دیکھ بھائی! محمود اچکزئی ہر بار غلط نہیں ہوتا


نئے صوبے کی بات محمود اچکزئی ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان سے پہلے ایم کیو ایم، پی پی پی اور بہت سارے لوگ اور پارٹیاں یہ بات کر \"\"چکے ہیں۔ پی پی پی کی منافقت اس سلسلے میں پنجاب تک محدود رہتی ہے۔ سندھ کی تقسیم کی بات ایم کیوایم کرے یا کوئی اور تو پی پی پی کے سارے لیڈر ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر نفرت انگیز نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں اور آکسفورڈین بلاول زرداری تک مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کی دہائیاں دینے لگ جاتا ہے۔ پنجاب کی تقسیم والا اصول پھر نہ بلاول کو یاد رہتا ہے اور نہ ہی کسی اور سندھی لیڈر کو۔ ایم کیو ایم کا مسئلہ بھی لسانی تعصب کی چغلی کھاتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنے ساتھ زیادتیوں اور محرومیوں کی دکھ بھری داستانوں کے ساتھ اس وقت میڈیا پر اس مطالبے کو لے کر دھاڑیں مارتے دکھائی دیتے ہیں جب انہیں پی پی پی کی سندھ گورنمنٹ سے کوئی بات منوانی ہو (اب تو خیر سے ایم کیو ایم کچھ عرصہ کے لیے کسی بھی مطالبہ کو منوانے کیا پیش تک کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی ہے)۔ پی پی پی کی لیڈر شپ اس سلسلے میں خاصی مضحکہ خیز باتوں کے ساتھ اسکرینوں پر آکر براجمان ہوتی ہے۔ سندھ کو وہ دھرتی ماں کا درجہ دے دیتے ہیں اور مرسوں مرسوں کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ باقی صوبوں کے لیے بھی دھرتی ماں کا اصول اپنایا جا سکتا ہے۔ جب وہ ہماری لاشوں پر مہاجر صوبہ بنے گا کے احمقانہ بیان داغتے ہیں تو لوگ حیرت سے اس نام نہاد پیپلز پارٹی کو دیکھتے ہیں جو کہ عوام کی آواز سننا بھی گوارا نہیں کرتی ہے۔ اسی طرح جب خیبر پختونخوا میں ہندکو صوبہ کی بات کی جاتی ہے تو سب کی بولتی بند ہو جاتی ہے۔ بلوچستان میں پشتون صوبہ کا نعرہ لگایا جائے تو بندوقیں نکالنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ لے دے کر ایک پنجاب ہی سب کے لیے آسان ٹارگٹ رہ گیا ہے۔ جس میں ایک مدت سے سرائیکی صوبہ کی لولی لنگڑی تحریک (تحریک کے نام پر تہمت بھی کہا جاتا ہے اسے) تک چلائی گئی۔ ایک صاحب تاج لنگاہ کی ناتواں سی آواز کبھی کبھار سنائی دیتی تھی۔ لیکن اب وہ بھی مستقل طور پر خاموش ہو چکی ہے۔ اب اس تحریک کا کوئی نام لیوا تک نہیں رہا ہے۔ پی پی پی کے ملتان سے وزیراعظم گیلانی رہے لیکن اپنے دور میں انہیں سرائیکی صوبہ بنانے کی تو توفیق نہیں ہوئی ہاں اقتدار کے بعد پی پی پی کو سرائیکی صوبہ ضرور یاد آجاتا ہے اور وہ بھی پی پی پی سندھ کو۔

کیا آپ نے اب کبھی ہزارہ صوبہ کی آواز سنی؟ دیکھئے نئے صوبوں کی آواز ہمارے جیسے ملکوں میں قابلِ برداشت نہیں ہے۔ پھر ایک مسئلہ یہ بھی ہے یہاں انتظامی بنیادوں پر نہیں بلکہ لسانی بنیادوں پر نئے صوبے بنانے کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔ آپ کے سامنے خیبر پختونخوا کی مثال موجود ہے۔ اس کا نام اس بنیاد پر تبدیل کروایا گیا تھا کہ باقی صوبوں کے نام بھی ان کی زبانوں پنجابی بلوچی اور سندھی کی وجہ سے پنجاب، بلوچستان اور سندھ ہیں۔ حالانکہ یہ ایک تاریخی مغالطہ ہے اور خطرناک حد تک متعصبانہ اندازِ فکر۔ لیکن کیا کیا جائے کہ کوئی بھی آپ کی بات کو نہیں مانے گا۔ آپ انہیں کہیں کہ پنجاب کا نام دراصل پنج آب یعنی پانچ دریاؤں کی وجہ سے ہے تو وہ آپ کو چیر پھاڑ کھائیں گے۔ آپ کی بات کو احمقانہ کہہ کر نظر انداز کر دیں گے۔ انہیں تاریخی حقائق جاننے کی کوئی کھوج نہیں ہوگی اور نہ ہی وہ اپنی بات کو غلط ماننے کی طرف آئیں گے۔ ایسے ہی اندازِ فکر کی وجہ سے آج تک کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہیں ہو سکی ہے۔ کالا باغ ڈیم سے ایک واقعہ یاد آگیا۔ سابق ڈکٹیٹر مشرف نے ایک بار کسی کے مشورے پر سندھی صحافیوں اور ایڈیٹروں کو ایک جگہ کالاباغ ڈیم کے لیے قائل کرنے کے لیے لمبا چوڑا لیکچر دیا۔ اور اختتام پر پوچھا۔ آپ میں سے کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں رہا اب؟ ایک سندھی ایڈیٹر کھڑے ہوئے اور بولے۔ سائیں !آپ کی بات ٹھیک ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں کالا باغ ڈیم منظور نہیں ہے۔ اور اس پر مشرف غصے سے اٹھ کر چلے آئے تھے۔

آپ پنجاب کے حکمرانوں کو دیکھ لیں۔ ان کا بھی مسئلہ ہے۔ اتنا بڑا صوبہ ہے، ہزار طرح کے انتظامی مسائل ہیں لیکن انہیں بھی اس کی تقسیم گوارا نہیں ہے۔ باقی اگر ان کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچانے کے لیے پنجاب کی تقسیم چاہتے ہیں تو پنجاب کے حکمران بھی اپنے اس صوبہ کو اس لیے تقسیم کرنے سے خائف ہیں کہ کہیں ان کی اقتداری سیاست کو دھچکا نہ لگ جائے۔ لوگ ان پر تختِ لاہور کی پھبتیاں بھی کستے ہیں اور سارے ملک کا بجٹ پنجاب اور پھر لاہور میں لگانے پر بات بھی کرتے ہیں۔ لیکن انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ جنوبی پنجاب کے مخالف سیاستدان اکثر گلہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ لاہور والے کھا گئے، لوٹ گئے۔ ہمارا بجٹ بھی میٹرو اور اورنج لائن ٹرین پر لگایا جا رہا ہے۔ لیکن مجال ہے کوئی سن کے دے رہا ہو۔ اس کے ازالے کی کوئی کوشش کر رہا ہو؟ لیکن اس کے باوجود بھی یہ بات ایک کھلی حقیقت ہے کہ آج تک جنوبی پنجاب سے کوئی بھی علیحدگی کی آواز سنائی نہیں دی۔ بلکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب سرائیکی صوبہ کے نقشے میں جھنگ کو بھی زبردستی شامل دکھایا گیا تو خاکسار نے لاہور کے ایک ماہنامہ کے لیے جھنگ کے ممتاز ادیبوں، شاعروں اور دیگر شخصیات سے اس بارے آراء لیں تو سب نے ہی اس کی مخالفت کی اور اردو کے نامور نقاد اور ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈ پروفیسر ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے کہا کہ میں لسانی بنیاد پر نہیں ہاں انتظامی بنیاد پر نئے صوبے کے حق میں ہوں۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ محمود اچکزئی روٹین سے ہٹ کر افغانیہ صوبہ کی بات کر رہے ہیں تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اچکزئی نے کیا کوئی انہونی بات کر دی ہے؟ اچکزئی نے کیا غلط کہا ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں اور اعلیٰ افسروں کی ایک بڑی تعداد دہری شہریت کی حامل ہے؟ اگر پاکستانی دوسرے ملکوں کی شہریت لے سکتے ہیں تو افغانستان کے پشتون اور افغان کیوں نہیں ایسا کر سکتے؟ اور کیا کسی دوسرے ملک کی شہریت لینا یا دینا جرم ہے؟ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، فرانس، سنگاپور، ہالینڈ، جاپان اور کتنے ہی ملکوں میں پاکستانی وہاں کی شہریت اختیار کر چکے ہیں۔ تو پھر افغانستان کے پشتون اور افغان پاکستانی کیوں نہیں بن سکتے؟ جب کہ ان بے چاروں کو تو پاکستان میں رہتے ہوئے بھی تین عشرے ہو چکے ہیں۔ محمود اچکزئی کی بات پر آگ بگولہ ہونے والے بتائیں کہ کیا دنیا میں پہلی بار کوئی کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرے گا؟ دنیا کے ہر حصے میں لوگ منتقل ہوئے اور ان کی بودوباش اختیار کر کے ان کے اندر رچ بس گئے، گھل مل گئے۔ امریکہ برطانیہ اور دیگر کئی ملکوں میں لاکھوں مسلمان جا کر آباد ہو چکے ہیں۔ اگر وہ ممالک اپنے ہاں غیر مذہب کے لوگوں کو شہریت دینے کا حوصلہ کر سکتے ہیں تو ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے شہریت کے دروازے کھول کر ان کی مستقل آبادکاری کا قدم کیوں نہیں اٹھا سکتے؟ آخر کیا امر مانع ہے؟ یہی کہ آج تک اتنی بڑی تعداد میں کسی نے شہریت نہیں دی؟ دیکھئے یہ لوگ اب ہمارے شہروں، دیہاتوں، قصبوں اور بستیوں میں سالوں سے رہ رہے ہیں۔ ہمارا حصہ بن چکے ہیں۔ انہیں اپنا لیجیے۔ اچکزئی کی بات مان لیجیے۔ ان کے بارے کوئی تحفظات ہیں تو محمود اچکزئی اور ان کے دیگر رہنماؤں سے بات کیجیے۔ بات کسی طرف تو لگائیے جناب۔ معاملہ لٹکا کے کیوں رکھا ہوا ہے؟ کتنی نسلیں مزید برباد کریں گے آپ؟ یہ آدھا پاکستانی، آدھا افغانی والا معاملہ کب تک چلائیں گے؟ بس کریں خدارا بس کریں اب، جینے دیں۔ انہیں بھی اور ہمیں بھی۔ کنفیوژن نے ان کی نوجوان نسل میں سے بہت سوں کو طالبان بنا کر دنیا کے لیے وحشی اور دہشت گرد بنا چھوڑا ہے۔ محمود اچکزئی کی بات کچھ غلط نہیں ہے، سو فیصد درست کہہ رہے ہیں وہ۔ میں ایک اصلی تے وڈا پنجابی کم از کم اس معاملے میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔ آپ کی چپ ہمیں کوئی اور سانحہ نہ دکھا دے حضور؟ آج نہیں بولو گے تو کل، کل بھی کیا بولو گے یار؟ تمہاری چپ ہی تو ہے جس نے اس ملک کو آج بھی کنفیوژن میں رکھا ہوا ہے۔ محمود اچکزئی نے کنفیوژن کا خاتمہ کرنے کے لیے اچھی تجویز دی ہے۔ ذرا غور تو کیجیے اس پر۔ ممکن ہے اس پر عملدرآمد کے بعد اس ملک کے کئی مسائل رہیں ہی نہ۔

کیا کسی کو میری بات کی سمجھ آرہی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments