معین قریشی کے انتقال سے یاد آنے والی شیروانی


\"Nusrat-Javed\"مجھے اگر ڈھنگ سے لکھنے کی توفیق ہوتی تو آپ کے جی کوخوش کرنے کو ایک مضمون لکھتا۔ عنوان اس کا ہوتا’’شیروانی کی تلاش‘‘۔ وہ شیروانی جس کا ذکر اس مضمون میں ہوتا مختلف لوگوں کو ان لمحات میں درکار تھی جب اس ملک کے مقتدر حلقوں نے انہیں کسی وزارت کا حلف اٹھانے کی نوید سنائی۔ انہیں یہ اطلاع ملنے اور حلف اٹھانے کے درمیان کا وقفہ بہت کم ہوتا ۔ اس وقفے میں کوئی ماہر ترین درزی بھی ان کے جسم پر فٹ آنے والی شیروانی تیارنہیں کرسکتا تھا۔ اس مجبوری کو ذہن میں رکھتے ہوئے بہت ہی خفیہ اندازمیں وزارتوں کی امید دلائے لوگ اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے رجوع کرتے ۔ ایسی شیروانی کی تلاش شروع ہوجاتی جو ان کے جسم پر فٹ آسکے اور یہ تلاش مجھ ایسے رپورٹر کو چونکا دینے والی خبریں فراہم کرنے کا سبب بن جاتی۔

مارچ-اپریل 1990ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔اس سال مئی کے پہلے ہفتے میں کئی ایسے لوگ جن کی معلومات اور تجزیوں پر میں آنکھ بند کرکے اعتبار کرنے کو تیار تھا، مجھے ذہنی طورپر محترمہ کی فراغت کے لئے تیار کرنا شروع ہوگئے۔ میں نے اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں The Nationکے لئے لکھے کالموں میں اشاروں کنایوں میں اس ممکنہ فراغت کا تذکرہ شروع کردیا۔

بادشاہ کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے گرد جمع ہوئے شاہ سے زیادہ وفادار ہوتے ہیں۔ایسے ہی وفاداروں نے محترمہ کو بہت تواتر کے ساتھ اس بات پر قائل کرنا شروع کردیا کہ چونکہ مجیدنظامی صاحب مبینہ طورپر نواز شریف کے سرپرست ہیں،اس لئے ان کے حکم پر میں ان کی فراغت کی فضا بنارہا ہوں۔

حقیقت حالانکہ اس کے بالکل برعکس تھی۔ مجید صاحب میری’’وکھری ٹائپ‘‘ خبروں کو پسند کرتے ہوئے بھی ہمیشہ احتیاط کا مشورہ دیتے۔ ان کی بتائی’’احتیاط‘‘ مجھے خوفزدہ کرنے کے لئے ہرگز نہیں ہوا کرتی تھی۔ ان کا صرف اور صرف مقصد یہ ہوتا کہ میں بطور رپورٹر اپنی ساکھ کو ایسی خبروں کی تلاش میں تباہ نہ کر بیٹھوں۔ جسے ہمارے دھندے میں Multiple Sourcingکہا جاتا ہے، اس کے استعمال پر مجید صاحب ہمیشہ زور دیتے اور یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کرتے کہ خبر ملتے ہی اسے شائع کروانے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی Confirmationمیں کچھ وقت صرف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

خبر کی صداقت کے معاملے میں وہ اتنے بااصول تھے کہ ستمبر 1989ء کی ایک صبح جب محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونا تھی تو اس دن کے چھپے The Nationمیں بڑے اعتماد کے ساتھ میں نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ تحریک ناکام ہوجائے گی۔ لاہور میں ڈیسک پر بیٹھے چند محتاط افرادیہ خبر شائع کرنے کو تیار نہ تھے۔

مجیدصاحب دفتر سے جب گھر لوٹ جاتے تو مجھ ایسا رپورٹر ان سے فون کے ذریعے رابطہ کرنے کی جرأت ہی نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے ان کے سونے کے وقت کے قریب مگر فون کرلیا۔انتہائی بیزاری سے انہوں نے پنجابی میں حیرانی کا اظہار کیا کہ اگر میں حکومتی اور مخالف کیمپوں کے اہم ترین افراد سے مسلسل رابطوں کے بعد تحریکِ عدم اعتماد کے ناکام ہونے کا دعویٰ کررہا ہوں تو ڈیسک میری دی ہوئی خبر چھاپنے سے کیوں گھبرارہا ہے۔’’کیا انہیں اسلام آباد کے بیوروچیف پر اعتماد نہیں؟‘‘

محترمہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی مگر ان کی حکومت کو وقت سے پہلے گھر بھیجنے کی گیم لگ چکی تھی۔ مارچ-اپریل 1990میں غلام اسحاق خان نے ذہن بنالیا تھا۔ خدشہ مگر یہ تھا کہ فوری طورپر اس حکومت کو فارغ کردیا گیا تو نئے انتخابات سے قبل قائم ہوئی حکومت کو بجٹ تیار کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ واشنگٹن اور مختلف عالمی اداروں میں بیٹھے لوگ بھی شاید’’جمہوری تعطل‘‘ کو قرض وامداد فراہم کرنے کو تیار نہ ہوں۔ لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ محترمہ کو بجٹ بنانے اور اسے پاس کروانے کی مہلت دی جائے۔

جون 1990ء کے آخری ہفتے میں محترمہ کی حکومت کا بجٹ پاس ہوگیا تو اس وقت کے سپیکر یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں قومی اسمبلی کے اراکین کے لئے کھانے کی دعوت کی۔ اپوزیشن نے اس کھانے کا بائیکاٹ کیا۔ حکومتی اراکین کو مگر اس کی پرواہ نہ تھی۔ کوئی بجٹ پاس کرواکر ایک حکومت کئی حوالوں سے قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ اسے گھر بھیجنے کی خواہش رکھنے والے پریشان ہوجاتے ہیں۔ہماری جمہوری روایات مگر اتنی طاقت ور نہیں۔

محترمہ اور ان کے وفاداروں کو ہرگز خبر نہیں تھی کہ انہیں بجٹ بنانے اور اسے پاس کروانے کی محض مہلت دی گئی ہے۔ یہ طے تھا کہ جولائی 1990ء کے کسی دن حکومت کو صدارتی تقریر کے ذریعے فارغ کردیا جائے گا۔ یہ فیصلہ تو ہوچکا تھا کہ غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم، محترمہ کو فارغ کرنے کے بعد قائم مقام وزیر اعظم بنائے جائیں گے۔ اس وقت کے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ کا نام بھی فائنل تھا۔ بلوچستان کا بندوبست بھی ہوچکا تھا۔ سندھ کے معاملے میں لیکن جام صادق علی مرحوم کو Clearanceنہیں مل پارہی تھی۔ پنجاب میں قائم مقام وزیر اعلیٰ کے اصل امیدوار چودھری نثار علی خان تھے۔غلام اسحاق خان کی ترجیح مگر خواجہ غلام حیدر وائیں مرحوم تھے۔ جولائی کے دوسرے ہفتے میں جام صادق علی کی Clearance آگئی۔ پنجاب کا فیصلہ مگر ہونہ سکا۔غلام اسحاق خان نے اس ضمن میں من مانی کا فیصلہ کرلیا۔

4اگست کی دوپہر مجھے خبر ملی کہ رفیع رضا کے لئے شیروانی ڈھونڈی جارہی ہے۔یہ صاحب ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی دوست سمجھے جاتے تھے۔ ان کی حکومت میں اہم ترین وزارتوں پر بھی فائز رہے۔جولائی 1977کے بعد مگر وہ سین سے غائب ہوگئے۔ ان کی طویل عرصے کے بعد اسلام آباد آمد اور شیروانی کی تلاش نے مجھے حیران کردیا۔کئی گھنٹے صرف کرنے کے بعد 5جولائی کی شب خبر کنفرم ہوگئی کہ 6اگست کو غلام مصطفیٰ جتوئی اور ان کی کابینہ حلف اٹھانے والی ہے۔ رضا ربانی کا نام بھی ممکنہ وزیروں کی فہرست میں شامل تھا۔ ان کے لئے شیروانی کی تلاش نے مجھے درحقیقت 6اگست 1990ء کے روز محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے فارغ ہونے کی خبر فراہم کی تھی۔

ایک شیروانی کی تلاش ہی نے مجھے بالآخر یہ معلوم کرنے کی راہ پر ڈالا کہ 1950ء کی دہائی میں پاکستان کی پلاننگ ڈویژن سے استعفیٰ دے کر معین قریشی نام کے ایک صاحب امریکہ چلے گئے تھے۔ وہاں کئی برسوں تک انہوں نے ورلڈ بینک کے لئے کام بھی کیا۔ بعدازاں کوئی ذاتی کاروبار کرنا شروع ہوگئے۔

ہوا یوں تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو فارغ کرنے کے دو سال بعد غلام اسحاق خان نے اپریل 1992ء میں نواز شریف کی پہلی حکومت کو بھی صدارتی تقریر کے ذریعے گھر بھیج دیا۔ سپریم کورٹ نے ان کے اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دے کر ’’تاریخ‘‘بنائی۔ پنجاب کے ضدی گورنرچودھری الطاف حسین مگر ڈٹ گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اس تاریخی فیصلے کو ’’(پیسے کی)چمک‘‘ کا کرشمہ کہا اور نواز شریف حکومت کے خلاف اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا فیصلہ کرلیا۔

اس لانگ مارچ کو روکنے کے لئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ متحرک ہوئے۔ نواز شریف اور محترمہ کے ساتھ رابطوں اور ملاقاتوں کے بعد فیصلہ ہوا کہ نئے انتخابات کروائے جائیں گے۔ نواز شریف کو یقین تھا کہ غلام اسحاق خان کے خلاف بغاوت کی وجہ سے وہ عوام میں ایک ’’دلیر‘‘ لیڈر کی طرح متعارف ہوگئے ہیں۔یہ دلیری انہیں نئے انتخابات میں کامیاب کروائے گی۔ نئے انتخابات کے لئے وہ اس لئے بھی تیار ہوگئے کیونکہ غلام اسحاق خان سے بھی استعفیٰ لے لیا گیا تھا۔ ’’کاکڑ فارمولا‘‘ کارآمد ہوگیا تو سوال اُٹھا کہ قائم مقام وزیر اعظم کون ہوگا۔ اسلام آباد کا ہر رپورٹر اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔ میں بھی دیوانوں کی طرح خجل خوار ہوتا بالآخر ایک طاقت ور سرکاری افسر کے گھر چلا گیا جن سے کوئی خبر کبھی چھپی نہیں رہتی تھی۔

وہ صاحب تو گھر پر موجود نہ تھے مگر ان کا پرسنل سیکرٹری ڈرائیور کے ساتھ گھر سے باہر نکل رہا تھا۔کار کی پچھلی نشست پر شیروانیوں کی ایک قطار مختلف بنڈلوں کی صورت رکھی نظر آرہی تھی۔ میں نے پرسنل سیکرٹری کو باتوں میں لگاکر شیروانیوں پر نظر ڈالی تو نوٹس کیا کہ وہ سب اسلام آباد کے ایک مشہور درزی کی دوکان سے آئی ہیں اوریہ مختلف گاہکوں کے لئے تیار کی گئی ہیں۔ یہ نوٹس کرتے ہی میں اس پرسنل سیکرٹری کی جان چھوڑنے کو ہرگز تیار نہ تھا۔ بالآخر وہ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا کہ واشنگٹن سے کوئی معین قریشی نام کے صاحب آئے ہیں۔ انہیں کسی عہدے کا حلف لینا ہے اور فوری طورپر ان کو فٹ ہونے والی شیروانی درکار ہے۔ پرسنل سیکرٹری کو اس سے زیادہ کچھ علم نہیں تھا۔ویسے بھی دیر ہورہی تھی۔ معین قریشی کا نام مجھے معلوم ہوگیا۔ ان کے بار ے میں تفصیلات جمع کرنے میں گھنٹے لگ گئے۔ انہیں قائم مقام وزیر اعظم ہونا تھا اور اب ان کے انتقال کی خبر آگئی ہے۔

(بشکریہ: نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments