سُن اے خرد مند، ہم جو دو بھائی تھے۔۔۔


تھے تو جڑواں بھائی لیکن بنتی بالکل نہیں تھی۔ جنم دن سے دونوں میں ہر وقت ٹھنی رہتی تھی اور روٹھنے اور منانے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ایک کو زعم بڑائی کا بہت تھا اور اپنے برابر کے بھائی  کو ہمیشہ تحقیر و تنفر کی نظر سے دیکھتا تھا۔

اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے چپقلش کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ بظاہر صلح صفائی اور محبت اخوت کی کوششیں کرتے رہتے لیکن اندرون خانہ صاف نظر آتا تھا کہ جب موقع ملا ایک یا تو ہاتھ چھڑا کے بھاگ جائے  گا یا دوسرا اس کو سرنگوں کر کے چھوڑے گا۔

اسی آنکھ مچولی میں صبح شام کرتے 24 سال گزر گۓ اور دونوں بھائی  جوان ہو گئے۔ شاید سنبھل بھی جاتے اور بھائی  چارے کا رشتہ اٹک مٹک کرتا چلتا رہتا۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا کہ ایک کو خود نمائی اور خود پسندی کا عارضہ تھا دوسرا حوادث زمانہ کا شکار شروع ہی سے لاچار اور کمزور تھا۔ رہی سہی کسر درمیانی فاصلوں نے پوری کر دی تھی۔

فاصلہ بھی کوئی ایسا ویسا نہیں ہزاروں میل کا اور درمیان میں کھڑا ترنگا جو بھائیوں کی پیدائش کے دن سے ہی روزانہ کی بنیاد پر جڑوں میں آگ بھرنے اور تیل چھڑکنے اور ہاتھ تاپنے کا کام کر رہا تھا۔ یہی نہں وہ نفرتوں اور بد گمانیوں کے بیج بھی بوتا رہا تاوقتیکہ فصل تیار نہ ہو گئی۔ فصل تیار ہوئی، بار آور ہوئی اور کاٹ لی گئی۔

اس فصل کے بار آور ہونے اور کٹائی تک کے مرحلے میں خون کی ندیاں بہیں، عزتوں عصمتوں کے بے گور کفن جنازے اُٹھے، یتیموں بیواؤں کی قطار لگی، تندرست بدن اپاہج ہوئے، چارہ ساز لاچار ہع گئے۔

 ایک دنیا تماشہ دیکھتی رہی، بھائیوں کی لڑائی کے مزے لیتی رہی، اوپر اوپر سے زخموں کی رفو گری کرتی رہی لیکن اندر اندر ہی زخموں کو کھرچتی رہی تاکہ وہ تازہ رہیں۔

مجھے دسمبر کی سرد شاموں میں 1971 کی وہ سرد خشک اداسی میں ڈوبی شام ضرور یاد آتی ہے۔ جب جنگ کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری تھا اور کراچی کے ساحل پہ واقع تیل کی ذخیرہ گاہوں پہ ہونے والی بمباری کے نتیجے میں دنوں آگ بھڑکی رہی اور آسمان لال بھبوکا بنا رہا تھا۔

ہم سب بہن بھائی  سر شام گھر کی چھت پہ کھڑے ہو کے یہ اندازہ لگانے کی کوشش ضرور کرتے تھے کہ آگ میں کوئی کمی واقع ہوئی کہ نہیں؟ کیونکہ حالت جنگ کے سبب رات کو چھت پہ جانے کی اجازت نہ تھی۔

وہ 16 دسمبر کی انتہائی خشک اور ٹھنڈی شام تھی، سڑک پہ اکا دکا سواریاں آ جا رہی تھیں۔

ہمارے والد اور تایا گھر کے باہر کھڑے اہل محلہ کے ساتھ پل پل بدلتی جنگی صورت حال پہ گفتگو کر رہے تھے کہ مغرب سے کچھ قبل پاس سے گزرتے ایک صاحب نے کچھ کہا اور آگے بڑھ گیا۔ شانہ بشانہ کھڑے تمام مردوں میں لگا ایک دم جھرجھری سی دوڑ گئی ہے۔ سب مرد لمبے لمبے قدموں سے اپنے گھروں کی طرف بڑھ گئے۔ کسی نے کسی سے پلٹ کر ایک لفظ کہا اور نہ سنا۔

