اقبال، پنجاب اور پنجابی


مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت

کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد

تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا

ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد

تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے

یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

ضرب کلیم میں لکھی گئی پنجابی مسلمان کے نام اقبال کی اس نظم سے تحریر کا آغاز اس لیے کیا کہ میں مقصد تحریر کو ابتدا ہی میں واضح کر سکوں کہ میری اس تحریر کا مقصد کسی قوم کی دل آزاری نہیں بلکہ علمی اور منطقی انداز سے ڈاکٹر علامہ اقبال کے کلام کی روشنی میں مجموعی سیاسی بصیرت کا ایک جائزہ پیش کرنا ہے۔ بات کو مختصر رکھتے ہوئے کچھ پس منظر بیان کرنا چاہوں گا۔

 تقریباً پانچ سال قبل میں نے ریڈیو پاکستان لاہور سے اقبالی فلسفے اور شاعری پر مشتمل پروگرام ”آہنگ اقبال“ کا آغاز بطور میزبان کیا اور اس دوران اقبال کو سرسری بنیادوں سے بڑھ کر تنقیدی اور غیر جانبدارانہ طور پر پڑھنے کا اتفاق ہوا تو لاتعداد موضوعات، اقبال شناسی پر مشتمل کتب اور تاریخی حوالے، حقائق اور دلائل زیر بحث آئے۔ جہاں مجھ پہ اقبال کی شخصیت کے کئی نئے گوشے وا ہوئے وہیں اقبال کے حوالے سے روایتی مفروضوں سے ہٹ کر کچھ نئی جہتیں آشکار ہوئیں، یہ پروگرام ریڈیو پاکستان کی تاریخ کا پہلا پروگرام ثابت ہوا جس نے 350 اقساط مکمل کیں اور سات سو گھنٹے نشریات اقبالیات کے حوالے سے سامعین تک پہنچائیں، ملک کے بہترین اقبال سکالرز اور اور فلسفہ اقبال سے جڑے اصحاب علم پروگرام کا حصہ بنتے رہے، ان اسکالرز میں ڈاکٹر شفیق عجمی، ڈاکٹر کامران، ڈاکٹر رفعت حسن، علی اصغر عباس، مصطفی محی الدین اور دیگر اساتذہ کی شفقت شامل حال رہی جو نہ صرف پروگرام کی کامیابی ضمانت ثابت ہوئی بلکہ مجھے بھی ان سے سیکھنے کا بھرپور موقع ملا۔

 وطن عزیز میں اقبال شناسی کی روایت قبل از تقسیم اپنا وجود رکھتی ہے اور فلسفہ اقبال پر ان گنت کتب اور لٹریچر بھی موجود ہے، جن کا ذکر ایک الگ تحریر کا متقاضی ہے تاہم اس تحریر کا بنیادی نکتہ موجودہ سیاسی اور جغرافیائی حالات کا تناظر ہے جہاں اقبال سے متعلق ملکی اور صوبائی سطح پر پائے جانے والی مختلف آرا ہیں، ایک رائے دائیں بازو سے منسلک لوگوں کی ہے جو اقبال کو محبت عقیدت کی بنیاد پر مذہبی حوالے سے اعلی مسند پر بٹھاتے ہیں جبکہ دوسری طرف بائیں بازو سے منسلک لوگ جو اقبال پر تنقید کرتے ہوئے اپنی رائے میں اقبال کو ایک ایسا ریاستی شاعر قرار دیتے ہیں جس کے فلسفے سے ریاست اور انتہا پسندوں کو اپنے مقاصد کے لئے ایندھن ملا اور دیگر محروم طبقات کو نقصان ہوا۔ تاہم ایک اور بڑا اہم نکتہ ملکی نسلی، گروہی، اور لسانی تناظر میں ہے جو کہ پاکستانی سیاست میں قومی بالادستی کی لڑائی اور چھوٹی قوموں اور پنجاب کے مابین سیاسی اور نسلی تعصب میں اقبال کے حوالے سے ہے۔ اسی بنیاد پر کئی سوالات اٹھائے گئے یا اٹھائے جاتے ہیں، چوں کہ میرا تعلق ایک چھوٹے صوبے بلوچستان سے ہے تو کم از کم یہاں کے حوالے سے آنکھوں دیکھا حال بیان کر سکتا ہوں کہ عملی طور پر یہاں اقبال سے وابستگی عوامی سطح پر ویسی نہیں جیسے پنجاب میں ہے، گو کہ اقبال شناسی کی عالمی، ایشیائی روایت بھی موجود ہے، این میری شمل، ڈاکٹر علی شریعتی اور کئی ترک اقبال شناس اقبال کو عالمی مفکر قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ خطبہ آلہ آباد اور تقسیم ہند کے باوجود ہندوستان میں اقبال شناسی کی مضبوط روایت موجود ہے، لیکن اقبال کو پاکستان میں پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں بوجوہ دیگر عملی طور پنجابی ریاستی شاعر کے طور پر جانا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ اقبال دائیں بازو کی معاون قوتوں کے ساتھ ہیں اور اسی بنا پر سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اقبال کو اس طرح اپنایا نہیں جاتا جس طرح ان صوبوں میں خوشحال خان خٹک، سچل سر مست اور مست توکلی کو لیا جاتا ہے، گو کہ کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے پنجاب میں وارث شاہ، یا بلھے شاہ کو مقامی زبان کی صوفی شاعری کے حوالے سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے اور شاید اقبال کا گراؤنڈ مختلف ہے، تاہم دیکھا جائے تو ترقی پسند سندھی شاعر شیخ ایاز کا کلام بھی سندھ میں موثر سطح پر دیکھا جاتا ہے، اور خیبر میں غنی خان کا زیادہ فوقیت دی جاتی ہے۔

 اقبال کی پنجاب کے مقابلے میں دیگر صوبوں میں عدم موجودگی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، ممکن ہے یہ بھی وجہ ہو کہ کلام اقبال کی پشتو، سندھی، اور بلوچی میں تراجم کی کمی، اور حکومتی عدم دلچسپی بھی ایک وجہ ہو لیکن ایسا نہیں کہ کلام اقبال کے تراجم ہوئے ہی نہیں بلوچستان سے لے کر خیبرپختونخوا تک مقامی زبانوں میں کلام اقبال کے تراجم ہوئے جن میں صابر بلوچ کا کلام اقبال کا براہوی میں ترجمہ ہے، اسی طرح پشتو میں بھی کئی اقبال شناسوں نے کلام اقبال کے تراجم کیے لیکن بڑے پیمانے پر سندھی، بلوچ، اور پشتون دانشور اور عام آدمی اقبالیات سے سیاسی اور نسلی وجوہات کی بنیاد پر اقبال سے غیر دانستہ صرف نظر کرتے ہیں، اس لاتعلقی میں بنیادی عنصر شاید مکمل آگہی کا فقدان ہو اور یہ فقدان اقبال کے حوالے سے پایا جانے والا عام تاثر ہے اس تاریخی حقیقت سے اختلاف ممکن نہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اداروں میں پنجاب کی بالادستی اور اور دیگر قوموں کے حقوق غصب کرنے کے حوالے سے ایک نفرت اور مزاحمت پائی جاتی ہے اور شاید یہی تاثر چھوٹے صوبوں میں فلسفہ اقبال یا کلام اقبال کے نہ پنپنے کا محرک ہو۔

 دو سوال یا نکات عمومی طور پر ان صوبوں میں اقبال سے متعلق پائے جاتے ہیں :

 1۔ اقبال پنجابی (پنجاب سے تعلق رکھنے والے) شاعر ہیں اور شاید وہ اسی پنجابی فلسفے کا حامی ہے جو قیام پاکستان سے اب تک ریاستی سطح پر اپنایا گیا ہے۔

 2۔ اقبال ریاستی شاعر ہیں اور ان کا فلسفہ ہر اس ریاستی ایجنڈے کی تکمیل میں مدد کرتا ہے جو دوسری قوموں کے لئے ناقابل قبول ہے، لمبی تمہید سے ہٹ کر ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اقبال کے ہاں پنجاب اور پنجابیت اسی طرح پائی جاتی ہے جس طرح سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں عوامی سطح پر سوچا جاتا ہے یا نہیں؟

 ایک غیر جانبدار آنکھ سے اس تاثر کو پرکھنے کی سعی کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نسلی اعتبار سے کشمیری برہمن تھے۔ ان کے آبا مسلمان ہونے کے بعد پنجاب سیالکوٹ میں کے صدیوں قبل منتقل ہوئے یہیں بود و باش اختیار کی اور مختلف مراحل طے کیے، اقبال بسلسلہ تعلیم پہلے لاہور پھر لندن و جرمنی اور پھر دوبارہ لاہور میں مستقل سکونت پذیر ہوئے، پنجابی زبان اور دھرتی کو اپنا کے اقبال لاہوری کہلائے۔ ان کا رہن سہن، لباس، زبان پنجابی قرار پائی یہاں تک کہ اقبال کا کشمیری آہستہ آہستہ پنجاب کے سپوت میں ڈھل گیا۔ اس عظیم فلسفی کے آبا و اجداد کا مسکن پنجاب ہی ٹھہرا اور آج اگر مقبول تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال کو سرزمین پنجاب (سیالکوٹ) کا فرزند اور فخر ہی سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ان کے پرکھوں کی سرزمین کشمیر میں آج کے دور میں شاید ہی انھیں عملی طور پر بطور کشمیری اپنایا جاتا ہو۔

 پروگرام آہنگ اقبال کے دوران کے دوران تحقیق اور علمی جستجو میں کچھ سوالات راقم ذہن میں آتے رہے جنہیں میں گاہے گاہے اپنے معزز مہمانان گرامی سے پوچھتا رہا؛ کچھ کے جواب تسلی بخش ملے، سیر حاصل ملے کچھ میں تشنگی رہی۔ کچھ سوالات سرکاری نشریات کی مجبوری کی وجہ سے اٹھائے نہ جاسکے۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کی علامہ اقبال جس دھرتی میں پیدا ہوئے وہاں بلھے شاہ، وارث شاہ، میاں محمد بخش، سلطان باہو جیسی عظیم ہستیاں پیدا ہوئی ہیں۔ جنہوں نے پنجابی شاعری میں اعلی مقامات دریافت کیے پنجابی شاعری کا بڑا اثاثہ صوفی کلام ہے تاہم روایتی شاعری کی بھی بات کی جائے تو اقبال نے نے اپنی مادری زبان پنجابی میں شاعری کیوں نہیں کی؟ اس کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں اسباب کی کھوج میں میں نے مزید تحقیق شروع کی تو حیران ہوتا چلا گیا کہ عام بول چال میں دن رات پنجابی میں گفت و شنید کرنے والے اقبال نے ایک نظم یا غزل تو کیا ایک شعر بھی پنجابی زبان میں نہیں کہا اور نہ ہی کوئی نثر پنجابی میں لکھی ہے۔

 ناقدین اقبال اور اقبال کے چاہنے والے اس نکتے پر کہیں کہیں متفق نظر آتے ہیں کہ:چوں کہ اقبال آگاہ تھے کے پنجابی شاعری پہلے ہی اتنے عظیم اور بڑے ناموں سے مزین ہے اس لیے آج کا کوئی بھی شاعر اس مقام کو چھو نہیں سکتا جو صوفی شعرا بنا گئے ہیں۔ ممکن ہے اقبال نے اس سوچ کے تناظر میں پنجابی شاعری نہ کی ہو لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کے اقبال کے بعد بیسویں صدی کے ایک اور بڑے نظریاتی شاعر فیض احمد فیض جو پنجابی ہی تھے اور اقبال کے شہر سیالکوٹ ہی میں پیدا ہوئے نیز اقبال کی طرح انھوں نے بھی اظہار کا ذریعہ اردو اور فارسی کو بنایا، فیض بھی برصغیر کے بڑے شعرا میں شمار ہوئے انھوں نے بھی کم از کم اپنی مادری زبان میں کچ نظمیں لکھیں ایک نظم ”ربا سچییا“ تو معرکۃ الآرا پنجابی نظم ہے۔

 دیکھا جائے تو فیض بھی اقبال کی طرح غیر روایتی شاعری کے سرخیل رہے گو کہ دونوں کا آہنگ اور نظریاتی ارتقا مختلف رہا اگر اقبال نے اپنے عہد کے مظلوم مسلمانوں کی آواز بلند کی تو فیض نے اپنے دور کے پسے ہوئے طبقات کی تصویر کشی کی سو فیض کے ہاں بھی با قاعدہ نہیں تو ایک آدھ پنجابی نظم کا سراغ ملتا ہے۔ تاہم اس دلیل کو مان بھی لیا جائے کہ اقبال کا پنجابی شاعری نہ کرنا بڑے پنجابی شعرا کی موجودگی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پروگرام کے موضوعاتی تنوع کے تناظر میں مزید علمی پیش قدمی نے اس دلیل کو بالخصوص اقبال کے تناظر میں مزید زیادہ سوچنے پر مجبور کیا۔

  ”اقبال کے ہیروز“ یا اقبال کا مرد مومن یا مرد حق و حر کا فلسفہ:عمومی طور پر کوئی بھی عالمی مفکر اور نظریہ دان جب اپنے آئیڈیل یا ہیروز ڈھونڈتا ہے تو وہ اپنی اولین سرزمین پر بھی معیار کا وہ پیمانہ ضرور لاگو کرتا ہے جو کہ دیگر اقوام کے ہیروز میں پائے جانے والی خوبیوں کے لیے کرتا ہے۔ جیسے جیسے میں اس تحقیق میں کلام اقبال اور فلسفہ اقبال سے رہنمائی لیتا گیا میرے اس تاثر کو مزید تقویت ملی کہ اقبال کا پنجابی میں شاعری نہ کرنا محض کوئی شاعرانہ عذر نہیں۔ حیرت کی بنیادی وجہ میرے پچھلے مخمصے کا اگلا پڑاؤ تھا۔ بنیادی طور پر اقبال کا ہیرو ایک اجتماعی خوبی رکھتا ہے اور وہ ہے خودی، اقبال کا پرکھنے کا پیمانہ خودی ہے جس کی بنیاد پر وہ مختلف مذاہب، اقوام اور جغرافیہ کے عظیم سپہ سالاروں کو اپنا ہیرو یا اعلی انسان قرار دیتے ہیں اور اسی حوالے سے اقبال کی شاعری اور فلسفے کے پیمانے پر مختلف زبانوں اور کلچرز سے تعلق رکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جبکہ تقابلی جائزہ لیا جائے تو اقبال لاہوری کی فہرست میں ان کی اپنی سرزمین پنجاب سے کتنے دانشور، سپہ سالار، باغی سیاستدان اور مفکر اقبال کی فہرست میں جگہ بنا سکے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔

 اقبال کا پنجابی میں شاعری نہ کرنا ایک ذاتی فیصلہ ہو سکتا ہے تاہم اپنی فہرست میں اپنے ہیروز کے طور پر سر زمین پنجاب کی شخصیات کو نہ شامل کرنا اس بحث کو مزید گہرائی کی طرف لے جاتا ہے اقبال کی شاعری میں ان کا ہیرو افغان محمود غزنوی اور افغان شہاب الدین غوری تو ہے، ان کا ذکر بھی کلام اقبال میں ملتا ہے، لیکن پنجابی سرزمین کے ہیروز دلا بھٹی، رائے احمد خان کھرل اور بھگت سنگھ کا ذکر نہیں ملتا۔ ہمیں شیکسپیئر کا ذکر ملتا ہے اور مارکس کے نام بھی نظمیں موجود ہیں، لینن کا بھی ذکر ہے جبکہ بلھے شاہ، وارث شاہ، میاں محمد بخش کا ذکر نہیں ملتا پختون سرزمین کے خوشحال خان خٹک کو اقبال اپنا ہیرو مانتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب کی سرزمین سے تعلق رکھنے والا مزاحمتی استعارہ چاہے وہ نظام لوہار ہی ہو ان کی شاعری میں جگہ نہیں بنا پاتا۔ مغل، ترک، عرب بھی کلام اقبال میں جا بجا ملتے ہیں، جرمن فلاسفر نطشے، اسپین کی تاریخ اور پھر تیرتھ رام بھرتری ہری کا ذکر بھی ملتا ہے اہل فارس کے حافظ اور فردوسی کو بھی نمایاں جگہ ملتی ہے بلکہ اقبال نے تو اپنا بیشتر کلام ہی فارسی میں لکھا اور اتنا عمدہ کہا کہ آج بھی ایران فارسی گرائمر کے طور پر ”سبق اقبال“ پڑھایا جاتا ہے تاہم جس خطے (پنجاب) میں وہ موجود ہیں اس کی تاریخ کا ذکر تو دور کی بات اس جغرافیے کا سرسری حوالہ بھی بہت کم ملتا ہے۔ ایسا تو ہرگز نہیں ہے کہ اقبال جیسا عمدہ مطالعہ کا حامل مفکر جو کہ اس دور میں انگلستان میں بھی چھپنے والی کوئی بھی کتاب پہلے ہی ہفتے لاہور منگوا کر نذر مطالعہ کر دیتا تھا وہ سرزمین پنجاب سے تعلق رکھنے والی علمی، جری اور مزاحمتی شخصیات سے لاعلم ہو، تو پھر ایسا کیوں ہے کہ اقبال اپنے ہم زبانوں کو اس معیار پر پورا اترتا نہیں دیکھتے؟

 اقبال کے کلام میں واحد نظم جو انہوں نے پنجابی مسلمان کے نام لکھی جس میں اقبال پنجابی مسلمان سے مخاطب ہوئے اگر اس نظم کی بھی تشریح کی جائے تو یہ نکتہ واضح ہے کہ اقبال کا اس نظم (پنج مسلمان) میں اہالیان پنجاب سے مخاطب ہونا بلوچ افغان ترک اور عرب سے کافی مختلف ہے، تناظر بھی مختلف ہے۔ بالخصوص کلام اقبال میں ”بڈھے بلوچ کی نصیحت“ کا تقابلی جائزہ پنجابی مسلمان کے نام نظم سے کیا جائے تو اقبال بلوچ قوم کو جس طرح دیکھتے ہیں بادی النظر میں وہ پنجابی مسلمان کو اس حوالے سے نہیں دیکھتے، بظاہر اقبال دیگر اقوام کے مقابلے میں پنجابی قوم کے اجتماعی شعور اور بصیرت کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں اور عقیدت کے ضعیف معیارات اور علمی و منطقی معاملات کے عدم توازن کا حوالہ دیتے ہیں۔ یوں تو اقبال کے کلام میں مغلوں کا تذکرہ بھی بڑا محدود سا ملتا ہے اورنگزیب کے حوالے سے اقبال کی ہمدردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن پنجاب کی علمی و فکری، حریت اور مزاحمت کے رخ کو یکسر نظر انداز ہی کیا گیا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حکیم الامت کا اقبال دلی سے بخارا، اور کابل سے سمرقند، پھر ہسپانیہ سے تک نظر رکھتے ہوں مگر اپنی قوم کی نبض پر ہاتھ نہ ہو، اپنی قوم سے مراد یہاں پنجابی قوم ہے جس کے مفصل یا سروری ذکر سے وہ گاہے بگاہے دامن بچاتے نظر آتے ہیں، اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ اقبال تو پنجاب میں نظر آتے ہیں، لیکن پنجاب اقبال میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اس مایوسی کا اظہار اقبال نے اپنی اپنی اس نظم میں بھی کیا، اقبال بطور پنجابی خود اپنی سرزمین سے جغرافیائی و فکری طور پر ایک طرح سے ایک خاص زاویے میں لاتعلق رہنا ایک نکتہ ضرور ہے جس کا جواب اہل علم کو بہرحال ڈھونڈنا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اقبال کی شاعری میں کسی پنجابی کردار قطعی ذکر نہیں ملتا بابا گورو نانک کو اقبال نے ضرور ایک نظم کی صورت میں اپنے کلام میں جگہ دی مگر اس نظم میں بابا گرو نانک کی نسلی توصیف کے بجائے روحانی اور شخصی صفات کا احاطہ کیا گیا۔

 پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے

ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے

 اس کلام میں بھی نانک کا ذکر جغرافیائی سے زیادہ آفاقی فکر کے معنوں میں ملتا ہے۔ اقبال پشتون شاعر اور رہنما خوشحال خان خٹک سے بہت متاثر رہے اور اقبال نے برملا اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ خوشحال نے پشتون قوم کے نعرے کا علم مغلوں کے خلاف بطور مزاحمت بلند رکھا۔ گو کہ خٹک کی جد و جہد اور اقبال کی اورنگزیب کے حوالے سے فکر ایک الگ موضوع ہے جہاں تضاد ہے تاہم اس کے باوجود خوشحال اقبال کے فلسفہ خودی پر اترتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ خوشحال کے پشتو اشعار کو اقبال نے اخذ کر کے اپنی شاعری میں جگہ دی ”محبت مجھے ان جوانوں سے ہے /ستاروں پر ڈالتے ہیں جو کمند“ یہ شعر دراصل خوشحال کے کلام سے اخذ شدہ ہے۔ اقبال خٹک کی پشتون ولولہ انگیزی اور بہادری سے بھی متاثر نظر آتے ہیں سوال یہ ہے کہ اگر اقبال پشتون مزاحمت کار ہیرو خوشحال خان خٹک سے آگاہ تھے اور معترف بھی تو پھر اقبال جیسا عظیم پنجابی مفکر پنجابی قوم کے مزاحمت کاروں کو اپنی شاعری میں جگہ کیوں نہیں دے پایا؟ کیا رائے احمد خان کھرل، دلا بھٹی جیسے کردار اقبال کو اس معیار پر پورے اترتے نظر نہیں آئے؟ جب اقبال ایک وقت میں برٹش امپیریل ازم کے مخالف کے طور پر سامنے آئے تو بھٹی اور کھرل جیسے پنجابی مزاحمتی استعارے اقبال کے ہاں لائق تحسین کیوں نہ۔ ٹھہرے؟ یہاں تک کہ اقبال نے اپنے آبا و اجداد کے سابقہ خطے کا حق بھی ادا کیا۔ میرا اشارہ کشمیر کی طرف ہے اقبال نے ملا زادہ ضیغم لولابی کے عنوان سمیت کئی نظمیں اہل کشمیر کی نذر کردیں جس میں کشمیر اور کشمیری قوم کے جذبہ حریت کو اجاگر کیا گیا مگر اپنی موجودہ جنم بھومی، زبان اور خطہ پنجاب کے نام کی بھی تو ایک تنقیدی نظم؟ اقبال لاہوری نے پنجاب کی مزاحمت یا علم کی روایات یا جغرافیائی تناظر کو بھی اسی طرح شاعری کا حصہ کیوں نہ بنایا جس طرح برصغیر کی دیگر اقوام اور نسلوں کو بنایا گیا؟

 ممکن ہے میرے ان سوالات سے کئی صاحبان علم اختلاف کا حق استعمال کریں مگر اختلاف ہی نئی راہیں متعین کرتا ہے سو یہ اس نکتے کے طور پر محض مثبت بحث کا آغاز ہے اور کچھ مقصود نہیں ہے جیسا کہ آغاز میں میں نے عرض کیا کہ دیگر صوبوں میں جو حوالہ اقبال کا نسلی طور پر بطور پنجابی پایا جاتا ہے وہ کلام اقبال سے یکسر مختلف ہے اقبال سے نظریاتی اختلاف ممکن ہے اور یہ ناقدانہ روایات موجود بھی ہے تاہم بطور پنجابی اقبال کی اپنی زمین اور زبان سے وابستگی عمومی تاثر یقینی طور پر مختلف ہے جو سالہا سال سے سندھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اقبال سے بطور پنجابی یا پنجابی ریاستی شخصیت پھیلا ہوا ہے، کلام اقبال سے رقم حقائق کے مطابق ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے اقبال نے کسی قوم، نسل یا زبان سے تعصب یا اجتناب روا رکھا یا کسی قوم یا نسل کی بجائے مسلمان ہونے کے علاوہ نمائندگی کی ہو تو پھر کیا وجوہات ہو سکتی ہیں کہ کس مفکر کے ہاں عرب، ترک، فارس، پشتون، بلوچ حمیت کا اظہار وافر ہو مگر ایک مخصوص زبان کے حوالے سے کہنے کو کچھ نہ ہو جو اس کی بھی اپنی مادری زبان ہے۔

 اقبال کے ہاں پنجابیت ہمیں اس طرح نظر نظر نہیں آتی شاید اس کی ایک علمی اور فکری دلیل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اقبال کے ہاں سیاسی بیداری، علمی بلندی اور حمیت کا معیار یا میرٹ ہی آئیڈیل مسلمان ہے جو خودی سے آشنا ہو۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا اقبال کو اہل پنجاب اس معیار پر پورا اترتے نظر نہیں آئے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کے اقبال کے آئیڈیلز کی فہرست میں بابا گرو نانک کے علاوہ کسی اور پنجابی کو ہیرو کا درجہ نہیں ملتا تو یہ تو یہ کوئی تعصب یا الزام نہیں تاریخی نکتہ ہے۔

 بلاشبہ تحریک پاکستان اور تکمیل پاکستان کے لیے پنجاب کی قربانیوں اور جدوجہد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس وقت کے پنجابی مفکروں اور سیاسی رہنماؤں کے قد پہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے لیکن پاکستان بننے کے بعد جس طرح پنجاب کی فکری اور سیاسی بلوغت پر زوال آیا اور جس طرح کا فلسفہ طاقت پنجاب میں پروان چڑھا اور یہ طاقت اسٹیبلشمنٹ اور بالادستی کی صورت میں سامنے آئی۔ اس تبدیلی نے کئی مسائل پیدا کیے۔

 یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ پنجابی نفسیات تیزی سے اقدار سے اقتدار کے حصول کی طرف منتقل ہوئیں۔ یہ صرف پنجابی اشرافیہ ہی کی سوچ نہ رہی بلکہ عام پنجابی حب الوطنی، مذہب، اور دیگر نعروں کی لپیٹ میں آ کر اپنا سیاسی اور فکری مقام گروی رکھ بیٹھا اور اپنی نسلی شناخت کھو بیٹھا۔ یہ بھی نکتہ جواب طلب ہے کے وطن عزیز میں جب بھی جمہوری اداروں پر شب خون مار کر کوئی بھی آمر آیا تو اس کو سب سے زیادہ پنجاب ہی سے تائید ملی۔ یہ المیہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جب بھی ایک اور ادارے عدلیہ پر چڑھائی کی گئی تو پنجاب سبقت لے گیا اور اسی سوچ کا دیگر صوبوں بطور پنجابی اقبال کو بھی خمیازہ بھگتنا پڑا جس کا اس سب سے کوئی لینا دینا نہیں تھا یہ تاثر تقویت پکڑتا گیا کہ ایک قانون دان اور اینٹی برٹش امپیرئیلسٹ اقبال کی قوم پنجابی بعد از اقبال، پاکستانی امپریئلزم کا حصہ بن کر قانون شکنی کی بھی تحریک کا حصہ بنتی رہی اور بن رہی ہے۔

 اقبال کی زندگی کے ارتقا اور مستقل تبدیلی کو پڑھا جائے تو آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو شاید ان کی مزاحمتی شاعری کا رخ پنجابی اسٹبلشمنٹ کی طرف نہ ہوتا؟ اقبال کو پنجاب کی حدود میں قید کرنا ایک جذباتی کوشش تو ہو سکتی ہے مگر منطقی نہیں معاشی، عددی، سیاسی اور سیکیورٹی میں برتری کے حامل صوبے کے شاعر اقبال نے بطور پنجابی مفکر، پنجابی میں شاعری کیوں نہیں کی اور پنجاب کی شخصیات ان کی فہرست میں زیادہ کیوں نہیں ہیں اس کا جواب تو شاید انھوں نے خود اپنی نظم میں دے دیا ہے تاہم یہ بحث بھی الگ سے ہو سکتی ہے کہ اقبال کا مرد مومن، مرد کوہستانی، مرد صحرائی، جغرافیائی حدود و قیود سے آزاد اور مبرا ہے لیکن ساتھ ساتھ دھرتی سے محبت اور تعلق کسی بھی آفاقی مفکر کا فطری حق ہوتا جو وہ ادا کرتا ہے۔ ایک تناظر میں دیکھیں تو اقبال محض مسلم تشخص کے رہنما نہیں بلکہ پنجابی سر زمین کے سپوت بھی ہیں، لیکن جب ہم بطور پنجابی مفکر اقبال کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو شاید کچھ خاطر خواہ نظر نہیں آتا۔

اقبال کی شاعری میں پنجابی سورماؤں کے نظر انداز ہونے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ کیا وجوہات وہی تو نہیں جو اقبال اپنی نظم میں بیان کر چکے؟ بہتر جواب اہل علم و دانش ہی تلاش کر سکتے ہیں، تاہم اگر اقبال کی پنجابی مسلمان کے نام نظم کو موجودہ حالات کے تناظر میں پنجاب میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور عقیدت کے نام پر عدم توازن کے پس منظر میں پڑھا جائے تو صورتحال کافی حد تک واضح ہوجاتی ہے اقبال کے حوالے سے سندھ بلوچستان اور سمیت دیگر اقوام میں جانے والے اس تاثر کی نفی کی جا سکتی ہے کہ اقبال بنیادی طور پر پنجابی فکر، اور جغرافیے کو own کرتے ہیں یا اقبال کا جھکاؤ پنجاب کی طرف رہا ہے۔ اس امر میں اس پہلو کو بھی دیکھنا ضروری ہے کہ خود اہل پنجاب جو دل و جان سے اقبال کو نہ صرف own کرتے ہیں بلکہ اقبال کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد بھی پنجاب میں ہے، وہ اس نظریاتی اور نسلی اینگل مستقبل میں کس کسوٹی پر پرکھیں گے۔

یہاں یہ نکتہ بھی حوالے کے طور پر اس مضمون میں شامل کرنا چاہوں گا کہ اقبال کے ہاں تو پنجاب پرستی اور پنجابی شاعری کا فقدان دکھائی دیتا ہے تاہم پنجاب میں پاکستان کی دیگر زبانوں کی طرح کلام اقبال کے منتخب حصوں کے پنجابی تراجم مختلف ادوار میں کیے گئے اور اقبال کو پنجابی زبان سے جوڑے رکھنے کی شعوری کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ان تراجم کے حوالے سے معروف شاعر اور مترجم اسیر عابد کا کام قابل ذکر ہے جنہوں نے مجموعہ کلام ”بال جبریل“ کا ”اڈاری“ کے نام سے پنجابی ترجمہ کیا اور اس ترجمے کو کافی سراہا گیا، علامہ اقبال کی چند منتخب نظموں کا پنجابی ترجمہ ڈاکٹر احسان اکبر نے کیا، اس کے علاوہ اقبالیات کے حوالے سے پنجابی زبان میں ایک اہم کام معروف پنجابی شاعر اور دانشور شریف کنجاہی کا بھی ہے جنہوں نے خطبات اقبال کا پنجابی ترجمہ بخوبی کیا اور اسی فصاحت بلاغت کو برقرار رکھا جو خطبات اقبال کا خاصہ ہے، اس کے علاوہ یعقوب آسی اور ڈاکٹر فقیر نے بھی اقبال کی چند نظموں کو ترجمے کی صورت میں پنجابی میں ڈھالا جیسے اس حوالے سے عمدہ کام کہا جاسکتا ہے۔ دیگر کئی نام ہی اس فہرست میں شامل ہیں تاہم اختصار کی مجبوری کی وجہ سے ان کے نام شامل کرنے سے قاصر ہوں۔

اقبال اور کلام اقبال سے محبت، عام پنجابی سے لیکر، پنجابی سیاستدانوں، پنجابی جری جوانوں، اور پھر پنجابی شاعروں دانشوروں، تحقیق دانوں تک کے دلوں میں موجزن رہی ہے اور شاید اس حقیقت سے قطع نظر کے اقبال پنجاب اور پنجابیت سے بالاتر رہے پنجابی قوم نظریہ پاکستان اور فلسفہ اقبال لازم و ملزوم سائکی کے تحت علامہ کی فکر اور ان کی شخصیت کے روحانی تناظر کے ساتھ مستقبل میں بھی جڑی رہے گی، مگر شاید اقبال کو بطور ایک پنجابی فرزند کی حیثیت سے پرکھنا اہل پنجاب کے لئے ایک علمی، منطقی، اور فکری معما ہی رہے گا۔

تنویر ملک (لاہور)
Latest posts by تنویر ملک (لاہور) (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments