ابراہیم رئیسی: ایران کے نئے صدر کون ہیں اور اُن کا ماضی کن تنازعات کا شکار رہا؟


Iranian presidential candidate Ebrahim Raisi addresses supporters at an election rally in Eslamshahr, Iran (6 June 2021)

60 سالہ ابراہیم رئیسی، جو ایک سخت گیر عالم کی حیثیت سے معروف ہیں، آج یعنی پانچ اگست کو ایران کی صدارت کے عہدے کا حلف اٹھا رہے ہیں۔

رئیسی جون 2021 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہوئے تھے اور انھیں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے خود کو بدعنوانی سے نمٹنے اور ایران کے سبکدوش ہونے والے صدر حسن روحانی کے دور میں درپیش اقتصادی مسائل کے حل کے لیے بہترین شخصیت کے طور پر پیش کیا۔

اس سے قبل وہ ایران کی عدلیہ کے سربراہ تھے اور انتہائی قدامت پسند سیاسی خیالات رکھتے ہیں۔ بہت سے ایرانیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے 1980 کی دہائی میں سیاسی قیدیوں کی بڑے پیمانے پر پھانسیوں میں اُن کے مبینہ کردار کا ذکر کیا ہے۔

Iranian Supreme Leader Ayatollah Ali Khamenei (R), Iranian President Hassan Rouhani (R2), judiciary chief Ebrahim Raisi (L3), First Vice President Eshaq Jahangiri (L2) and Intelligence Minister Mahmoud Alavi (L) attend a memorial for Qasem Soleimani in Tehran, Iran (9 January 2020)

Anadolu Agency via Getty Images
رئیسی اور صدر حسن روحانی 2020 میں ایک یادگاری تقریب میں آیت اللہ علی خامنہ ای کو سلام کرتے ہوئے

ابراہیم رئیسی 1960 میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں پیدا ہوئے جہاں شیعہ مسلمانوں کے مقدس ترین مزارات میں سے ایک واقع ہے۔ ان کے والد ایک عالم تھے اور ان کی وفات اس وقت ہوئی جب ابراہیم فقط پانچ برس کے تھے۔

شیعہ روایت کے مطابق اُن کا سیاہ عمامہ اُن کے پیغمبر اسلام کی آل ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اُنھوں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 15 سال کی عمر میں مقدس شہر قم میں ایک مدرسے میں حصول تعلیم کی غرض سے جانا شروع کیا۔

ایک طالب علم کے طور پر انھوں نے مغربی حمایت یافتہ شاہ ایران کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔ شاہ ایران کو سنہ 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے بعد معزول ہو گئے تھے۔

مظاہرہ

ایران 1979 کے انقلاب کے بعد اسلامی جمہوریہ بن گیا اور آیت اللہ خمینی اس انقلاب کے قائد تھے

انقلاب کے بعد انھوں نے عدلیہ میں شمولیت اختیار کی اور کئی شہروں میں پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اس دوران وہ آیت اللہ خامنہ ای کی زیر تربیت بھی تھے جو سنہ 1981 میں ایران کے صدر بنے۔

رئیسی جب تہران میں ڈپٹی پراسیکیوٹر بنے اس وقت وہ صرف 25 سال کے تھے۔

اس عہدے پر رہتے ہوئے انھوں نے ان چار ججوں میں سے ایک کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جو 1988 میں قائم اُن خفیہ ٹربیونلز کا حصہ تھے جو کہ ’ڈیتھ کمیٹی‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔

ٹربیونل نے مبینہ طور پر ایسے ہزاروں قیدیوں پر ان کی سیاسی سرگرمیوں کے باعث دوبارہ مقدمات قائم کیے جو پہلے ہی مقید تھے اور سزائیں بھگت رہے تھے۔ ان قیدیوں میں زیادہ تر بائیں بازو کے اپوزیشن گروپ مجاہدین خلق (MEK) کے ممبر تھے، جنھیں پیپلز مجاہدین آرگنائزیشن آف ایران (PMOI) بھی کہا جاتا ہے۔