ہمارے والد اور تایا بھی اندر آگئے۔ چند لمحوں بعد ہمارے والد اوپر چھت پہ آئے تو شدت ضبط سے ان کے لب سفید، آنکھیں نمی سے لبریز اور چہرہ ایک دم جامد تھا۔ ہم سب نے خاموشی سے ان کی جانب دیکھا لیکن بولا کوئی نہیں۔ بہت دھیمی آواز میں انھوں نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا “وہ جڑواں بھائی جسے مشرقی پاکستان کہتے تھے الگ ہو گیا ہے”۔

امی نے زور سے کہا” یہ کیسے ہو سکتا ہے”۔

پاپا نے لمبی سانس بھرتے ہوۓ کہا “ہو گیا ہے”۔

اس شب کسی انہونی کی امید میں سب نے باجماعت بی بی سی کی ریڈیائی نشریات کو انتہائی خضوع وخشوع کے ساتھ لفظ با لفظ سنا لیکن حقیقت نہ بدلی۔

مجھے یاد ہے اس شب سب نے برائے نام کھانا کھایا تھا جبکہ پاپا منہ سر لپیٹے خاموش بیٹھے رہے۔ نہ کھانا کھایا نہ کسی سے بات کی بس خالی خالی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے رہے (فوجی تھے نا)

اس رات خطرے کا کوئی سائرن نہیں بجا، ساحل کی آگ جلتی رہی۔

ہم میں سے کسی کے استفسار پہ پاپا نے کہا اب سائرن نہیں بجے گا۔ خود کی سمجھ کا پیمانہ اس وقت اتنا بڑا نہیں تھا کہ اس جملے کی گہرائی تک پہنچ سکتا۔ بس اس بات پہ ہی دل شاد تھا کہ سائرن نہیں بجے گا۔

اگلی صبح کا اخبار یہاں سے وہاں تک سیاہ تھا۔

پھر الزام در الزام، صفائی در صفائی کا سلسلہ جو شروع ہوا وہ آج تک جاری ہے۔ کیا کچھ نہ ہوتا رہا، دھول اڑتی رہی گرد بیٹھتی رہی، دھواں نکلتا رہا، آنسو بہتے رہے، اور ہم ایک دوسرے پہ الزامات کی بوچھاڑ کرتے رہے۔

مجھے یاد ہے، ہمارے گھر میں بہت دنوں تک ڈھاکہ، جیسور، کھلنا کے کناروں اور ان شہروں میں بسنے والوں کی اچھی بری باتوں عادتوں کا تذکرہ ہوتا رہا۔ امی پاپا کی اس گفتگو میں ، میں بھی اکثر اپنے بچپن کے جگنو جگانے کی کوشش کرتی اور معصومیت کے اس دور سے جڑی بہت سی باتوں کا اعادہ کرتی۔ بے تحاشہ لمبی دم والا لنگور جو درختوں پہ ادھر سے ادُھر چھلانگیں لگاتا تھا اور جس کی آواز سے ہماری سانسیں رک جاتی تھیں، گھر سے تھوڑے فاصلے پہ واقع تالاب کے کنارے بیٹھے زردی مائل بڑے بڑے مینڈک، طرح طرح کے پرندے، درختوں میں لٹکتے سبز سانپ، کھٹل کے خوشبو دیتے پیڑ، تاڑ، چھالی اور ناریل کے آسمان کو چھوتےدرخت—

ہمارے اطراف کے گھروں میں رہنے والوں کا ہمارے بارے میں یہ کہنا “پنجابی مانس باڑی”۔ ایک زمانے بعد پتہ چلا کہ ادھر سے جانے والے سب لوگ وہاں پنجابی ہی کہلاتے تھے۔

وقت گزرتا گیا کہ اس کا کام گزرنا ہی ہے۔ بہت کچھ بدل گیا ہے ان گنت کردار صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ ایک ایک کر کے پچاس سال گزر چکے ہیں۔ اس بیچ درجنوں کتب، سینکڑوں مضامین، مقالے اور تجزیے منظر عام پہ آچکے ہیں۔ جن میں بہت کچھ سبق آموز ہوتا ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ہم سبق لینے، سبق پڑھنے اور سبق سننے کو تیار ہی نہیں۔

آج بھی ہمارا رویہ جڑواں بھائیوں میں سے اس بھائی  والا ہی ہے جس کی گردن میں سریا تھا، جس نے اپنے قد کو اتنا اونچا سمجھ لیا تھا کہ اسے ناک کے نیچے کا نظر نہیں آتا تھا، جس کی بینائی پہ خود پسندی کی چادر چڑھی رہتی تھی، جس نے اپنے جڑواں کو ہمیشہ تحقیر سے دیکھا اور برتا تھا۔

کمبھ کے میلے میں جڑواں بھائی  کا ہاتھ چھوڑتے وقت خود پسند کا خیال تھا کہ چار دن میں ان ننگے بھوکوں کو دن میں تارے اور آٹے دال کا بھاؤ پتہ چل جائے گا۔

ان کو تارے نظر آئے کہ نہیں لیکن ان کو تارے لگ ضرور گئے۔

چوبیس سالہ گبھرو جوان کے الگ ہونے کے 28 سال بعد ایک کانفرنس میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میری یادوں کے آنگن میں بسا ڈھاکہ وہاں کہیں نہ تھا — نہ ہی وہ ننگا بھوکا بنگو نظر آیا جس کا ذکر ہمارے ہاں دانت دبا کے کیا جاتا ہے۔

وہاں ایک ہنستی بولتی، جیتی جاگتی، چلتی پھرتی قوم سڑکوں، گلیوں، بازاروں بنکوں، دکانوں، درسگاہوں میں جی رہی ہے۔

صبح دم اور سر شام موتی جھیل کا علاقہ محنت مزدوری کرنے والے جفاکشوں کسی کے آگے نہ جھکنے والے سروں سے بھر جاتا ہے۔

ایک ایسی قوم کے سروں سے جس نے بھوک افلاس پہ قابو پانے کے لئے آبادی کے بڑھاؤ پہ کنٹرول کرلیا۔ جس نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کے طریقے ایجاد کر لئے، جہاں رکشہ چلانے والا بھی انگریزی بول اور سمجھ سکتا ہے، جہاں کا بچہ بچہ بنگالی ہے اور اپنے بنگالی ہونے پہ فخر کرتا ہے۔

جن کی ترقی کا موازنہ مشرق بعید کے ممالک سے تو کیا جا سکتا ہے لیکن میلے میں ہاتھ چھڑانے والے جڑواں بھائی سے نہیں۔

بھائی  تو بچھڑا سو بچھڑا، دکھ اس بات کا ہے ہم نے اس سانحہ، اس حادثے سے، بخت کی اس سیاہی سے کچھ نہیں سیکھا- نہ رویہ بدلا نہ سوچنے کا انداز، ہم آج بھی ایک دوسرے کو تحقیر اور تنفر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ تحقیر آمیز انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے اور ایک دوسرے کے کھیتوں میں پانی چھوڑنے کے چکر میں رہتے ہیں۔

ہم وہ ظالم ہیں جس کی مثال اس سانپنی کی سی ہے جو انڈے سے نکلتے بچوں کو ساتھ ساتھ نگلتی رہتی ہے۔

کیلنڈر بدلتا رہا لیکن ہم نہیں بدلے

ہم نے اپنے بچوں کو ان معصوموں کو جن کا قصور اس دنیا میں آنے کے علاوہ کچھ نہ تھا، انھیں بھی نہیں بخشا— ہمارے بد اعمالوں اور سازشوں کے مکروہ جال میں ہمارے مستقبل کے معمار 16 دسمبر 2014 کو نشانہ بنے۔ بچوں کی آنکھوں میں گولیوں ماری گئیں، ان کی ماں جیسی اساتذہ کو اُن کے سامنے مار دیا گیا۔

اس کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہم غلطی کو ماننے اور حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہم آج بھی الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں۔ پتہ نہیں بنانے والے نے ہمیں کس مٹی سے بنایا ہے؟

یادوں کے جزیرے میں بادبان کھلی کشتیاں ادھر سے ادھُر لہروں کے رحم کرم پہ ڈول رہی ہیں۔ آج بھی 16 دسمبر کی یہ شام سرد اور خشک ہے۔ اب پتہ نہیں یہ 16 کا قصور ہے یا دسمبر کا !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).