خواجہ سرا کی الگ شناخت والا پہلا پاسپورٹ جاری


پاکستان میں خواجہ سرا برادری کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ شناختی کارڈز اور پاپسورٹ میں ان کا اندراج مرد اور عورت کی بجائے بطور تیسری جنس کیا جانا چاہیے اور اب پہلی بار ملک میں ایک خواجہ سرا کو ایسا پاسپورٹ جاری کیا گیا ہے جس میں ان کی شناخت مرد یا عورت کے بجائے تیسری جنس کے طور پر کی گئی ہے۔

خواجہ سرا برادری کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن فرزانہ جان اپنی برداری کی پہلی فرد ہیں جن کو یہ پاسپورٹ جاری کیا گیا ہے جس میں میں ان کی جنس کو انگریزی کے حروف تہجی “ایکس” سے ظاہر کیا گیا ہے۔

اگرچہ سرکاری طور پر اس پیش رفت کے بارے میں کوئی تفصیل جاری نہیں کی گئی تاہم صوبہ خیبر پختوںخواہ میں خواجہ سرا برادری کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘ٹرانس ایکشن پاکستان’ نے اپنے فیس بک صفحے پر اس اقدام کو سراہا ہے۔

فرزانہ جان نے کہا کہ ” بین الاقومی طور پر (دیگر ملکوں) میں خواجہ سراؤں کے لیے پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات میں جنس کے خانے میں ‘ایکس’ لکھا ہوتا ہے مجھے بھی یہی بتایا گیا کہ آپ کے لیے بھی ایکس ہی لکھا جائے گا۔ “

انہوں نے کہا اب ان کے شناختی کارڈ میں بھی جنس کے خانے میں ‘ایکس’ ہی لکھا گیا ہے یہ ان کے لیے اور ان کی برادری کے دیگر افراد کے لیے اطمینان بخش امر ہے ۔

“اس سے یہ ہوا ہے کہ ہمیں شناخت مل گئی ہے جیسے مرد یا اور عورت کو ملی ہوئی ہے بہت ساری چیزیں ایسی تھیں جو ہماری برادری کے لیے انوکھی سی ہیں کیونکہ ہماری برادری کے جو لوگ ہیں وہ ان معاملات سے واقف نہیں تھے پھر ہم نے جدوجہد کی اور اب اس کی وجہ سے ہماری برادری کو کئی معاملات میں آسانی ہو گی۔ “

چند سال قبل پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے خواجہ سراؤں کو دیگر شہریوں کے برابر تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ ان کے سماجی و شہری حقوق کے تحفظ اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے قانونی سازی کی جائے۔

خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے ایک سرگرم کارکن بندیا رانا نے کہا ہے کہ ” سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وراثت میں حصہ، مفت تعلیم اور صحت کی سہولت اور (سرکاری ملازمتوں میں ) دو فیصد کوٹا لیکن جب ان کے احکامات آ جاتے ہیں اور ان پر قانوی سازی نہیں ہوتی تو اس وقت تک ان پرعمل درآمد نہیں ہو سکتا ہے۔”

دوسری طرف حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مختلف انتظامی اقدامات کیے جارہے ہیں اور انہیں روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے جارہے ہیں۔

تاہم فرزانہ جان کا کہنا ہے کہ خواجہ سرا برادری کو خود بھی سماج سے الگ تھلگ رہنے کی بجائے معاشرے کے مرکزی دھارے میں آنا ہو گا۔ “خوجہ سرا جب تک تعلیم حاصل نہیں کریں گے اور معاشرے میں نہیں بیھٹیں گے یا کسی دفتر میں نہیں ہوں گے اور اپنا کاروبار نہیں کریں گے اور دوسروں سے میل جول نہیں رکھیں گے تو یہ اچھا نہیں ہو گا جب تک ہم چار دیواری میں بیھٹیں گے تو ہم کچھ نہیں ہیں۔”

پاکستان میں خواجہ سراؤں کا شمار معاشرے کے ان محروم طبقات میں ہوتا ہے جنہیں کئی دیگر مشکلات کےعلاوہ سماج کے منفی رویوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور گزشتہ چند سالوں میں سول سوسائٹی اور دیگر افراد ان کے حقوق کے لیے تواتر کے ساتھ آواز بلند کرتی آرہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).