ایران

ایران کے اپوزیشن کارکنوں نے 2019 میں پیرس میں پھانسی کے متاثرین کی یاد منائی

جن لوگوں کو ٹریبونل نے سزائے موت دی ان کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے، لیکن انسانی حقوق کے گروپوں کا دعویٰ ہے کہ تقریباً پانچ ہزار مردوں اور عورتوں کو پھانسیاں دی گئیں اور ان لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا جو انسانیت کے خلاف جرم ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے رہنما اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ موت کی سزائیں دی گئیں لیکن وہ تفصیلات اور انفرادی مقدمات کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کرتے۔

رئیسی بارہا بڑے پیمانے پر سزائے موت دینے کے معاملے میں اپنے کردار سے انکار کر چکے ہیں۔ لیکن انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ سزائیں سابق رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کے فتوے کی وجہ سے جائز تھیں۔

چند برس قبل ابراہیم رئیسی، عدلیہ کے کئی دیگر ارکان اور اُس وقت کے نائب سپریم لیڈر آیت اللہ حسین علی منتظری کے درمیان ہونے والی گفتگو کی ایک آڈیو ٹیپ لیک ہوئی تھی۔

اس میں منتظری کو سزائے موت کو ’اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جرم‘ قرار دیتے ہوئے سُنا جا سکتا ہے۔

ایک سال بعد منتظری نے خمینی کے نامزد کردہ جانشین کی حیثیت سے اپنا مقام کھو دیا اور خمینی کی وفات پر آیت اللہ خامنہ ای سپریم لیڈر بن گئے۔

امام رضا

رئیسی 2016 سے 2019 تک مشہد میں امام رضا کے مزار کے نگراں رہے

ابراہیم رئیسی 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹر جنرل مقرر ہونے سے پہلے تہران کے پراسیکیوٹر، پھر سٹیٹ انسپکٹوریٹ آرگنائزیشن کے سربراہ اور عدلیہ کے پہلے نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔

دو سال بعد آیت اللہ خامنہ ای نے اُنھیں ایران کی سب سے اہم اور امیر ترین مذہبی تنظیموں میں سے ایک ’آستان قدس رضوی‘ کا نگہبان نامزد کیا تھا۔

یہ تنظیم مشہد میں آٹھویں شیعہ امام امام رضا کے مزار کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ تمام مختلف فلاحی اداروں اور تنظیموں کا انتظام سنبھالتی ہے۔ امریکہ کے مطابق اس تنظیم کا تعمیرات، زراعت، توانائی، ٹیلی کمیونیکیشن اور مالیاتی خدمات میں بڑا حصہ ہے۔

روحانی

رئیسی نے 2017 کے صدارتی انتخابات میں تقریبا ایک کروڑ 60 لاکھ ووٹ حاصل کیے لیکن وہ حسن روحانی سے ہار گئے

2017 میں رئیسی نے صدارت کا امیدوار بن کر مبصرین کو حیران کر دیا تھا۔

2017 کے انتخابات میں حسن روحانی، جو ابراہیم کے ایک ساتھی عالم تھے، انھوں نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 57 فیصد ووٹ حاصل کر کے بھاری اکثریت سے دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کر لی تھی۔

رئیسی نے خود کو ایک ’کرپشن مخالف جنگجو‘ کے طور پر پیش کیا تھا لیکن صدر نے ان پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے عدلیہ کے نائب سربراہ کی حیثیت سے بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ سنہ 2017 کے الیکشن میں 38 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئے تھے۔

اس نقصان نے رئیسی کی شبیہہ کو داغدار نہیں کیا اور سنہ 2019 میں آیت اللہ خامنہ ای نے اُنھیں عدلیہ کے سربراہ کے طاقتور عہدے پر نامزد کیا۔

Chairman of the Assembly of Experts Ahmad Jannati (C) and Judiciary Chief Ebrahim Raisi (L) attend an Assembly of Experts meeting in Tehran, Iran on 22 February 2021

Anadolu Agency via Getty Images
رئیسی ماہرین کی اسمبلی کے ڈپٹی چیئرمین ہیں جو اگلے سپریم لیڈر کا انتخاب کریں گے

اگلے ہی ہفتے وہ ماہرین کی اسمبلی کے ڈپٹی چیئرمین کے طور پر بھی منتخب ہوئے جو کہ 88 رکنی علما کا ادارہ ہے جو اگلے سپریم لیڈر کے انتخاب کے لیے ذمہ دار ہے۔

بحیثیت عدلیہ کے سربراہ رئیسی نے اصلاحات نافذ کیں جس کی وجہ سے ملک میں منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت پانے اور پھانسی کی سزا پانے والوں کی تعداد میں کمی آئی۔ تاہم ایران اب بھی چین کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ لوگوں کو سزائے موت دینے والا ملک ہے۔

عدلیہ نے سکیورٹی سروسز کے ساتھ مل کر دوہری شہریت رکھنے والے ایرانیوں یا غیر ملکی مستقل رہائشیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا۔

اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رئیسی پر سنہ 2019 میں ان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی بنیاد پر پابندیاں عائد کیں اور ان پر الزام عائد کیا کہ وہ ان افراد کی پھانسیوں پر انتظامی نگرانی کرتے ہیں جو مبینہ جرائم کے وقت کم عمر تھے اور یہ کہ وہ 2009 کے متنازع صدارتی انتخابات کے بعد حزب مخالف کی گرین موومنٹ کی جانب سے احتجاج کے خلاف پر تشدد کریک ڈاؤن میں ملوث تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ایران کے ’سخت گیر‘ جج کی صدارتی انتخاب میں فتح، عمران خان کی مبارکباد

صدارتی انتخاب 2021: ایران کا انوکھا سیاسی نظام کیسے چلتا ہے؟

شیعہ مراجع کون ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے

ایرانی صدارتی انتخابات اور بلند بانگ دعوے

Supporters of Iranian presidential candidate Ebrahim Raisi hold pictures of him at an election rally in Eslamshahr, Iran (6 June 2021)

رئیسی نے انتخابی ریلیوں میں خود کو کرپشن مخالف رہنما کے طور پر پیش کیا

جب ابراہیم رئیسی نے 2021 کے صدارتی انتخابات کے لیے اپنے امیدوار ہونے کا اعلان کیا تو ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ ’ملک کے مجلس عاملہ میں تبدیلیاں لانے اور غربت، بدعنوانی، بدسلوکی اور امتیازی سلوک کے خلاف اقدامات کریں گے۔‘

تاہم کئی نمایاں اعتدال پسند اور اصلاح پسند امیدواروں کو سخت گیر گارڈین کونسل کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کی وجہ سے الیکشن پس منظر میں چلے گئے۔

مخالفین اور کچھ اصلاح پسندوں نے رائے دہندگان پر زور دیا کہ وہ انتخاب کا بائیکاٹ کریں، ان کی شکایت تھی کہ ساز باز کر کے رئیسی کو کسی کڑے مقابلے سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔

رئیسی نے پہلے مرحلے میں 62 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے ایک شاندار فتح حاصل کی۔ تاہم ٹرن آؤٹ صرف 49 فیصد سے کم تھا جو 1979 کے انقلاب کے بعد صدارتی انتخابات کے لیے ریکارڈ کم ترین شرح تھی۔

رئیسی کی نجی زندگی کے بارے میں بہت کم باتیں معلوم ہیں سوائے اس کے کہ ان کی اہلیہ جمیلہ تہران کی شاہد بہشتی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں اور ان کی دو بالغ بیٹیاں ہیں۔ ان کے سسر آیت اللہ احمد علم الہدیٰ ہیں جو مشہد میں نمازِ جمعہ کی امامت کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp