غیرت  کے نام پر قتل اور پاکستانی مسلمان


چند دن قبل پاکستان میں ایک جرگے نے اسلامی تعلیمات کے خلاف عمل کرتے ہوئے ایک لڑکی کو غیرت کے نام پر زندہ جلا دینے کا فیصلہ دیا اوراس فیصلے پر فوراً عمل کرتے ہوئے  لڑکی کو زندہ جلا دیا گیا۔ یہ واقعہ خیبر پختونخوا میں پیش آیا جو کہ غالباً پاکستان کا سب سے زیادہ مذہبی صوبہ سمجھا جاتا ہے ہمارے دانشور  ہمیشہ کی طرح ہمیں یہ باور کرا رہے ہیں کہ  جرگے کا فیصلہ غیر اسلامی ہے اور نہ صرف یہ کہ اس کا ہمارے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے  بلکہ ہمارا مذہب اور سچے مسلمان اس کی انتہائی مخالفت اور شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم جیسے کم عقل لوگ جنہیں مذہب کا علم  بھی کم ہی ہے تذّبذب کا شکار  رہتے ہیں ان کے لئے آئینہ ہے کہ  اس بھیانک واقعے پر ملک کے مذہبی حلقوں کو شدید ٹھیس  پہنچی ہے اور اسی شدًت سے اس کا رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔

پورے ملک میں امام مساجد نے اس واقعہ کی بھرپور  مذمّت کی ہے۔ زندہ جلائی جانے والی لڑکی کو شہید قرار دیا گیا ہے اور شہید کا مقام تو جنّت ہی ہوتا ہے۔ مزید کہا گیا کہ تمام لڑکیوں کو اپنی مرضی کی شادیاں کرنے کا  اسلامی حق ہے اور انہیں  اپنی مرضی کی شادی سے روکنا اسلامی اقدار اور تعلیمات کے خلاف ہے ۔ اسی طرح مرضی کی شادی چونکہ ایک جائز عمل ہے اور جائز عمل میں دوسروں کی مدد کرنا بھی عین عبادت ہے لہٰذہ سب لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ بلا خوف و خطر اپنی ایسی سہیلیوں کی مدد کریں جو شادی کرنے کے لئے اپنا اسلامی حق حاصل کرنا چاہتی ہیں اور کوئی ان کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے۔

 امام مساجد  نے اس بات پر بھی زور دیا کہ  باپ اور بھائی قطعاً یہ حق نہیں رکھتے کہ وہ شادی کے معاملے میں اپنی بیٹیوں اور بہنوں پر اپنے فیصلے مسلط کریں۔ ہم چونکہ سچے مسلمان ہیں اس لئے کوئی بھی ایسی رسم ہماری غیرت کے خلاف نہیں ہو سکتی  جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہو۔  جمعے کے خطبے کو اس بات کے لئے خاص طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اور جمعے کی نماز کے موقع پر  موجود تمام مردوں سے یہ وعدہ لیا گیا  کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو اپنی مرضی کی شادیوں کا حق دیں گے۔ نماز جمعہ کے بعد سارے ملک میں جلوس نکالے گئے  جیسے کہ اسلام یا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے واقعات، چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی رونما ہوں، پر نکالے جاتے ہیں۔ ان جلوسوں کی قیادت بھی تمام جیّد علما نے کی۔ اس میں علامہ شیرانی صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں  اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے وہ عورتوں کے بنیادی انسانی حقوق کے لئے خاص طور پر فکرمند رہتے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔  انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کم عمر لڑکیاں بھی اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہیں ہاں بس رخصتی بلوغت کی عمر سے پہلے مناسب نہیں ہے۔ بلاوغت کے بعد البتہ رخحصتی مین تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ موت برحق ہے اور ہم، خاص طور پر پکی عمر کے لوگ، اس کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں یعنی خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔

جیسے کہ پہلے ذکر  کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ اس صوبے میں ہوا جہاں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور یہ دونوں پارٹیاں پاکستان میں حقیقی اسلامی نظام کی خواہاں ہیں۔ یہ دونوں پارٹیاں شرمندہ اور پریشان ہیں اور چاہتی ہیں کہ آئندہ کبھی ایسا واقعہ نہ پیش آئے اس سلسلے میں دونوں پارٹیوں کے سربراہوں اور صوبے کے وزیراعلیٰ نے سخت اور واضع مذمّتی بیان جاری کیے ہیں انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ایسے واقعات  کی روک تھام کے لئے خاص انتظام کیے جائیں گے۔  جماعت اسلامی کے سربراہ نے خاص طور پر کہا کہ  اسلام لڑکی کو مرضی کی شادی کا حق دیتا ہے لہٰذا  اس صوبے میں اب ایسا قانون پاس کیا جائے گا کہ ہر لڑکی اپنا مذہبی حق استعمال کر سکے یعنی مرضی کی شادی کر سکے گی اور کوئی دوسرا شخص اس کی راہ میں روڑے نہیں اٹکا سکے گا۔  انہوں نے اس واقعے میں شہید ہونے والی لڑکی کی غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی جس میں جماعت اسلامی اور اسلامی  جمعیت طلباء کے کارکنوں کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔

اس واقعے پر تمام مذہبی جماعتوں کے سربراہان، علما اور مشائخ بہت پریشان  ہیں۔ پاکستان کی 35 مذہبی سیاسی پارٹیوں نے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا جیسا کہ انہوں نے  چند مہینے قبل پنجاب اسمبلی میں پاس ہونے والے عورتوں کو تشدّد سے تحفظ کے قانون کے موقع پر کیا تھا ۔ اس اجلاس میں کیے گئے فیصلے کے مطابق لڑکیوں اور عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کی شدّید مذمّت کی گئی اور  تمام والدین اور بھائیوں کو واضح اور سخت الفاظ میں تنبیہ کی گئی کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق لڑکیوں کو اپنی مرضی کی شادیاں کرنے سے نہ روکیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ  اس گھناؤنے جرم میں شامل مردوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور اس سلسلے میں قوانین میں جو سقم موجود ہیں انہیں فوراً دور کرنے کا  مطالبہ بھی کیا گیا تاکہ غیرت کے نام پر اپنی گھر کی خواتین کو قتل کرنے والا مرد سزا سے بچ نہ سکے۔

اسلامی سیاسی اور سماجی امور کے ماہر تجزیہ نگار جناب اوریا مقبول جان اور انصار عباسی صاحبان نے اس واقعہ کی بھرپور مذمّت کی اور اسے پاکستان اور اسلام کے خلاف مغرب کی سازش قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام نے عورت کو مردوں کے برابر تمام انسانی حقوق دئے ہیں۔ اور یہ جو آج یورپ اور امریکہ میں عورتوں کو یہ حق کافی حد تک حاصل ہو گیا ہے کہ وہ انسانوں والی زندگی گزار سکتی ہیں یہ آئیڈیا انہوں نے اسلام ہی سے چوری کیا ہے اور ظلم تو یہ ہے کہ وہ سارا ہی چوری کر کے لے گئے ہیں اور ہمارے پاس کچھ بچا ہی نہیں۔

اس واقعہ پر جناب جنید جمشید خاموش رہے ہاں البتہ اتنا کہا کہ جرگے کے ممبران اگلی مرتبہ جب رائیونڈ آئیں تو  مجھ سے ضرور ملیں ان کی زیارت کے لئے بے چین ہوں۔ مولانا طارق جمیل صاحب نے فرمایا کہ تمام جرگہ ممبران کو سہ روزہ ہر مہینہ باقاعدگی سے لگانا چاہئے۔

اب امید کی جاتی ہے کہ انسانی حقوق خاص طور پر عورتوں کے حقوق کا پرچارک مغرب زدہ لوگوں کا وہ گروپ جو پاکستان کو بدنام کرنے کے درپے رہتا ہے ضرور شرمندہ ہو گا اور ہمارے معاشرے کے رہن سہن کے طریقوں کے خلاف بولنے کا بہانہ ڈھونڈ نہیں پائے گا۔ May 13, 2016

  جمعـء 22 فروری 2019- ایبٹ آباد: تین سال قبل ایبٹ آباد کے گاؤں مکول پائن میں زندہ جلائی جانے والی نوعمر لڑکی امبرین قتل کیس کے تمام 15 ملزمان بری ہوگئے۔ ایکسپریس نیوزکے مطابق ایبٹ آباد کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے امبرین قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کیس میں نامزد تمام 15 ملزمان کو باعزت بری کردیا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik