بھارت سے کشیدگی کے پاکستان پر اثرات


ملک عمید: ہندوستان نے سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا جسے پاکستان نے مسترد کر دیا، مگر بھارت کے اس دعوے کی عالمی سطح پر \"raza-rumi5\"مذمت نہیں کی گئی یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔۔۔ کیا یہ پاکستان کی عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا واضح نشان نہیں؟

رضا رومی: آپ نے اپنے سوال میں تین چار سوالوں کو قید کر دیا ہے تو اس کی پرتیں کھولنی پڑیں گی۔ پہلی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان سفارتی طور پر تنہا ہے یا نہیں؟ تو اس میں کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔ میرے خیال مین پاکستان عالمی طور پر تنہا نہیں ہے۔ پہلا تو یہ کہ افغانستان میں جاری جنگ میں پاکستان فی الحال امریکہ کا اتحادی ہے، چین اور پاکستان کی دوستی آپ کو پتہ ہے کہ ایک نئی نہج پر پہنچ چکی ہے اور جس کا بہت چرچا بھی ہے پاکستان میں اور یہ سچ بھی ہے۔ اب چین خوامخواہ تو پچاس ارب ڈالر نہیں خرچے گا نا پاکستان پر اگر وہ سمجھتا ہو کہ پاکستان غیر مستحکم ملک ہے۔ تیسری بات ہے کہ آپ نے دیکھا کہ ہمارے تاریخی طور پر روس کے ساتھ تعلقات فوجی یا عسکری نوعیت کے نہیں ہوتے تھے اب وہ بھی شروع ہوگئے ہیں۔ اب آپ نے دیکھا کہ ایران نے بھی سی پیک کا حصہ بننے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اس نے یقین دلایا ہے کہ گوادر سے چاہ بہار کی بندرگاہ کی کوئی مسابقت نہیں ہے۔ تو یہ اشاریے بتاتے ہیں کہ پاکستان تنہا نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستان کے سعودی عرب سے بھی تعلقات قائم ہیں۔

پاکستان کی اگر سفارتی تنہائی ہے تو وہ جنوبی ایشیا میں ہوگئی ہے۔ اس کا ہم نے ابھی شاخسانہ بھی دیکھا ہے کہ ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھوٹان نے اڑی حملوں کے بعد پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔ یہ میں سمجھتا ہوں کہ خطرے کی بات ہے۔ دور دراز کے دوست ہونا اچھی بات ہے لیکن جو آپ کے پڑوسی ہوتے ہیں، محلے کے اندر اگر آپ ان سے بنا کر نہیں رکھتے تو وہ کوئی نہ کوئی سوئی چبھو کر رکھتے ہیں اور کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کرتے رہتے ہیں۔ دوسری آپ نے بات کی کہ سرجیکل سٹرائک بارے ہندوستان کے تمام تر سچے یا جھوٹے دعوؤں کے باوجود عالمی برادری نے اس پر زیادہ شور نہیں کیا تو اس میں آپ کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ پاکستان بد قسمتی سے دہشتگردی کی اصطلاح سے نتھی ہوچکا ہے۔ کچھ تو اس میں ہمارا بھی دوش ہے۔ اس میں جو سول و فوجی حکومتیں رہی ہیں، بھٹو صاحب کے زمانے سے لے لیں آپ، ان کی پالیسیاں رہی ہیں کہ افغانستان میں کوئی نہ کوئی گڑ بڑ کرتے رہو تا کہ وہ آپ کے قابو میں رہیں۔ آج یہ طالبان اور یہ جو کشمیر سنٹرک جہادی ہیں ان کی وجہ سے پاکستان کا مقدمہ عالمی رائے عامہ کی کورٹ میں کمزور ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے۔ حالانکہ جو بات اکثر اوقات لوگ بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان تو خود سب سے بڑا متاثر ہے دہشت گردی کا۔ پچاس ہزار کے لگ بھگ پاکستانی، پانچ چھ ہزار کے لگ بھگ فوجی شہید ہوگئے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ سول و ملٹری کونسی ریاستی تنصیب نہیں ہے جہاں پر دہشت گردوں کا حملہ نہیں ہوا۔ آئی ایس آئی کا ہیڈ کوارٹر ہو، جی ایچ کیو ہو، پشاور یا سوات کے اسکول ہوں ہر جگہ تو پاکستانیوں پر حملے ہوئے ہیں اور انہی جہادیوں کی طرف سے ہوئے ہیں۔ اب ہمارے ہاں یہ پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہ ہندوستان کروا رہا ہے، کوئی کہتا ہے کہ امریکہ کروا رہا ہے وغیرہ۔۔ حقیقت یہی ہے کہ یہی لوگ ہیں، اگر یہ کہیں اور سے پیسے لیتے بھی ہیں تو سوال موجود رہے گا کہ ہم نے ان کو پہلے اپنے علاقے میں گوارا کئے رکھا۔ یہ جو ہندوستان نے دعویٰ کیا ہے سرجیکل سٹرائیک کا اس کے بعد یہ جو عالمی برادری کی طرف سے نہیں رد عمل آیا ہے اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے۔ لیکن اس کی ایک اور بنیادی وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ان کو یہ پتہ ہے کہ یہ دونوں ناپختہ ممالک ہیں، انہوں نے کوئی نہ کوئی مسئلہ ایک دوسرے کے ساتھ کرتے رہنا ہوتا ہے اور جہاں تک یہ نیوکلیر ہتھیار نہ استعمال کریں ان کو لڑنے دو اور ان کو اپنی بھڑاس نکالنے دو کیوں کہ ان کا کام ہی یہ ہے۔

ملک عمید: اب جب کہ بھارت یہ جان چکا ہے کہ سرجیکل سٹرائیک کے دعویٰ پر اس کی عالمی سطح پر کوئی مذمت نہیں ہوئی تو کیا اس سے بھارت کو مستقبل میں ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی نہیں ملے گی؟ خصوصاً جب بارا مولہ کے پاس آرمی کیمپ پر حملہ بھی ہوچکا ہے جسے بھارت کے سرجیکل آپریشن سے جوڑا جا رہا ہے۔

\"raza-rumi6\"رضا رومی: جی یہ جو نام نہاد سرجیکل سٹرائیک ہوئی، اس کے بارے میں بھارتی فوج کے ڈی جی ایم او نے صحافیوں کو بریف کیا، ہندوستان کی فوج اور حکومت نے جو کہا ہندوستان کے میڈیا نے من و عن اس کو شائع کیا اور بڑھا چڑھا کر اسے پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پر حملہ کر دیا، مار دیا دہشت گردوں کو، ہم نے یہ کر دیا وہ کردیا وغیرہ وغیرہ۔۔ اِدھر پاکستان نے کہا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے اور یہ تو ہے ہی جھوٹ اور ہندوستان کی سازش ہے وغیرہ۔ بد قسمتی سے دونوں طرف سے حالات ایسے ہیں کہ غیر جانبدار ویریفکیشن ممکن ہی نہیں ہے۔ اور اس کی کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔ اس لئے نہ آپ نہ میں، یہ جان ہی نہیں پائیں گے کہ وہ سٹرائیک ہوئی تھی کہ نہیں۔ ابھی پاکستان کے کچھ صحافی گئے ہیں وہاں پر، نیو یارک ٹائمز کے سلمان مسعود نے ایک مضمون بھی لکھا ہے اور اس نے لکھا ہے کہ وہاں ہماری طرف کی لائین آف کنٹرول کے جو مقامی ہیں انھوں نے کوئی غیر معمولی حرکت نہیں دیکھی۔ اسکول بھی کھلے ہوئے ہیں اور دکانین بھی کھلی ہوئی ہیں۔ مگر بات یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوا ہے۔ آخر ہندوستان اتنا بڑا جھوٹ تو نہیں بول سکتا۔ ٹھیک ہے ہر ریاست تھوڑا بہت ملمع سازی کرتی ہے لیکن یکسر جھوٹ بولنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن اس سطح کا نہیں ہوا جتنا ہندوستانی میڈیا اسے پیٹ رہا ہے۔ مگر اس کا جو خطرناک پہلو ہے اور جس کا آپ نے بالکل صحیح اندازہ کیا ہے اور صحیح اس کی نشاندہی کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک بار ہندوستان نے یہ دعویٰ کر دیا کہ ہم نے یہ اسٹرائیک کر دی ہے، دنیا نے اسے تسلیم کر لیا اور accept  کر لیا تو یہ ایک غلط روایت، بلکہ ایک خطرناک روایت بن جائے گی کہ اگلی بار وہ کچھ اور بھی آ کر کریں گے تو عالمی برادری انہیں کچھ نہیں کہے گی۔ مگر اس کے بعد ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ کیا ہماری طرف سے جو لوگ جاتے ہیں اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم انڈیا میں یہ کریں گے اور وہ کریں گے اور وہ دندناتے پھرتے ہیں کیا ہمیں اس کی بھی اجازت دے رکھنی چاہئے؟ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے پاکستان کے پالیسی سازوں کے لئے۔

ملک عمید: پاکستان کے پاس ان حالات میں فوجی و سفارتی سطح پر کیا آپشنز ہیں؟

\"raza-rumi7\"رضا رومی: دیکھئے ملٹری آپشنز کی طرف تو ہمیں جانا ہی نہیں چاہئے کیوں کہ ادھر ہیں نریندر مودی جو کہ چھپن انچ کی چھاتی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ پاکستان کو سبق سکھا دیں گے اور مزہ چکھا دیں گے وغیرہ۔۔ ادھر ماشا اللہ ہماری فوج کا جو ایک رویہ رہا ہے کہ ہندوستان کو شکست دینی ہے اور وہ زاہد حامد ٹائپ بیانیہ کہ ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہوں گے اور ہندوستان کو ختم کر دیا جائے گا وغیرہ۔۔ سو تناؤ کی شدت بڑھانے سے تو دور رہنا چاہئے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے پاس نیوکلئیر ہتھیار ہیں۔ اور یہ تناؤ کی شدت بڑھتی تو اگر کسی طرف سے ایک بھی غلطی ہوتی ہے تو اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں بلکہ دنیا کو بھگتنا ہوگا۔ کیوںکہ ایٹمی جنگ کے جو اثرات ہیں اس کے اوپر کوئی بات نہیں کی جاتی وہ آنے والی کئی نسلوں کو تباہ کر دے گی۔ ایک اسٹڈی تو یہ بتاتی ہے کہ جو عالمی فضا ہے وہ خراب ہو جائے گی۔ یعنی عالمی موسم بالکل بدل جائے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہندوستان سے کوئی آتا ہے پاکستان کی سرحد کے اندر اس کو مار بھگانا تو پاکستان کا حق ہے اس پر تو کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔ مگر زیادہ اہم سفارتکاری ہے اور سفارتکاری بھی دو طرفہ ہے۔ ہمارا تو ہمیشہ یہی انداز رہا ہے کہ امریکہ کو لے آؤ، روس کو لے آؤ، چین کو لے آؤ، یس پر ہندوستان تیار ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں پہلی دفعہ ایک امن پسند وزیراعظم منتخب ہوا ہے جو کہتا ہے کہ میں اپنے خطے میں امن رکھنا چاہتا ہوں۔ یہ ہمارے پاس ایک بہترین موقع ہے۔ رائے عامہ کو نواز شریف کا ساتھ دینا چاہئے۔ جو بھی نواز شریف کی کمزوریاں اور کوتاہیاں ہے انھیں بالائے طاق رکھ کے فی الحال نواز شریف کو فری ہینڈ دینا چاہئے کہ وہ بیک چینل مذاکرات کے ذریعے ڈپلومیسی کا آغاز کریں۔ ہندوستانی سائیڈ کو ٹھنڈا کریں، ان کو چپ کروائیں کیونکہ ان کا اثر یہاں پر ہوتا ہے اور یہی ہمارے اپنے میڈیا کو بھی کرنا چاہئے اور دو طرفہ سفارتکاری ہی سب سے بہترین آپشن ہے۔ دیکھئے دونوں ملکوں کے سفیر موجود ہیں، دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ موجود ہے۔ دونوں ملکوں میں بیک چینل لوگوں متعین ہیں۔ وہ بیٹھ کر گفتگو کا آغاز کریں کہ آخر ہندوستان کیا چاہتا ہے ہم سے اور پاکستان کیا چاہتا ہے۔ ہندوستان کا تو ہم جانتے ہیں کہ وہ چاہتا ہے حافظ سعید کی حوالگی اور ایسے ہی دوسرے اقدامات، نیز سرحد پار دہشت گردی کا مسئلہ اور ممبئی حملوں کے ٹرائل۔ دیکھئے دس سال ہوگئے ہیں اور اس کے اوپر کوئی خاطر خواہ ایکشن نہیں ہوا۔ اگر ہم پاکستانی اپنے آپ کو ہندوستان کی جگہ رکھ کر دیکھیں کہ ہمارے کسی بڑے شہر میں ہندوستان کی طرف ایسے کوئی آکر دنگا مچاتا ہے اور اس کے اوپر کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو ظاہر سی بات ہے کہ غصہ اور جذبات تو بھڑکیں گے نا۔ ہمیں اس چیز کا اندازہ ہونا چاہئے، ہم ہر وقت تو اندھی قوم پرستی کے ساتھ دنیا کو نہیں دیکھ سکتے۔ مگر زیادہ \"lahore\"اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کیا چاہتا ہے۔ پاکستان کا ایک بہت جینوئن خدشہ ہے اور یہاں مراد پاکستان کی فوج ہے، کہ اگر مشرق میں ہندوستان ہے اور مغرب میں بھی ہندوستان کا سکہ جم جائے گا تو فوج سمجھتی ہے کہ پاکستان دونوں طرف سے گِھر جائے گا۔ اب اس بات سے کیسے نکلا جائے؟ تو اس بات کا طریقہ یہی ہے کہ افغانستان میں جو بات چیت وقفے وقفے سے چل رہی ہے اس میں ہندوستان کو شامل کیا جائے اور یہ جو پاکستان کے تحفظات ہیں انہیں امریکہ اور چین کو بھی بتایا جائے اور ہندوستان کو بھی بتایا جائے کہ آپ نے اگر یہاں پر اچھے تعلقات بھی رکھنے ہیں تو آپ کیا ضمانت دیں گے کہ آپ 1971 کی طرح بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی حمایت نہیں کریں گے اور پاکستان کو توڑیں گے نہیں؟ اب دیکھیں کہ یہ تو ہندوستان پہلے ہی کر رہا ہے اور علیحدگی پسندوں کی حمایت بھی کر رہا ہے۔ ان کو سیاسی پناہ دینے کی بھی بات ہو رہی ہے۔ دور درشن نے بلوچی زبان میں نشریات کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ تو یہ سب اس بات کی نشانیاں ہے ہیں کہ نفسیاتی حربے پاکستان کے اوپر آزمائے جارہے ہیں۔ میرے خیال سے اس سے گریز کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنے بلوچ بھائی اور بہنوں کے جو مسائل ہیں ان پر توجہ دینی چاہئے۔ جو ان کے لاپتہ بچے ہیں انہیں فورا بازیاب کروا کر ان کے گھروں میں پہنچانا چاہئے۔ ایمنسٹی دینی چاہئے اور مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئے۔ اگر اس کے لئے ہیں آئین میں ترمیم بھی کرنی پڑے تو کیوں نہیں؟ جہاں 21 ترامیم ہوئی ہیں وہاں ایک اور سہی۔ دیکھئے بیسویں صدی میں دو بار تقسیم ہوئی ہے۔ پہلی 1947 میں اور ہم جانتے ہیں کہ کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں مولی گاجروں کی طرح کٹ گئے۔ اس کے بعد ہم نے 1971 میں دیکھا کہ کیسے عورتوں، بچوں اور عام شہریوں پر مظالم ہوئے۔ پاکستان نے بھی بہت برا کیا اور مکتی باہنی نے بھی قتل و غارت کی لیکن عام لوگوں پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹے۔ اسی لئے خدا نخواستہ ہم ایک اور خون کی ہولی کی طرف جائیں گے تو کیا ہمیں اکیسویں صدی میں شعوری طور پر ایسا سوچنا بھی چاہئے؟ تو یہ بچکانہ باتیں ہیں اور نفسیاتی حربے ہیں اور بلوچستان کے اگر شکوے اور شکایات ہیں تو انہیں دور کرنا چاہئے۔ ہندوستان کو سمجھنا چاہئے کہ بلوچستان اور کشمیر کا مسئلہ ایک نہیں ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ ہے چاہے وہ اس سے انکار کریں مگر وہ ہے۔ اس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں۔ لیکن پاکستان کی جو اشرافیہ ہے ان پر اخلاقی، سیاسی اور قومی فریضہ ہے کہ بلوچوں کی احساس محرومی، ان کا غصہ، اور جو نفرتیں جو وہاں پر جاگی ہوئی ہیں انہیں ٹھنڈا کر کے محبتوں میں بدل دیں۔

ملک عمید: یعنی آپ کہہ رہے ہیں کہ داخلی مسائل حل کرنے سے خارجی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی؟

\"raza-rumi8\"رضا رومی: بالکل، ہندوستان میں بھی تو دیکھئے نا کہ کشمیر کا مسئلہ، یہ ابھی وہاں پر جو اڑی میں ہوا،پھر اسٹرائیک ہوئی اور اب یہ سنا ہے بارہ مولا میں اٹیک ہوا ہے، ابھی میں دیکھ رہا ہوں کہ اس پر بڑی متضاد رپورٹیں آ رہی ہیں۔ تو یہ سب کیا ہے؟ یہ پچاسی دنوں سے وہاں پر ایک کرفیو لگا ہوا ہے، سینکڑوں لوگ وہاں پہ مارے گئے ہیں۔ پییلٹ گنوں کا استعمال ہوا ہے جس سے بچے اندھے ہوگئے ہیں۔۔ تو وہ تو سنبھل نہیں رہا ان سے کیوںکہ کوئی سیاسی حکمت عملی نہیں ہے سوائے کہ پاکستان یہ کر رہا ہے، پاکستان وہ کر رہا ہے۔۔ پاکستان کو مارو، اسٹرائیک کرو وغیرہ جیسے اس سے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس سے کچھ ٹھیک نہیں ہونے والا۔۔۔ اگر کچھ ٹھیک ہونا ہوتا تو اتنی بڑی فوج کے ساتھ ابھی تک کشمیریوں کو لائین پر آجانا چاہئے تھا۔ لیکن وہ نہیں آئے۔ اگرچہ تاریخی طور پر کشمیری صلح جو اور امن پسند لوگ ہیں۔ اگر ان کے بچوں نے ہتھیار اٹھائے بھی ہیں تو حکومت ہند کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ہے؟ اگر ہتھیار اٹھائے ہیں تو اسے اٹھانے کی وجہ جاننی چاہئے۔ یہی بات ہمارے بھی ہے، اگر بلوچ بچے بغاوت کر کے ریاست پاکستان پر حملے کر رہے ہیں، گوادر پر حملہ کرنا چاہتے ہیں وغیرہ تو حکومت دیکھے کہ وہ ایسا کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ اس کے لئے صرف ہندوستان کی سپورٹ تو نہیں ہے، نہ اس سے یہ سب ہوتا ہے۔ وہاں سپورٹ تو ہے اور فوج نے وہاں ہندوستانی ایجنٹ پکڑا بھی ہے، کلبھوشن یادو، جو شاید ایران سے کام کر رہا تھا مگر جو بنیادی مسئلہ ہے وہ ہماری اپنی منیجمنٹ کا اور گورننس کا ہے۔

ملک عمید: ایسے حالات میں جب کہ پاکستانی فوج دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے، ملک کی سیکیورٹی کو پھر سے بھارت سے خطرات بڑھ گئے ہیں، اس سے فوجی آپریشن پر کیا اثرات پڑیں گے؟ کیا ہم پھر نوے کی دہائی میں دھکیلے جا رہے ہیں؟

رضا رومی: نوے کی دہائی میں داخلی عدم استحکام کا عنصر بھی تھا۔ نوے کی دہائی میں کسی حکومت نے ٹک کر کام ہی نہیں کیا۔ اگر آپ دیکھیں کہ 1988 سے لے کر 1999 تک نگران وزیراعظم شامل کر کے نو وزیراعظم پاکستان کے رہے اور ہر بیس پچیس مہینے بعد حکومت بدلتی تھی جس کے لئے 58 2بی  کا استعمال ہوتا تھا۔ اس لئے میں اب کے حالات کو نوے سے نہیں ملاؤں گا۔۔ بات یہ ہے کہ پاکستان کی فوج ضرب عضب میں 2014 سے اب تک مصروف ہے۔ اس آپریشن کے دوران آرمی مکمل طور پر فاٹا اور خیبر پختونخوا میں مصروف رہی ہے اور اب اپنا دائرہ کار بڑھا بھی رہی ہے۔ کراچی میں بھی کوشش کر رہی ہے کہ فوج کچھ کرے اور اس پر بڑے تحفظات ہیں۔ لیکن ہندوستان کی طرف سے یہ جو جارحیت کا مظاہرہ ہو رہا ہے اس سے ظاہری بات ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جاری مہم پر اثر پڑے گا۔ کیوںکہ اس سے آپ کا فوکس ہٹ جاتا ہے۔ اس وقت یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ بارڈر پر حالات معمول پر آجائیں۔ یہ ہندوستان کے مفاد میں بھی ہے کیونکہ وہ ہر وقت اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ وہ معاشی طور پر آگے نکل گیا ہے، وہ سوپر پاور بن رہا ہے، وہ چین کا مقابلہ کرے گا تو بھئی آپ کی معاشی ترقی کے اوپر اثر پڑے گا نا اگر پاکستان کے ساتھ آپ کی مستقل تناؤ اور جھگڑے کی کیفیت رہے گی۔ دونوں \"raza-rumi2\"ممالک کی شعوری چوائس تو یہ ہونی چاہئے کہ وہ کم از کم امن نہیں تو معمول کے حالات کی جانب واپس لوٹ آئیں۔ دنیا میں اور بھی دشمن ملک ساتھ میں رہتے ہیں، ہر وقت وہ \’پنگا\’ اور دنگا نہیں کرتے۔ اس میں میرے خیال سے مودی کا اور وزیراعظم نواز شریف کا بہت اہم رول ہے کہ وہ اس موجودہ حالت کو تبدیل کرنے کے لئے کچھ کریں۔ اگر میاں صاحب یہ کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں پالیسی ہی نہیں ہے اور فوج وہ پالیسی چلاتی ہے تو میاں صاحب اس کا کوئی بندوبست کریں۔ وہ سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیں، بات چیت تو آگے بڑھائیں۔ اب یہ تو کافی نہیں ہے کہ جی خارجہ پالیسی پر میرا کنٹرول نہیں ہے تو میں کچھ بھی نہیں کروں گا۔ یہ تو کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ لوگوں نے ووٹ نواز شریف کو دیئے ہیں، احتساب نواز شریف کا ہی ہوگا۔ اگر اس میں رکاوٹیں ہیں تو پھر نواز شریف عوام کو اعتماد میں لیں یا وہ استعفیٰ دیں یا وہ کچھ تو کریں۔ کیونکہ یہ مستقل فوج کی کورٹ میں بال پھینکنا بھی مناسب نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ جاننا چاہئے کہ میں کوئی ن لیگ کا سپورٹر نہیں ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میاں صاحب کی پالیسی کا جو ایجنڈا ہے وہ اچھا ہے جس میں معاشی ترقی اور ہمسایوں سے امن شامل ہے۔ لیکن خارجہ پالیسی پر میاں صاحب کا عمل درآمد بہت خراب ہے۔ مثلاً کوئی کل وقتی وزیر خارجہ نہیں ہے لوگ کہہ کہہ کر، لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں اور کان پر جوں نہیں رینگتی۔ بھائی بات یہ ہے کہ آپ کی پارٹی میں اتنے لوگ موجود ہیں، خرم دستگیر ہیں مثلاً، ایک نوجوان پڑھے لکھے منسٹر ہیں۔۔ پندہرہ بیس نام میں آپ کو دے سکتا ہوں پارٹی کے اور ٹیکنوکریٹس بھی ہیں۔ آپ کسی کو کل وقتی وزیر خارجہ بنائیں، وہ خارجہ پالیسی پر عمل کا آغاز کرے، وہ جا کر ایران سے بات کرے، افغانستان سے بات کرے، ہندوستان اور امریکہ سے بات کرے۔ یہ ایک کل وقتی وزیر خارجہ کا کام ہوتا ہے۔ دوسرا انہوں نے ایک نیشنل سکیورٹی کمیٹی بنائی تھی جس کا کم از کم ایک اجلاس ہفتہ وار ہونا تھا۔ آپ اس کا اجلاس بلائیں، آپ طلب کریں آرمی چیف کو، بلائیں وزیر خارجہ کو، اپوزیشن لیڈر کو اور بیٹھ کر کوئی پالیسی سازی کریں۔ پھر آپ کے پاس پارلیمانی کمیٹیاں ہوتی ہیں، نیشنل سکیورٹی کی، امور خارجہ کی یہ سارے ادارے موجود ہیں، ان پر کام نہیں ہوتا کیونکہ جو میاں صاحب کا گورننس کا انداز ہے وہ وہی پرانا نوے کی دہائی والا ہے، مغل بادشاہوں والا کہ کچن کیبنٹ بیٹھی ہوئی ہے اور ادھر میاں صاحب اپنی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں کہ اچھا جی بتاؤ ہن کی کریے۔ اس طرح سے نہیں ہوتا جمہوریت میں۔ بیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں بڑا پیچیدہ معاشرہ ہوتا ہے۔ نوے چینل ہیں جن میں تیس کے قریب چوبیس گھنٹہ کام کرتے ہیں۔ آپ کو آگے بڑھ کر دکھانا ہوتا ہے کہ آپ خارجہ پالیسی کو مینیج کر رہے ہیں۔ میرے خیال سے یہ ایک بہت بڑا خلا ہے پاکستان میں۔ یہ ابھی سے نہیں ہے بلکہ شروع سے ہی ہے اور اس میں فوج کا جو بھی رویہ ہو، اور فرض کر لیں کہ جیسے میاں صاحب کے حلقوں میں بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ فوج میاں صاحب کو چلنے نہیں دے رہی، اگر آپ اس کو تسلیم بھی کر لیں تو سوال یہ ہے کہ کیا میاں صاحب خود اپنے آپ کو چلنے دے رہے ہیں؟

ملک عمید: ملک کو خارجی سطح پر خطرات کے بڑھنے کی وجہ سے فوج کا کردار واضح طور پر ابھرا ہے، اس سے مستقبل میں سول ملٹری تعلقات اور جمہوری استحکام پر کیا اثرات پڑیں گے؟

\"raza-rumi9\"رضا رومی: سول ملٹری تعلقات میں مسئلہ تو ہے ہی اور وہ بہت پہلے سے ہے کیوںکہ میاں صاحب کو فوج نے 99 میں بطور ادارہ غیر قانونی طور پر نکالا۔ یہ بات ہم بھول جاتے ہیں، ہمارا میڈیا بھی اسے نظر انداز کرتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ جی مشرف نے کیا تھا، میاں صاحب خود بھی یہی لائین لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج نے ایک ادارے کے طور پر میاں صاحب کو فارغ کیا تھا۔ اس کے پیچھے بہت سی وجوہات تھیں۔ اس سے پہلے جہانگیر کرامت والا معاملہ بھی ہوا۔ مطلب یہ کہ میاں صاحب کا شروع سے ہی فوج کے ساتھ پھڈا رہا ہے اور ابھی بھی ہے۔ اور اب ہندوستان کی طرف سے سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ اور یہ تصادم کی کیفیت، تو حقیقت یہ ہے اور ستم ظریفی بھی کہ اس سے پاکستان کی فوج داخلی طور پر مزید مضبوط ہو کر سامنے آئے گی۔ کیونکہ جب بھی جنگ کی صورت حال ہوگی، تصادم کی صورت حال ہوگی تو پورا ملک اور اس کی رائے عامہ فوج کی جانب دیکھتی ہے کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ کون بچائے گا؟ اگر پاکستان کے اوپر ہندوستان کا حملہ ہوا، اس وقت تو فوج بچائے گی۔ تو آرمی کا کردار تو مزید آگے بڑھے گا اور آرمی چیف کا بھی کردار مزید آگے بڑھے گا۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان اور جمہوریت کے لئے بہت نازک وقت ہے۔ اگر یہ تصادم کی فضا مزید بڑھے گی تو آپ یہ دیکھیں گے، اور ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں مگر تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ایسے میں فوج کا کردار مضبوط ہوتا ہے اور اگر ایسے ہی تصادم مزید گہرا ہوتا رہا تو لوگ بھی پھر کہنے لگ جائیں گے کہ جی اس سسٹم کو فارغ کرو اور کوئی قومی حکومت بناؤ یا فوج کو مزید کردار دو یا یہ کہ ملک ہی ان کے حوالے کر دو کہ یہ سولین تو نہیں بچا سکتے وغیرہ۔ تو یہ بھی ایک خطرناک صورت حال ہوسکتی ہے اس لئے بھی بہت ضروری ہے کہ میاں صاحب اور پارلیمنٹ ایک ادارے کے طور پر اس تناؤ کو کم سے کم کرے اور کوشش یہ کرے کہ اس کو تناؤ کی شدت کو کم کریں کیونکہ ہمیں اس وقت دہشت گردی کی جنگ لڑنی ہے۔ ضرب عضب کے سارے اہداف حاصل کرنے ہیں۔ ہمیں ایران کے ساتھ پائپ لائین بنانی ہے تاکہ گیس ہمارے ملک میں آئے، لوڈ شیڈنگ ختم کرنی ہے اور معاشی طور پر ملک کو مستحکم کرنا ہے۔ ہمیں افغاستان کے استحکام کے لئے کام کرنا ہے۔ تو اگر ہم اس تصادم میں مزید الجھ جائیں گے، ادھر افغانستان کے ساتھ پھڈا، ادھر ہندوستان کے ساتھ جھگڑا، ایران کے ساتھ ٹینشن، امریکہ کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات تو پھر صرف معاشی راہداری کا ایک منصوبہ ہمیں نہیں بچا سکے گا۔ سو ہمارا اس وقت جو واحد مقصد ہونا چاہئے وہ داخلی و خارجی استحکام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments