جنرل مرزا اسلم بیگ کے انکشافات


پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل مرز اسلم بیگ کی بائیو گرافی”اقتدار کی مجبوریاں” منظر عام پر آچکی ہے اور ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہے کتاب پر تبصرے بھی کئے جارہے ہیں ۔پاکستان کی سیاست کے موضوع پر معروف کالم نویسیوں نے تبصرے کئے ہیں لیکن میری دلچسپی کا سامان کتاب کا آخری باب حالات حاضرہ پر تبصرے ہیں ۔اس باب میں انہوں نے ایران، اسرائیل، امریکہ بالخوص مشرق وسطیٰ کے بارے اہم انکشافات کئے ہیں ۔

سابق آرمی چیف نے حزب اللہ اسرائیل جنگ کے تناظر میں یہ انکشاف کیا ہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں عرب ممالک کیلئے ایک سبق ہے۔ 2006میں جب اسرائیل ،ایران اور حزب اللہ کو دھمکیاں دے رہا تھا تو ایران کا ایک وفد مجھ سے ملنے آیا اور اس معاملے میں سے مجھ سے رہنمائی چاہی۔ میں نے انہیں بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں ان کے پاس موثر جواب دینے کی صلاحیت موجود ہے لیکن انہیں چاہیئے کہ وہ امریکی تنصیبات پر حملہ کرکے پرل ہاربر جیسی مصیبت مول نہ لیں اپنی تمام تر توجہ اسرائیل پر مرکوز رکھنی چاہپیے اور انہیں چاہیئے کہ اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام پر میزائلوں کے حملے کریں۔ ایرانی وفد ابھی پاکستان میں ہی تھا جب رائٹر نیوز ایجنسی کے کچھ صحافی مجھ سے ملنے آئے انہوں نے پوچھا کہ کیا مزاکرات ہوئے میں نے بتایا کہ اگر اسرائیل نے جنگ شروع کی تو ایران راکٹوں سے جواب دے گا۔ جنگ کے کچھ دنوں بعد امریکہ کے واشنگٹن پوسٹ میں یہ خبر شائع ہوئی کہ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ نے ایران کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کریں اور یرغمال بنا لیں۔حزب اللہ کے مجاہدین نے ان کا مقابلہ کیا اور انہیں پسپائی پر مجبور کردیا بالآخر جنگ بند ہو گئی

جنرل اسلم بیگ نے ایران اسرائیل تنازعہ کے بارے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے پاس حزب اللہ کے راکٹوں کے خلاف کوئی دفاع نہیں ہے۔ ایران ایک بڑی قوت ہے اسرائیل ان سے نہیں لڑسکتا۔ ایران حزب اللہ حماس اور یمنیوں کے پاس یہ راکٹ لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں ان کے پاس ڈرونز بھی ہیں لیکن سب سے مہلک ہتھیار خودکش بمبار ہیں جنہیں اسرائیل روک نہیں سکتا مجھے یقین ہے اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو خود اس کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔

شہید قاسم سلیمانی کے قتل کے تناظر میں اسلم بیگ انکشاف کرتے ہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی ایرانی فوج کے اعلیٰ ترین عہدے دار تھے، جو مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی جاندار کردار کے حامل تھے۔ درحقیقت آج مشرق وسطیٰ میں انہیں طاقتور ترین شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے مطابق جنرل سلیمانی امریکی فوجیوں اور خطے میں امریکی مفادات پر حملوں کی وسیع پیمانے پر منصوبہ کر رہے تھے لہذاٰ امریکہ نے انہیں ختم کرنا ضروری سمجھا۔ جنر ل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کیلئے ڈرون کیو نائن ریپر استعمال کیا گیا جو 2007 سے زیر استعمال تھا اور معنی خیز صلاحیتوں کا حامل ہے۔ یہ ڈرون عراق میں امریکی فوجی اڈے سے داغا گیا جسے بارہ ہزار کلومیٹر دور ناویڈا سٹیٹ سے امریکی سائبر کمانڈ کنٹرول کر رہی تھی درحقیقت جنرل سلیمانی کا قتل موساد نے کیا۔ ٹرمپ نے صرف ٹریگر دبایا۔ موساد تو ایران کے پانچ ایٹمی سائنسدان پہلے ہی قتل کرچکا ہے۔

