سیاسی پناہ اور ریاست کی ناکامی


چیف جسٹس صاحب کے بقول اگر آسیہ بی بی پاکستان سے باہر کسی بھی ملک میں پناہ لیتی ہے تو یہ حکومت کی ناکامی ہوگی۔ کیونکہ حکومت اپنے شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی۔ ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے اپنے دورہ لندن کے دوران کیا۔ مجھے چیف جسٹس کی اس سوچ سے بالکل اتفاق ہے۔ کوئی تو ایسا شخص ہے جسے یہ احساس ہوا ہے یورپ یا امریکہ میں سیاسی پناہ لینے والے اس ملک اور حکومت پر ایک دھبہ لگا جاتے ہیں۔ عمران خان صاحب کا دعوی “مدینہ جیسی ریاست” اور “فلاحی ریاست” قائم کرنے کا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس ریاست کو قائم کرنے کے لئے مدینہ کی ریاست والے طور طریقے اپنانے کو ہم تیار نہیں۔ ہاں یورپ اور امریکہ کے اکثر ممالک ان طور طریقوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ مدینہ کی ریاست میں تو مذہبی آزادی تھی۔ ہر ایک مذہب رکھنے والے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار سکتے تھے۔ لیکن “اسلامی جمہوریہ پاکستان” کا تو یہ عالم ہے کہ ایک نیچ سمجھی جانے والی قوم سے تعلق رکھنے والی اور اقلیتی مذہب رکھنے والی کمزور عورت آسیہ بی بی کے چند الفاظ پورے ملک میں طوفان برپا کر دیتے ہیں۔ وہ عورت جس کی معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں۔ بلکہ شاید پورا گاوں بھی اس سے واقف نہیں سارے ملک کا پہیہ جام کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔
مدینہ کی ریاست میں تو ظالم کو سزا اور مظلوم کو پناہ دی جاتی تھی۔ لیکن اپنے ملک پاکستان کا حال ملاحظہ کریں کہ یہاں پر اقلیت اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہے کیونکہ کسی بھی وقت توہین مذہب کا الزام لگا کر اس ملک کے “عاشقان رسول” ان کا گھر بار، کاروبار سب جلا کر راکھ کر سکتے ہیں۔ بلکہ ان کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کئے جا سکتے ہیں۔ سندھ میں بسنے والے ہندووں کی ایک بہت بڑی تعداد ملک چھوڑ کر جا چکی ہے۔ بے شمار مسیحی پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ احمدیوں کو تو دوہرے مسائل کا سامنا ہے کیونکہ ان کے خلاف تو ملک میں قانون سازی بھی ہو چکی ہے۔ اگر اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو لاکھوں پاکستانی امریکہ، کینڈا، آسٹریلیا، یورپ وغیرہ کے ممالک میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اس سیاسی و مذہبی پناہ کی وجوہات کیا ہیں؟ کبھی ہم نے جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔
چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ آسیہ بی بی اگر کسی اور ملک میں پناہ لے تو یہ ریاست کی ناکامی ہے۔ چیف جسٹس صاحب پچھلے تین دہائیوں میں لاکھوں پاکستانی اس “ریاستی ناکامی” کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بات صرف ایک آسیہ بی بی کی نہیں۔ لاکھوں ہندووں، مسیحیوں اور احمدیوں کی بھی ہے۔ پردیس میں رہنا کون پسند کرتا ہے؟ مگر اس “ریاستی ناکامی” کی وجہ سے لاکھوں پاکستانی اس جبر مسلسل سے گزر رہے ہیں۔ بلکہ اب تو ایک نئی نسل بھی پروان چڑھ چکی ہے۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلامی اصول یہاں قائم کرنے کے دعوے پچھلے ستر سالوں سے روز سنتے آ رہے ہیں۔ لیکن کیا یہاں اسلامی اصول و قوانین لاگو بھی ہوئے ہیں؟ جب مکہ میں مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن کر دی گئی تھیں تو کیا نجاشی جو کہ ایک عیسائی حکمران تھا اس نے ان اولین مسلمان مہاجرین کو پناہ نہ دی تھی؟ آج کیا ہم اتنے احسان فراموش ہو چکے ہیں کہ اس کا مذہب رکھنے والے مسیحیوں کو پناہ دینا تو دور کی بات ان کو اپنے ملک میں تحفظ دینے میں بھی ناکام ہو چکے ہیں۔بلکہ ان کو ملک سے باہر نکالنے میں خوش ہوتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اقلیتوں کو مسلم ریاست کی ذمہ داری قرار دیا تھا لیکن پاکستان میں “مدینہ کی ریاست” قائم کرنے کے لئے اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ احمدیوں کو تہ تیغ کیا جائے یا ان کو ملک سے نکال دیا جائے۔ ملک کے کسی عہدے پر ان کو نہ رکھا جائے۔ تو پھر یہ کیسی “مدینہ کی ریاست” ہے جہاں مدینہ والے کے اصول ہی لاگو نہیں ہوتے۔بلکہ ہمیں تو الٹا ان ممالک کا احسان مند ہونا چاہئے جو ہمارے شہریوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اور اپنے ممالک میں انہیں عام شہریوں کے سے حقوق فراہم کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ بطور حکمران اور پاکستانی شہری ہمیں پاکستان سے باہر سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں سے معافی مانگنی چاہئے اور ان کے سامنے ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہئیں جنہیں ہم اپنے ملک میں تحفظ فراہم نہ کر سکے اور جنہیں ہم نے ملک سے ہجرت کر جانے پر مجبور کیا۔
چیف جسٹس صاحب! اگر آپ پاکستان میں ان اقلیتوں کو ترقی کے برابر کے مواقع فراہم نہیں کریں گے تو یہ لوگ پاکستان سے باہر جا کر سیاسی پناہ ہی لیں گے۔ اور جب بھی کوئی اقلیتی شہری ملک سے باہر سیاسی پناہ لیتا ہے تو یہ “ریاست کی ناکامی” ہی ہوتی ہے۔ یہ “مدینہ کی ریاست” کے اصولوں کے مخالف ہوتا ہے۔ اس سے پاکستان کی شان میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ اگر آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ ریاست ناکام نہ ہو تو ان اقلیتوں کو تحفظ دیں۔ ان کو برابر کے حقوق مہیا کریں۔ قانون سازی ایسی کریں کہ اقلیتوں پر غلط الزام لگانے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے بلکہ نشان عبرت بنایا جائے تاکہ یہ اقلیتیں بھی پاکستان میں رہ کر اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ یہ لوگ پاکستان میں اپنے آپ کو محفوظ شمار کریں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو برابر کا شہری سمجھ سکیں۔ اگر آپ کا بیان صرف ایک دعوی نہیں بلکہ آپ حقیقت میں ایسا سمجھتے ہیں تو پھر پاکستان کو ایک “کامیاب” “فلاحی” اور “مدینہ کی ریاست” بنانے میں یہ پہلی اینٹ ہو سکتا ہے۔ جس پر عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے۔ پر یہ عمارت جہد مسلسل اور مضبوط عزم و ہمت کی متقاضی ہے۔ اس کو “مولویت” اور “انتہا پسندی” کے طوفان سے بچا کر تعمیر کرنا کوئی سہل امر نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).