استنبول کی ترک خاتون اور پاکستانی محنت کش


استنبول کی ایمین انو سے لے کر گلاتا تک کے پانیوں پر چھوٹے بڑے جہازوں، سٹیمروں، لانچوں، فیری کشتیوں، فیری کروزوں، اور ان کے بکنگ آفسز قہوہ خانوں، دوکانوں اور لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو کہیں ترتیب اور کہیں بے ترتیبی سے بکھرا ہوا ہے۔ سلطان احمد فاتح پل بننے سے قبل دونوں حصّوں کے درمیان رابطے کا اہم ذریعہ فیری بوٹ اور کشتیاں ہی تھے۔

دو لکھنے والے اگر کِسی سفر پر اکٹھے ہوں اور ہوں بھی دو عورتیں تو بڑی مصیبت پڑجاتی ہے۔ کسی چیز کو نوٹ کرنے کے لئے کاپی کیا کُھلتی۔ سیما کی نوٹ بک بھی فوراً کُھل جاتی۔ یوں ایک مسابقاتی سی فضا جنم لے لیتی۔ بہرحال میرے ساتھ ایک تُرک بیٹھا تھا۔ اخبار کے مطالعہ میں محو تھا۔ میں نے متوجہ کیا۔ خیر توجہ تو فوراً کی مگرآنکھوں میں رکھائی اور سردمہری کی ہلکی سی تہہ نے مجھے ٹھنڈا کردیا۔ یوں بھی انگریزی سے بالکل پیدل تھا۔

مگر یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ دلکش اور ادھیڑ عمر کی عورت ملاحت سے ٹکراؤ ہوا۔ آبائی تعلق تو کرس Kars سے تھا۔ میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ آرمینیا سے ملتی سرحد کا شہر ہے۔ چار بچے دو بیٹے، دو بیٹیاں۔ ایک بیٹا بیٹی لندن اور ایک یہاں استنبول میں۔ استنبول کے یورپی حصّے کے ضلع فیری کوئے میں بیٹے کے پاس گذشتہ کوئی ہفتہ بھر سے تھی۔ آج ایشیائی حصّے میں مقیم بیٹی کے پاس جارہی تھی۔ لندن میں بھی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اسی لئے انگریزی میں بھی رواں تھی۔

سیکولر ترکی کے اسلام کی طرف رحجان سے متعلق کچھ سوالات کی ذہن میں کھلبلی سی تھی۔ اُن ہی کے بارے کچھ باتیں ہوئیں۔ پہلی اہم بات ترکی ایک سیکولر ملک ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق اسی سیکولرازم میں ہی اس کی بقا ہے۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومتی لوگ مذہبی رحجان رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اتاترک کے قائم کردہ سیکولر نظام کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ فرقہ واریت کو روکنے کا یہی موثر ترین ہتھیار ہے۔

اتاترک جیسا لیڈر کہیں صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اُن کا دور انہی اصلاحات کا مقتضی تھا۔ جو انہوں نے اس وقت کیں۔ سچی بات ہے کچھ اتحادیوں اور کچھ اپنوں کے ہاتھوں ترکی ایک جاں بہ لب مریض کی طرح آخری سانسوں پر تھا۔ جہالت اور مذہبی تنگ نظری معاشرے میں جڑوں تک اُتری ہوئی تھی۔ تو اُس وقت وہی علاج کرنے کی ضرورت تھی جو اتاترک نے کیا۔ ہاں کہیں کسی معاملے میں زیادتی بھی ہوئی کہ جب معاشرہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہو تو ایسا ہونا فطری امر ہے۔ طیب اردوان سے توقعات تو بہت ہیں۔ ترکی کی معیشت بہتر کرنے اور جمہوری اصلاحات لانے میں اُن کا ایجنڈا اور حکومت کے یہ چند سال اگر کچھ حوالوں سے بہت شاندار ہیں تو وہیں کچھ حوالوں سے قابل اعتراض بھی ہیں۔ یہ بات بہرحال ریکارڈ پر ہے کہ مئیر استنبول کی حیثیت سے انہوں نے خود کو منوایا۔ ہمیں ان کے مذہبی ہونے یا خاتون اول کے سکارف پہننے یا ری پبلکن پارٹی کے مقابلے پر نجم الدین اربکان ہی کی طرح کی اسلامی رحجان رکھنے والی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی سے بھی کوئی غرض نہیں۔ اقتدار اُن کے پاس ہے یا کسی اور کے پاس ہو۔ سوال صرف ملک کی بہتری اور ترقی سے ہے۔ رہا مذہب تو وہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ نجم الدین اربکان کی رکن پارلیمنٹ مروہ کو حجاب کرنے کے سلسلے میں پارلیمنٹ کی سیٹ سے محروم کردیا گیا تھا۔ ترکی کی پارلیمانی تاریخ کا یہ بہت گھٹیا فعل تھا۔

سیاسی پارٹیوں کے بارے میرے سوال پر انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ارے بہتیری ہیں۔ ری پبلکن تو اتاترک نے بنائی۔ ڈیموکریٹ پارٹی اس کے ساتھیوں نے کھڑی کی۔ جلال بایار، عدنان میندرس، رفیق قرلتان اور خواد کوپرولو۔ سعید نورسی اور نجم الدین اربکان اسلامی ذہن رکھنے والے لوگ تھے۔ وہ مختلف اوقات میں پابندیاں لگنے کے باعث نئے نئے ناموں سے پارٹیاں بناتے رہے۔ کہیں ملّی نظام، کہیں رفاہ، کہیں فصیلت اور کہیں سعادت۔ موجودہ طیب اردوان بھی انہی لوگوں کے نظریاتی رفیق ہیں۔ مگر کہیں اختلافات پر انہوں نے جسٹس اینڈ ڈوپلمنٹ پارٹی بنائی۔ یہی پارٹی آج کل حکمران ہے۔

یوں نائن الیون نے حالات بہت تبدیل کردیے ہیں۔ مغربی طاقتیں بھی بڑے اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتری ہوئی ہیں۔ میرے خیال میں لوگوں میں مذہبی، جذباتی ردّعمل کی شدت اسی بنا پر پیدا ہوئی ہے۔ ضرورت ہے کہ برداشت، رواداری اور احترام انسانیت معاشروں کا حسن بنے کہ ا سی میں ان کی عافیت ہے۔
جہاز کبھی یورپی کنارے کے ساتھ ساتھ چلتا اور کبھی درمیان میں آجاتا۔

اورتاکوئے کی مسجد کو دیکھنا بہت خوبصورت تھا۔ بیلر بیئی والے محل میں مقیم سلطان عبدالحمید کشتی میں سوار ہوکر اسی مسجد میں نماز کے لئے آیا کرتے تھے۔ یہ بھی ملاحت نے بتایا۔ ایشیا اور یورپ کو ملانے والا پُل باسفورس برج دور سے دیکھا۔ اسے اتاترک برج کا نام دیا گیا ہے۔ رومیلی حصار اور فاتح سلطان محمد برج دیکھے اور ان کے بارے ملاحت سے تھوڑا سا سنا بھی۔ جہاز نے ایشیا کی سمت ٹرن لیا۔ اسکدار میں لنگر انداز ہوا تو ملاحت رخصت ہوئی۔ ہم بھی نیچے اُترے۔ اب دائیں بائیں دیکھتے ہوئے جونہی ذرا آگے بڑھے۔ پہلا ٹکراؤ ایک پاکستانی لڑکے سے ہوا۔ داستان غم بڑی غمناک سی تھی کہ دو سال ہوئے بے چارے کو استنبول سے آگے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ کِسی سٹور پر ملازم تھا۔ رات کو سونے کی سہولت تھی۔ مالک بھی اچھے تھے۔ روٹی پانی کا خیال بھی کرلیتے تھے۔

لڑکے کا نام آصف تھا۔ گریجوایٹ تھا اور بہت ذہین اور سمجھدار لگتا تھا۔
اُسے اُسکدارسے واقفیت ہی نہ تھی بلکہ اس کیتاریخ سے بھی خاصا واقف تھا۔ لوگوں کے بارے میں بڑا دوٹوک تھا۔ اچھے محبت والے لوگ ہیں۔ راہولی کے کسی پس ماندہ سے گاؤں کے لڑکے کے ان کی مسلمانیت پر تحفظات ضرور تھے۔ لڑکے لڑکیوں کا راتوں کو شرابیں پینے اور موج مستی والے کام بھی اس کے نزدیک کچھ اتنے پسندیدہ نہیں تھے۔ مگر تقابلی جائزوں میں اُسکی ذہنی بلوغت کا پتہ چلتا تھا کہ پاکستانی دیہاتی علاقوں میں مذہب کی آڑ اور تاریکیوں میں جو تماشے ہوتے ہیں وہ اُن سے آگاہ تھا۔ اپنے معاشرے کی منفاقتوں پر بڑا شاکی تھا۔ ہم لوگوں نے مذہب کو بھی تجارت بنا لیا ہے۔ یہاں کم از کم یہ چیز تو نہیں۔ اُسے اُنکا کاموں کو جلدی جلدی کرنا، کاروباری اور ذاتی معاملا ت میں ایماندار ہونا بہت پسند تھا۔ ہمارے جیسے نہیں ہیں یہ چھلّے، سُستی کی پنڈیں اور بے ایمان۔

رمضان کی رونقوں کا اُسنے خصوصی ذکر کیا۔ تراویح اور ستائیسویں کی رات کو مسجدوں میں بڑا رش ہوتا ہے۔ ہماری طرح مولوی لمبے لمبے خطبے نہیں دیتے۔ مختصر نماز اور مختصر خطبہ۔ مولوی لوگ پڑھے لکھے، صاحب علم، داڑھی مونچھ سے تقریباً بے نیاز، پینٹ کوٹوں میں ملبوس بڑے خوبصورت لگتے ہیں۔

آصف نے محبت بھرا اصرار کیا کہ اُسے خدمت کا موقع دیں۔ اب بہتیرا ٹال مٹول کی۔ مگر وہ تو کچھ نہ کچھ کھلانے پر تلا ہوا تھا۔ قہوہ خانہ بڑا روایتی تھا۔ پیڑھے ٹائپ بیٹھنے کی کرسیاں آرام دہ تھیں۔ چسکیاں لے لے کر قہوہ پینا اور اردگرد کے منظروں سے آنکھیں سینکنا بڑے مزے کا شغل تھا۔ لڑکے بالے حقّے اُٹھائے گاہکوں کے آگے رکھ رہے تھے۔ بوٹ پالش کرنے والا ایک چھوکرا ہمارے پاس آکر ہمارے پیروں کودیکھنے لگا۔ کینوس کے جوتوں پر کیا پالش کرواتے۔ بل فوراً ادا کردیا۔ لڑکے کا اصرار اور ہماری مزاحمت کو سروس دینے والے نے بڑی دلچسپی سے ہنستے ہوئے دیکھا اور کچھ کہا بھی۔ ہمارے پلّے کیا پڑنا تھا۔ آصف نے ہی بتایا کہ کہتا ہے۔ آپ لوگ جھگڑا مت کریں۔ دونوں پیسے مجھے دے دیں۔

یہ سیما کی خواہش تھی کہ سلیمان ذی شان اور حورم کی لاڈلی بیٹی مہرماہ کی مسجد کی زیارت ضرور کرنی ہے اور نفل بھی پڑھنے ہیں۔ یہ چاند چہرہ اور لاڈو مہرماہ رستم پاشا کی بڑی دلاری بیوی تھی۔ مسجد سنان کے ہاتھوں کا شاہکار ہے۔ اس کے اندر ہم داخل ہی ہوئے تھے کہ ہمارے پیچھے خواتین کا ایک بڑا سا ریوڑ ہاتھوں میں خرید و فروخت کے تھیلے اٹھائے ہنستے مسکراتے داخل ہوا۔ ان میں اگر حجاب اور عبایا والی خواتین تھیں تو وہیں ننگی ٹانگوں اور اونچے سکرٹوں میں ملبوس نوجوان لڑکیا ں بھی تھیں۔ میں نے قدرے حیرت سے اِس منظر کو دیکھا اور ذرا ایک جانب ہوئی کہ دیکھوں تو سہی مسجد کے اندر ان کا داخلہ کیسے ہوتا ہے؟

لڑکیوں نے کمال اطمینان سے اپنے تھیلوں میں سے ایک کُھلا کپڑا نکالا۔ ٹانگوں پر لپیٹا۔ سروں پر رومال ڈالے مزے سے اپنے مخصوص حصّے میں چلی گئیں۔ تعاقب میں ہم بھی آگے بڑھے۔ روشن خیالی، رواداری اور برداشت کا یہ بڑا پراثر سا منظر تھا۔ حجاب والیوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا ان کے اس لباس پر اور نہ لڑکیوں کو کوئی شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔ اندر بھی ایسے ہی منظر تھے۔ ٹانگوں کو کور کرنے والیوں نے اگر فرض نماز پڑھی تو دو تین ویسے ہی بیٹھی بیج کھاتی رہیں۔ کِسی کو کِسی پر اعتراض نہیں تھا۔ بات چیت کی کوشش تو بہتری کی مگر سب انگریزی سے نابلد تھیں۔

آخر یہ جنوبی ایشیا کے عالم لوگ اتنے متعصب اور تنگ نظر کیوں ہیں؟ مسجدوں میں خواتین کو گھسنے ہی نہیں دیتے۔ دُردُر جیسا پوسٹر چہرے پر سجا کر دفع دُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سری لنکا کے شہر انورادھا پور میں میرے ساتھ جو ہوا وہ تو کبھی بھولتا ہی نہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تو چوتھا حصّہ خواتین کے لئے مخصوص ہے۔ ہمارے ہاں چوتھا چھوڑ پانچواں تو ہونا چاہیے۔ آصف باہر ہمارے انتظار میں بیٹھا تھا۔

ہمارے یہ پُوچھنے پر کہ یہاں کی کوئی خاص چیزکوئی سوغات یا کوئی یادگار کیا چیز دیکھنے والی ہے۔ اُس نے ہنستے ہوئے کہا۔ یہاں ختنے کی رسم بہت مزے کی ہوتی ہے۔ دیہاتوں میں تو بہت دھوم دھام والا سماں ہوتا ہے مگر شہروں میں بھی اس کا بے حد اہتمام ہے۔

چھوٹا بچہ جسے زرق برق کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ چمکدار کپڑے کی ٹوپی، پشت پر لہراتا کڑھائی سے مزین ہڈ اور ہمارے ہاں کی جیکٹوں جیسی واسکٹیں جو شوخ چمکدار طلا کشی کے کام سے مزین ہوتی ہیں۔ سجے سنورے گھوڑے پر بٹھا کر سواری کروائی جاتی ہے۔ بڑا دھوم دھڑکا ہوتا ہے۔ اگر بچہ بہت ہی چھوٹا ہو تو کوئی اُسکا چاچا، ماما یا باپ گود میں لے کر گھوڑے پر بیٹھتا ہے۔ کھانے بھی پکتے ہیں اور رشتہ دار بھی مدعو ہوتے ہیں اور اجنبی بھی چاہیں تو شوق سے شامل ہوجائیں۔

دور دراز کے دیہاتوں میں کشتی بھی بہت پسند کی جاتی ہے۔ میرے مالکوں کا آبائی گھر انقرہ کی طرف ہے۔ دونوں میٹھی عیدوں پر وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ کشتی کے منظر ہمارے ہاں جیسے ہی تھے۔ ڈھول کا بجنا، جسموں پر تیل کا ملنا، لوگوں کے جمگٹھے شور، تالیاں اورسیٹیاں بہت مزہ آتا ہے۔ مجھے تو اپنا وطن رہ رہ کر یاد آیا تھا۔

آصف بڑا جذباتی سا ہوگیا تھا۔ ہم نے بھی اُس کی ہوم سکنس کو محسوس کیا۔ دلداری کی۔ اچھے دنوں کی نوید سنائی۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ اِس جذباتی کیفیت سے نکلا تو بولا۔ دوسرے یہاں خاص طور پر اُسکدار میں درویشوں کا ایک ناچ ہوتا ہے۔
میں نے بات کاٹی وہ مولانا رومی کے درویشوں والا۔

”نہیں نہیں۔ یہ ایک اور طرح کا ہے۔ اس کے درویش اونچے اونچے روتے اور شور مچاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اُن پر پاگل پن کا دورہ پڑگیا ہو۔ ان کے چہروں کو بھیڑ کی کھالوں سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ ان کا قائد شیخ پھر ان کے جسموں کے اوپر سے گزرتا ہے۔ یہ پیروں کی برکت کا عمل ہے۔

درویشوں کے ناچ کا وقت رات کو تھا اور ختنے کی رسم دیکھنے کے لئے ہمارے بچپن کے زمانوں کے خسروں جیسا صبر اور گلی گلی، کوچہ کوچہ خواری کی ضرورت تھی جو وہ کرتے تھے یہ جاننے کے لئے کہ منڈا کِس گھر ہوا ہے؟

نہ بابا نہ جوانی ہوتی تو نکل پڑتے اورڈھونڈلیتے کہ ختنے کی رسم کِس گھر میں منائی جارہی ہے۔
ایک دلچسپ اور مزے کی بات اُس سے اور بھی سُنی کہ جب کبھی حکومت یا ضلعی انتظامیہ کے خلاف کوئی احتجاج کرنا ہو تو گھروں میں برتن بجائے جاتے ہیں۔
ارے ہم دونوں ہنس پڑی۔ بڑی مزے کی بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).