پاکستانی فوج کے سابق سربراہ نے قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایران کا انتقام سخت کے بارے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سائبر اور اے ون ٹیکنالوجی کی صلاحیت حاصل کرلینے سے ایران محدود جنگ لڑنے کے قابل ہے جیسا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک سخت ردعمل امریکہ کا منتظر ہے جبکہ امریکہ کے سابق وائس پریڈیذنٹ نے ٹرمپ کی اس حرکت کو عاقبت نااندیشانہ آپریشن قرار دیا ہے جو بارود کے گودام میں چنگاری پھینکنے کے مترادف ہے کیونکہ زمانہ امن میں ایک سینئر سرکاری افسر کو کھلے عام قتل کرنا کھلی دہشت گردی ہے۔جنرل قاسم سلیمانی کے خون کا بدلہ لینے کیلئے ایران کے پاس ایک بہتر متبادل راستہ ہے کہ روایتی جنگ کی بجائے سائبر وار کی صلاحیتوں کو عمل میں لائے اور عراق ،شام ،یمن اور لبنان میں زمینی فوج سے منسلک رکھے۔ ان مقامات سے پورے مغربی وسطی ایشیا میں موجود امریکی تنصیبات اور فوجیں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کی جا سکیں گی۔ ایران نے پہلے ہی 35 ایسے مقامات کا تعین کر رکھا ہے ۔ایران کیلئے یہ ایک مکمل جنگ ہوگی جو زمینی فوج کی مدد سے سائبر ٹیکنالوجی کی بنیاد پرلڑی جائے گی۔ نئی حکمت عملی ایران کو محدود پیمانے پر جنگ کی صلاحیت مہیا کرے گی۔ قم میں مسجد جمکران پر سرخ پرچم لہرانے کے فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے امریکہ کو اس کی فاش غلطی کی سزا دینے کا فیصلہ کرلیا ہے جو پور ے مشرق وسطیٰ کے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ہمسایہ ممالک پر اس کے بہت مہلک اثرات ہوں گے۔ جنگ کا ہدف صرف امریکی فوج اور مفادات ہی نہیں ہوں گے بلکہ اصل ہدف اسرائیل ہوگا جو خطے میں تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

جنرل مرزا اسلم بیگ ایران اسرائیل امریکہ جنگ کے تناظر میں ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ایران گزشتہ چار دہائیوں سے امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں گوناگوں مسائل سے دوچار ہے اور اب اس خطرے سے نجات حاصل کرنے کا مناسب وقت ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ اور اسرائیل کو جو برتری حاصل ہے اس کا توڑ یہی ہے کہ میزائیلوں ،ڈرونز، راکٹوں کے ساتھ ساتھ ایران ،شام،یمن،لبنان اور غزہ کے ہزاروں خودکش بمباروں کے ذریعے خصوصا اسرائیل کو نیچا دکھایا جاسکتا ہے جیسے جیسے جنگ طویل ہوگی ہمسایہ ممالک سے جہادیوں کی آمد شروع ہو جائے گی جو جنگ میں نئی روح پھونک دیں گے اس طرح یہ ایک شدید خونی جنگ ہو گی۔ پاکستان 1980 کی ایران عراق جنگ کے دوران اپنائی جانے والی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے فریقین کو امن احتیاط کی راہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتا رہے گا لیکن پاکستان کو شدید فرقہ وارانہ شورش کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

عالمی جنگ کے تناظر میں جنرل اسلم بیگ مرزا کہتے ہیں کہ عالمی جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ اہل دنیا گزشتہ چار دہائیوں سے مسلم ممالک پر ڈھائے جانے والے مظلم اور تباہی و بربادی کے مناظر دیکھتے رہے ہیں افغانستان ،شام،عراق،صومالیہ لیبیا اور یمن میں پہلے ہی تباہ ہوچکے ہیں اب ایران ہدف ہے اور اس جنگ کے دوران بھی تماشہ دیکھتے رہیں گے۔امریکہ اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ جو پورے مشرق وسطیٰ کے سیاسی و عسکری معاملات پر حاوی تھا اب کمزور پڑ جائے گا اور اسرائیل اپنے عرب پڑوسیوں سے معاملات طے کرنے پر مجور ہوگا۔ رہبر انقلاب امام خمینی کا پیغام ہے کہ مزاحمت اور استقامت کی راہ مزید مستحکم عز م و حوصلے کے ساتھ باقی رہے گی اور یقینی طور پر یہ کامیابی اس مبارک راہ پر گامزن رہنے والوں کے قدم چومے گی۔

شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر قاسم سلیمانی اور جنرل اسلم بیگ کی وائرل ہونے والی تصویر کے بارے جنرل (ر) اسلم بیگ کا موقف ہے کہ یہ تصویر سی آئی اے نے جاری کی ہے اور ظاہر یہ کیا گیا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کو چراٹ میں کماندو ٹریننگ دی گئی ہے حقیقت یہ ہے کہ 1989 میں ایرانی پاسداران انقلاب کا ایک وفد جنرل محسن رجائی کی زیر قیادت پاکستان آیا تھا جس میں قاسم سلیمانی بھی شامل تھے اس وقت وہ irgc کے ڈویژنل صدر تھے۔ انہوں نے عراق ایران جنگ کے دوران کارہائے نمایاں انجام دئیے تھے ۔یہ ساری کہانی اور مجھے قاسم سلیمانی کے ساتھ یہ تاثر دیا گیا لوگ مجھے عالمی دہشت گرد سمجھنے لگیں جیسا کہ امریکی میڈیا اورخود ٹرمپ نے واضح کردیا کہ ہم نے اسامہ بن لادن کو مارا ا،بو بکر بغدادی کو مارا اور اب قاسم سلیمانی کو مارا ہے اس کے بعد دوسرے دہشت گردوں کو بھی جلد ٹھکانے لگائیں گے ۔

بے شک میں نے جنرل قاسم سلیمانی اور ابو بکر بغدادی جیسی کوئی کارروائی نہیں کی جس میں امریکی مارے گئے ہوں لیکن میری سوچ اور مشورے بے شک امریکہ اور اسرائیل کیلئے شکست اور شرمندگی کا باعث بنے ہیں۔ پہلی مثال حزب اللہ اسرائیل جنگ کے دوران ایرانی وفد کو مشورہ دیا کہ حزب اللہ اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کر کے اس کی عسکری قوت کو بے بس بنا دے اور ایسا ہی ہوا اور اسرائیل کو شرمناک شکست اٹھانا پڑی۔ دوسرا مشورہ میں نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں دیا ہے کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو ایران شام عراق یمن اور غزہ کی جانب سے راکٹوں میزائیلوں اور ڈرونز کی بارش ہو گی اور ہزاروں خودکش حملہ آوروں کے حملے اسرائیل کو بے بس کردیں گے یہ ایک کارگر تدبیر ہے جس کا اسرائیل تو کیا امریکہ کے پاس کوئی توڑ نہیں ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کو خطرے کی سمجھ آ گئی اور اگر بات آگے بڑھی تو اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس لئے اسرائیل نے سب سے زیادہ شور مچایا کہ اس تنازعہ کو آگے نہ بڑھایا جائے اس لئے ٹرمپ نے تادیبی کاروائی کو مزید سخت اقتصادی پابندیوں تک محدود رکھا ہے۔

جنرل مرزا اسلم بیگ کی کتاب کے تمام ابواب دلچسپ ہیں اور تاریخی سند کی حیثیت رکھتے ہیں ۔حالات حاضرہ بالخصوص مشرق وسطیٰ کے حالات پر نظر رکھنے والے محققین اور طلبہ کو اس کتاب سے ضرو ر مستفید ہونا چاہیئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments