔

ذوقی کے نزدیک خاموشی ایک عذاب ہے۔ جب خانہ بدوش ملک پر حاوی ہوئے اور اقلیت کے طوطے پنجرے میں قید کر دیے گئے۔ اس وقت دلی کی سڑکوں اور جمہوریت کے ملبے تلے دبی مردار لاشوں سے آزادی آزادی کی چیخیں پورے ملک کی فضاء میں بازگشت کرنے لگیں۔ صیاد وحشی بن گیا۔ بلبل نے قفس کو آشیانہ بنا کر ابابیلوں کا روپ دھار لیا۔ آزادی آزادی کی چیخوں میں گل بانو جیسی بہادر لڑکی کا کردار سامنے آیا اور پھر پوری دنیا مردہ خانہ میں تبدیل ہو گئی۔

ذوقی کے یہاں ایک دنیا اور آباد ہے۔ آپ اس دنیا کو زیریں لہروں کا نام دے سکتے ہیں یا ابہام کی فضاء سے حال کے معنی کشید کر لینے والی تاریک دنیا جس کی نم آلود سیاہیوں میں مرغابیاں اپنے پر پھیلاتی ہیں اور سانپ ان پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔

سب کچھ ویسا نہیں ہے،
جیسا ایک اندھیری رات میں ہوتا ہے
جب ہم سوئے رہتے ہیں
آرام سے اپنے گھروں میں
کچھ لوگ اس وقت بھی
نیند میں چلتے ہوئے ہمیں ہلاک کرنے آ جاتے ہیں۔
(مردہ خانہ میں عورت)

گل بانو۔ اس ناول کا مضبوط کردار ہے۔ وہ ایک فرقہ پرست پولیس والے کا قتل کرتی ہے۔ وہ شاہین باغ احتجاج کا حصہ بنتی ہے۔ اور پولیس والے کو قتل کرنے کے بعد وہ مسیح سپرا کے مردہ خانے میں پہنچ جاتی ہے۔ گل بانو جانتی ہے کہ اس سے بہتر پناہ گاہ اسے کہیں نہیں ملے گی۔ مسیح سپرا کہتا ہے، یہ مردہ گھر ہے اور تمہیں بھی مردوں کی طرح ہی رہنا ہو گا۔ اب مردہ خانے میں دو مردے ہیں۔ ایک جس نے سیاسی نظام کا قتل کیا ہے، دوسرا جو سیاسی نظام سے انتقام لے کر خود کو مردہ تصور کیا ہے۔

کیا میں یہاں رہ سکتی ہوں؟
ہاں۔ اندر آ جاؤ۔ اجنبی نے غور سے دیکھ کر کہا۔
یہ کیسی جگہ ہے؟ اتنا گہرا اندھیرا کس لیے؟
مردہ گھر۔
مردہ گھر؟ لائٹ نہیں ہے؟
مردہ گھر میں روشنی نہیں ہوتی۔
اور یہ سفید چادریں ؟
مردوں کا کفن سفید ہوتا ہے۔
اور یہ عورت ؟
موت کی دیوی۔
جو روح قبض کرتی ہے؟
ہاں۔
مطلب۔ ابھی تم زندہ ہو؟
پتا نہیں۔

سپرا نے چاند کو افق میں خون سے غسل کرتے دیکھا تھا۔ اور گل بانو کو بھی انقلاب کے اندر سے نکلنے والی چندا کی دردناک چیخ نے سپرا کے مردہ گھر کا راستہ بتا دیا تھا۔

یہاں کوئی بھی ایسا نہیں جو یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہو کہ وہ زندہ ہے۔
(مردہ خانہ میں عورت )

یہ ناول ایک ایسا بیانیہ ہے جس میں توہمات اور مفروضے نہیں۔ حقیقت ہے اور حقیقت کو استعارے اور بیانیے میں گھول کر ابہامات کی شکلیں بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دینا نہایت مشکل ترین عمل سے گزرنا ہے۔ یہ ناول وحشتوں کی سیر پر لے جاتا ہے جہاں پوری دنیا خوف سے سہمی سہمی نظر آتی ہے اور شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ہم زندہ کہاں ہیں؟ ہم تو مردوں سے بھی بدتر بنا دیے گئے ہیں۔ مردہ خانے میں عورت، مرگ انبوہ سے آگے کی دنیا ہے۔ اور ان دونوں ناولوں کو فخر سے، مغرب کے کسی بھی شاہکار کے سامنے آسانی سے رکھا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments